اندھے سفر کا حاصل ۔۔؟
حدِ ادب
انوار حسین حقی
اندھے سفر کا حاصل ۔۔؟
________
کراچی کے نو منتخب میئر وسیم اختر نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں ’’ جئے بھٹو ‘‘ اور ’’ جئے عمران خان ‘‘ کے نعرے لگائے تو ماضی کے دھندلکوں سے 12 ستمبر2007 ء کا منظر میری آنکھوں کے سامنے آگیا ۔ مری یادوں کے خزانے چٹیل ویرانوں اور کچلے ہوئے خوابوں کے ریزوں جیسے ہیں ۔ تپاں جذبوں سے قرطاس و قلم کی مشقت کے کالے لفظوں میں گونجتی ، پھنکارتی ،ذہنی تھکن اور چٹخے ہوئے اعصاب کی چیخوں کے تسلسل میں مجھے اُس وقت کی سندھ حکومت کے مشیر داخلہ وسیم اختر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سندھ بدری کے احکامات پر گفتگو کرتے نظر آئے ۔12 ستمبر2007 ء کو عمران خان کراچی پہنچتے ہیں تو پولیس حکام انہیں محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کردہ30یوم تک کراچی میں ان کے داخلے پر پابندی کے احکامات دکھاتے ہیں ۔ اس کے بعد کپتان کو شاہین ایئر لائنز کی پرواز کے ذریعے صوبہ بدر کرکے اسلام آباد واپس بھیج دیا جاتا ہے ۔ اور کراچی ائیر پورٹ پر عمران خان کے استقبال کے لیئے پہنچنے والے متعدد کارکن بھی گرفتار کر لیئے جاتے ہیں ۔
اپنے اس اقدام کی وضاحت کے لیئے وسیم اختر کا اُس وقت یہ کہناتھا کہ اکتوبر2006 ء میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک بلا روک ٹوک رواں رہنی چاہیئے ۔ ہم نے اسی مقصد کے لیئے دفعہ144 نافذ کر دی ہے اور کراچی کی سڑکوں پر ریلیاں نکالنے پر پابندی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے عمران خان کی کراچی میں ریلی کے پروگرام سے ایک دن قبل ہی 11 ستمبر کودفعہ 144 نافذ کی گئی تھی ۔یہ پابندی لگائے جانے سے ایک روز قبل 10 ستمبر2007 ء کو چشم فلک نے کراچی میں فسطایت کا یہ منظر بھی دیکھا تھاکہ سندھ ہائی کورٹ کے اندر اور باہر متحدہ قومی مومنٹ کے سینکڑوں کارکنوں کے ہجوم سے پیدا ہونے والے حالات نے ہائی کورٹ کے فل بنچ کو سانحہ 12 مئی کی انکوائری ملتوی کرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ اس موقع پر سندھ ہائی کورٹ جانے والی تمام سڑکیں بلاک ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے وکیلوں اور عام شہریوں کے لیئے سندھ ہائی کورٹ پہنچنا مشکل ہو گیا تھا ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بعض لوگوں نے یہ شکایات بھی کی تھیں کہ انہیں عدالت کے احاطے میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ۔ کورٹ کے ایک عہدیدار نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’’ اے ایف پی ‘‘ کو بتایا تھا کہ ان حالات میں عدالت کے لیئے سماعت جاری رکھنا ممکن نہیں تھا ۔ موقع پر جو لوگ موجود تھے ان کے حوالے سے یہ خبریں بھی شائع ہوئی تھیں کہ ’’ انہوں نے عمارت پر قبضہ کر لیا ہے اور عدالت سے باہر جانے اور اندر آنے والے ہر شخص کو چیک کرنا شروع کر دیا ہے ‘‘
انہی دنوں میں اس قسم کا سلوک ایم کیو ایم کی جانب سے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھ بھی کیا گیا تھا انہیں کراچی ہائی کورٹ نہیں پہنچنے دیا گیا تھا ۔ خائن دور کی انہی بددیانت ساعتوں میں ایم کیو ایم نے کراچی کو پرویز مشرف کے مخالفین کے لیئے نو گوایریا بنانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں 12 مئی کا اندوہناک اور المناک سانحہ رونماء ہوا ۔ عمران خان نے اس ساری صورتحال پر ردِ عمل کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ وہ کراچی آئیں گے اور بار بار آئیں گے ۔ وہ فوج کو پرویز مشرف سے اور اردو بولنے والوں کو الطاف حسین سے بچانا چاہتے ہیں ‘‘۔
