کالم

عالمی بردہ فروش

آئینہ
عالیہ جمشید خاکوانی
عالمی بردہ فروش
ایک چھوٹے سے کمرے کا منظر ہے ایک تین ساڑھے تین سال کی بچی سیدھی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کر رہی ہے کمرے کے درمیان میں چھت سے ایک جھولا لٹک رہا ہے وہ جھولے سے لٹکتی ہے الٹی قلابازیاں کھاتی گدے پر سیدھی کھڑی ہو جاتی ہے اس کا ٹرینر اسے تھپکی دیتا ہے اور دوسرا کرتب سکھانے لگتا ہے چھوٹے بچوں کو یہ کرتب سیکھتے ہم نے اکثر دیکھا ہو گا جمناسٹک بہت چھوٹی عمر میں سکھائی جاتی ہے لیکن یہ باتیں پرانی ہوتی جا رہی ہیں ایک اور منظر ہے دس سے پندرہ سال کے لڑکے ٹرینڈ ہو رہے ہیں چلتی کار کے اوپر سے اس طرح گذرنا کہ گاڑی ٹچ بھی نہ ہو ،چھت پر سے چھلانگ لگانا نیچے مضبوط کھونٹوں سے بندھے کپڑے کے اوپر گرنا ،چلتی موٹر سائیکل پر سے دیوار پر چڑھنا دو انگلیوں کی مدد سے آنکھیں پھوڑنا ،کراٹے کے ایک ہی وار سے گردن کی ہڈی توڑنا ،یہ بھی بچوں کی ٹریننگ ہے ،اب ایک اور منظر برتن میں پانی ابل رہا ہے ایک آدمی ایک چار پانچ سال کے بچے کے دونوں ہاتھ پکڑ کے بیٹھا ہے دوسرا آدمی ابلتا پانی لا کے اس کے سامنے رکھتا ہے پہلا آدمی جو بچے کے ہاتھ پکڑ کے بیٹھا ہے بچے کے دونوں ہاتھ ابلتے پانی میں ڈالتا ہے ایک چیخ ابھرتی ہے دوسرے منظر میں بچے کی مرہم پٹی کرتے دکھایا گیا ہے اور بچہ مسکرا رہا ہے کیونکہ یہ اس کی ٹریننگ ہو رہی ہے ،ایک بڑی سی دیگ میں پانی کھول رہا ہے اور اظراف میں کھڑے آدمی زندہ سانپ اس میں ڈال رہے ہیں سانپ بل کھا کھا کر باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ انہیں دوبارہ واپس ڈال دیتے ہیں یہ ایک قسم کا سوپ تیار ہو رہا ہے جو اس کو پیئیں گے ظاہر ہے کسی دین یا مسلک سے بندھے ہوئے نہیں ہونگے علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا ’’قوم مذہب سے ہے ،مذہب جو نہیں تم بھی نہیں ‘‘کافی عرصے سے مذاہب کو متنازع بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں نئی نسل کو سکھایا جا رہا ہے انسانیت صرف انسانیت باقی کوئی مذہب نہیں ہوتا یہ ایک ایسی پٹی ہے جو نئی نسل کی آنکھوں پہ باندھی جا رہی ہے میں سمجھتی ہوں انسانیت بہت عظیم رشتہ ہے لیکن انسانیت کو کام میں لایا جائے انسانیت کی خدمت کی جائے اسے لادینیت مت سمجھا جائے میں نے بہت سی ایسی سائٹس دیکھی ہیں جہاں انسانیت کا ایسا سبق پڑھایا جا رہا ہے جو نہ تو کسی مذہب کو مانتا ہے نہ ملک و قوم کو ،نہ سرحدوں کو ،نہ ہی رشتوں کی حدوں کو ،نہ شرم و حیا کو ،بس من مانی ہے اور پیسے سے بندھا ہے ہر رشتہ ،جب اس طرح کے سبق ملنا شروع ہو جائیں تو کیا باقی رہے گا ؟آخر اللہ نے آخری نبی اور آخری کتاب قران کیوں اتارا ؟صرف اس لیے کہ انسان دین کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہیں ،قران سے ہدایت لیں جس میں ہر ایک بات کھول کھول کے بیان کی گئی ہے پھر بھی ہم ایک بھٹکی ہوئی قوم کیوں بن گئے ہیں ؟