شوکت خانم مرحومہ ( انوار حسین حقی کا کالم )
حدِ ادب
انوار حسین حقی
ٍٍٍ شوکت خانم مرحومہ
________________
29 ۔ دسمبر2015 ء کو پشاور میں شوکت خانم ہسپتال کا افتتاح ہوا ۔ انسایت کی فلاح کے لئے شوکت خانم میموریل ہسپتال کی خدمات کے مثالی تسلسل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ پاکستان میں جہاں حکومت کے لئے سرکاری وسائل کے باوجود صحتِ عامہ کے ادارے کامیابی سے چلانا مشکل ہے ۔ وہاں کینسر کے مہلک مرض کے مہنگے ترین علاج کو ایک چیئرٹی ادار ے کے ذریعے سے ممکن بنانا انتہائی مشکل کام ہے ۔قریباً تین دہائیوں کی اس بے مثال جد وجہد میں سسکتے ، تڑپتے ، بے کس ، لاچار اور مجبور لوگوں کی سب سے زیادہ دعائیں شوکت خانم مرحومہ کے حصہ میں آئی ہیں ۔ احمد حسن خان برکی کی بیٹی شوکت خانم کو اللہ پاک نے انسانی تاریخ کا ایک لازوال نام بنا دیا ہے ۔ مرحومہ کے اکلوتے بیٹے نے انسانیت سے محبت کی ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے اپنی شہنشاہانہ زندگی کو قربان کرکے صحت اور تعلیم کے میدان میں بڑے نصب العین کو جنون بنا کر آخرت سنوار لی ہے ۔
شوکت خانم مرحومہ کی تربیت نے لیجنڈ ،کرکٹر اور عظیم ہیرو عمران خان کی تربیت میں نہ صرف بنیادی کردار ادا کیا بلکہ اپنے بیٹے کی شخصیت پر ان مٹ نقوش بھی چھوڑے ۔ مرحومہ وزیر ستان کے سب سے بڑے قصبہ کانی گرام کے برکی قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں ۔پاک افغان تورخم بارڈر کے قریب اس زرخیز وادی کے لوگوں کا سر ہمیشہ اِس فخر سے بلند رہا ہے کہ انہوں نے کبھی فرنگی کی غلامی کو قبول نہیں کیا ۔اس قبیلے کی حریت اور بہادری میں ان افغانوں کی جرائتوں کا عکس نظر آتا ہے جنہوں نے بیرونی جارح افواج کو کبھی اپنے خطے میں قدم نہیں جمانے دیئے ۔
ولیم ڈیل رمپل (Wiliam Deal Rumal ) ایک انگریز مصنف ہیں جنہیں برِ صغیر میں مغلوں کی تاریخ پر اتھارٹی سمجھا جا تا ہے ۔ اپنی کتاب ’’ The Last Mughal ‘‘ میں وہ افغان اور ان سے ملحقہ برکی قبائل کے علاقوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ 1843 ء میں اٹھارہ ہزار فوجیوں کی مدد سے برطانیہ نے افغانستان پر چڑھائی کی ۔ افغانون نے یہ جنگ جیت لی ۔ اٹھارہ ہزار فوجیوں میں سے صرف ایک فوجی کو زندہ چھوڑا ، تاکہ وہ واپس جا کر اپنی حکومت کو بتا سکے کی اُس کی بھیجی ہوئی فوج کا کیا حشر ہوا ہے ۔ چار سال بعد انگریز وں نے دوبارہ افغانستان پر حملہ کیا اس کے ایک حصے پر قابض بھی ہو گئے لیکن چھ ماہ بعد افغانوں نے گوریلا وار چھیڑ دی جو ان کے نزدیک جہاد کا درجہ رکھتا تھا اس جہاد میں بھی انگریزوں کا وہی حشر ہوا جو پہلے ہوا تھا یعنی انگریزوں کو شکست ۔ بدترین شکست ‘‘
اس کے بعد کے معرکوں میں بھی پٹھانوں نے کسی کی اجارہ داری قبول نہیں کی ۔روس کو ہار ماننا پڑی اور اب امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج بھی واپسی کی راہ تک رہی ہیں ۔ اسی حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ’’ امریکی صدر بُش اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو اگر کوئی دس منٹ پہلے افغانستان پر حملہ آوروں کے عبرتناک انجام سے آگاہ کر دیتا تو شاید یہ دونوں افغانستان پر حملہ آور ہونے کی غلطی کبھی نہ کرتے ۔‘‘
کانی گرام کا یہ برکی قبیلہ بعد میں بھارت کے علاقے جالندھر کے قریب ’’بستی پٹھاناں ‘‘ نام کے گاؤں میں منتقل ہو گیا ۔ یہ علاقہ لاہور سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ قبیلہ ہجرت کرکے پاکستان آگیا اور لاہور کے زمان پارک کو اپنا مسکن بنا لیا ۔