تب ہی تو یہ فتنے جنم لے رہے ہیں عذاب اتر رہے ہیں ہم بڑی محدود سوچ رکھتے ہیں ہم سمجھتے ہیں جو بچے اغوا ہو رہے ہیں ان کے ہاتھ پاؤں توڑ کر ان سے بھیک منگوائی جائے گی یا انہیں جیب کترا اور چور بنا دیا جائے گا یا پھر ان کے ساتھ جنسی درندگی کی جائے گی یہ بہت معمولی کام ہیں جو برسہا برس سے ہو رہے ہیں اب کے کھیل کچھ اور ہے پچھلے تین برس میں صرف پنجاب سے آٹھ ہزار بچے اغوا ہو چکے ہیں لیکن ہمارے ارباب اقتدار اسے معمولی کاروائی قرار دے رہے ہیں وہ کرپشن کی طرح اسے بھی جرم نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کرپشن ہوتی رہتی ہے بس جمہوریت کو پنپنے دیا جائے آخر اسی میں سے اچھے لوگ فلٹر ہو کے نکل آئیں گے اسی طرح وہ بچوں کے اغوا میں سے بھی ایک خیر کا پہلو نکال لیں گے کہ اچھا ہے ماں باپ اپنے بچوں کی روٹی کپڑے کی فکر سے آزاد ہوئے وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان بچوں سے وہ کام لیا جائے گا جو ہمارے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہو گی جب بھی جنگیں ہوتی ہیں جن کے نتیجے میں عورتیں اور بچے لاوارث ہوتے ہیں ایک نئی برائی جنم لیتی ہے افغانستان ،عراق اور دوسرے کئی ملکوں میں جو جنگیں ہوئیں ان کے نتیجے میں کئی ایسے گروہ ابھر کے سامنے آئے جن کے مظالم نے شرف انسانیت کو گہنا دیا آج اگر پاک فوج نہ ہوتی تو خدا نخواستہ ہم بھی ایسی ہی صورتحال سے دو چار ہوتے لیکن اتنی تعداد میں بچوں کا اغوا ہونا اور صاحب اقتدار لوگوں کا درگذر کرنا یا تحقیقات میں رکاوٹ بننا لمحہ فکریہ ہے ایجنسیوں کو فوراً حرکت میں آ جانا چاہیے بلکہ میں نے تو سنا ہے پولیس نے اس سلسلے میں مدد بھی مانگ لی ہے یہ بہت خطرناک ہے ابھی تو بڑے لوگوں کے بچے محفوظ ہیں لیکن کب تک؟ جو فصل بوئی جا رہی ہے یہ کاٹنی بھی پڑے گی ایک شخص سوال کرتا ہے کہ بڑے لوگوں کے بچے تو کئی سالوں بعد بھی زندہ سلامت واپس آ رہے ہیں غریبوں کے بچے کبھی واپس نہیں ملتے کیوں؟اس لیے کہ وہی بچے ٹرینڈ کر کے کارکن بنائے جا رہے ہیں انہی امیر لوگوں کو کوئی بچانے والا نہیں ہوگا جس طرح کی سخت تربیت سے گذر کے وہ دہشت گرد بنیں گے وہ اس دنیا کے امن کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہوں گے یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے امریکہ نے برسوں پہلے فلسطینیوں کے بچے استعمال کیے پھر افغانستان کو برباد کیا ان کے بچوں کو دہشت گردی میں استعمال کیا اب یہ ایک باقائدہ صنعت وجود میں آ چکی ہے ادھر سے بھی وہی لوگ ادھر سے بھی وہی ،یہ ایک ایسا خطرہ ہے جسے فوجیں بھی کم نہیں کر سکیں گی شائد ابھی کچھ لوگ میری باتوں کو دیوانے کی بڑ سمجھیں لیکن یہ اٹل حقیقت ہے ابھی سے اس کا سدباب کرنا پڑے گا ۔حکومت خود کو بچانے کی بجائے عملی طور پر اجتماعی بھلائی کے کام کرے اس میں رکاوٹ نہ بنے ۔دنیا خطرے میں ہے مگر سو رہی ہے دھشت کا اژدھا اسے نگلنے کو تیار ہے پنجاب میں دو سالوں میں آٹھ ہزار بچوں کا اغوا معمولی بات نہیں اسے گڈ گورنس کیسے کہا جا سکتا ہے صرف ایک بات کا پتہ لگا لیں کہ ان بچوں کے اغوا میں کیا قدر مشترک ہے؟سارا راز کھل جائے گا جب محافظ ہی اس گھناؤنے کاروبار سے منسلک ہیں تو پھر بچانے والے ہاتھ کمزور پڑ جاتے ہیں چھوٹو گینگ کی طرح یہ پزل بھی فوج کو ہی حل کرنی پڑے گی ۔چھوٹے معصوم بچے جن کو نہ تعلیم میسر ہے نہ خوراک نہ دوا علاج وہ ماں باپ کے ہاتھوں سے چھینے جا رہے ہیں ان کا کیا مستقبل ہے سوائے اس کے کہ یا تو ان کے اعضا نکال کر بیچے جائیں گے یا وہ دہشت گردی میں استعمال ہو نگے !

Back to top button