عمران خان نے اپنی ماں کی میٹھی لوری سے جو ساز اخذ کیا وہ غلامی سے نجات او ر بغاوت کاتھا ۔۔۔۔عمران خان خود کہتے ہیں کہ میری زندگی پر سب سے زیدہ اثر میری ماں کا ہے ۔وہ ایک مکمل ماں تھیں ہر چیز اپنے خاندان پر قربان کر دینے والی ۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے خوب یاد ہے کہ میں اپنے زخم ان سے چھُپا لیا کرتا تھا تا کہ انہیں صدمہ نہ پہنچے ۔۔۔۔۔ پھر جب عمران خان نے اپنی ماں کو کینسر کی جان لیوا اور اذیت ناک بیماری کے مراحل سے گذرتے دیکھا تو بے چین ہو گیا ۔۔ اُسے اپنی ماں کی وہ اذیت اور تکلیف کبھی نہیں بھولی جو مرحومہ نے اپنی بیماری کے دوران برداشت کی ۔ ماں سے محبت نے اس کے اندر کے سرمدی انسان کو اس انداز سے جھنجوڑا کے اُس نے عہد کر لیا کہ کوئی ایسا کام کیا جائے کہ آج کے بعد کوئی بیٹا یا بیٹی اپنی ماں کو ایسی اذیت میں نہ دیکھے ۔ وہ اس خطے کا شاید واحد سیاستدان ہے جس نے سرکاری وسائل کے بغیر شوکت خانم میموریل ہسپتال اور نمل شہر علم جیسے عظیم الشان منصوبے بنا کر اور چلا کر دکھائے ۔۔
پشاور میں شوکت خانم مموریل ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر شوکت خانم مرحومہ کی مرقد آسودگی سے منور ہوگی ۔ اس لیئے کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ہر شب دعا مانگنے کی یاد دہانی کرواتی تھیں ۔ بیٹے کے ماتھے پر صحبوں جیسا ہاتھ رکھ کر بسم اللہ کا نور برساتی تھیں اور اُس کی نیند کو ’’ آیتہ الکُرسی ‘‘ کا انعام دیتی تھیں ۔وہ اپنے بچوں کو رات کو ہر روز کہانی سُنایا کرتی تھیں یہ کہانی اخلاقی سبق سے مزین ہوتی تھی ۔ ماں کی ان کہانیوں اور لوری کے گیتوں میں سوزِ عرب اور حُسنِ عجم رچا ہوا ہوتا تھا ۔ شوکت خانم مرحومہ کے ایثار میں الوہی راز پوشیدہ تھے جس نے کھلنڈرے عمران خان کو انسانیت سے محبت ، خودداری اور بیباکی کا ایک آتش فشاں بنا دیا ۔
عمران خان کے والد اکرام اللہ خان نیازی کے خاندان کی اقبال ؒ اور قائد سے وابستگی اور تحریک پاکستان سے والہانہ وابستگی نے محترمہ شوکت خانم کی تربیت کے لیئے مہمیز کا کام دیا یہی وجہ ہے شہرت کی بلندیوں کے باوجود عمران خان نے مغرب کی چکا چوند میں گم ہونے کی بجائے پاکستان کو اپنی محبت اور اُلفت کا گہوارہ بنایا او ر پاک سرزمین کی مانگ کو گلوں سے بھرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس مقصد کے حصول میں انہیں بے پناہ قربانیاں دینا پڑیں اپنا سکون حتیٰ کہ نجی زندگی کی آشائشیں بھی قربان کر دیں ۔ لیکن وہ اپنے مقصد سے جُڑا ہوا ہے ۔ آنے والا ہر دن شوکت خانم اور نمل شہر علم سے اُس کی کمٹمنٹ کو مضبوط کرتا نظر آتا ہے ۔ وہ غلامی کے خوف کو پاکستانیوں کے ذہنوں پر مسلط کرنے کے ہر حربے کو ناکام بنانا چاہتا ہے ۔ اُس کے نزدیک زندگی کا مقصد کبھی دولت بڑھانا اور غبارے اُڑانا نہیں رہا ۔اُس نے دولت کو اپنی پاؤں کی ٹھوکر بنا کر خود کو تاریخ کی ٹھوکر بننے سے بچا لیا ۔اُس کا جنون بڑھنے کے ساتھ ساتھ لافانی ہوتا جار ہا ہے ۔
شوکت خانم مرحومہ کا نام انسانیت سے محبت اور سسکتے مجبور ، مقہور اور مجبور لوگوں کے زخموں پر مرحوم رکھنے والوں کے لیئے ہمیشہ ترغیب کی راہیں کُشادہ کر تا رہے گا ۔ اور عمران خان ہمیشہ اپنی والدہ مرحومہ کو ان الفاظ میں یاد کرتے نظر آئیں گے
یہ بھی تو تیری دعاؤں کا کرم ہے ماں
شہرانسانیت میں میر ی ذات اہم ہے ماں
مہر ہے تیری ساون سے بھری یادوں میں
اب بھی قائم میری آنکھوں کا بھرم ہے ماں
تیری راتوں کی تھکن قرض تھی سو قرض رہی
کچھ بھی واپس نہ کیا بس یہی غم ہے ماں