آج کل ایم کیو ایم کی جانب سے الطاف حسین سے کیئے جانے والے ’’ اعلانِ برآت ‘‘ کا ہنی مون پیریڈ ہے ۔ نئے قائد فاروق ستار کو الطاف حسین سے تعلق توڑنے کے معاملے کو دوسروں کے لیئے قابلِ یقین بنانے کے لیئے اُتنا ہی زور لگانا پڑ رہا ہے جتنا وہ اپنے سابق قائد سے وفاداری کے اظہار پر صرف کیا کرتے تھے ۔ بے بسی اور بے کسی کی اس صورتحال میں متحدہ اپنا قائد اور آئین بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنا طرزِ عمل بدلنے پر بھی مجبور نظر آتی ہے ۔وسیم اختر اور فاروق ستار کے سابقہ سارے یقین گمان کی دھند میں گم ہو چُکے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ الطاف کا جرثومہ پہاڑوں کو کُتر کر کھا گیا ہے۔
اب قومی اسمبلی میں متحدہ قائد فاروق ستار دیوار سے لگائے جانے کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ ان کی یہ بات درست ہے کہ سارے اردو بولنے والوں کو سزا دینا مناسب نہیں ۔ فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں کو سارے اردو بولنے والوں کا خیال کاش کچھ عرصہ پہلے آجاتا جب الطاف کے فلسفے کے لیئے ایم کیو ایم نے سارے مہاجروں کو داؤ پر لگایا ہوا تھا ۔ شہر قائد کے اکثرعلاقوں پر اک ظلمت زدہ اور منحوس تہ خانے کا گماں ہوتا تھا ۔اس ماحول میں ایسا لگتا تھا جیسے کلینڈر پر بھی سیاہی پھیر دی گئی ہو اور تاریخ آگے کھسکتی نظر نہیں آتی تھی ۔
ماضی کی ایم کیو ایم ہمیشہ سے اپنے مقاصد کے حصول کے لیئے دلدار رنگوں کے تعاقب کے لبادے میں سرگرمِ عمل رہی ہے ۔کسی نے کہا تھا کہ
سرکار کے حضور رکوع و سجود بھی
سرکار سے علیحدگی رہتی ہے زیر غور
گفتار میں شیرنیاں کردار میں جبر وجور
کھانے کے دانت اور دکھانے کے دانت اور
ماضی کی بات چل نکلی تو یہ قصہ بھی ماضی ہی سے جڑا ہے کہ 17 جون 2007 ء کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’ ایم کیو ایم مجھ سے ڈیل کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے ‘‘۔آج اپنا سینہ رازوں سے بھرا ہونے کا دعویٰ کرنے والے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے جو اُن دنوں ایم کیو ایم کے کوٹے سے جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں مذہبی اُمور کے وزیر مملکت کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھے ’’روزنامہ جناح ‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے یہ کہتے سُنے گئے تھے ’’ ایم کیو ایم سیز فائر کے لیئے تیار ہے ۔ مگر عمران خان جارحانہ رویہ ترک کردیں ۔ الطاف حسین کو دہشت گرد قرار دینے والے ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں ۔ عمران خان سے میری ذاتی لڑائی نہیں ہے وہ نہ جانے کس کی باتوں میں آکر الطاف حسین کے خلاف کارروائی کرنے لندن چلے گئے ہیں عمران خان سیاسی قد بڑھانے کے لیئے ایسے حرنے استعمال کر رہے ہیں جو ان کا قد مزید چھوٹا کر رہے ہیں ۔‘‘
گذشتہ تیس سالوں کے بدترین حالات میں بھی مَیں نے کراچی کے معلم فطرت عوام کو کبھی مایوس نہیں پایا ۔ نااُمیدی کے گناہ سے دوری نے ان کے لیئے اب اُمید کے دیئے کی لو بڑھانا شروع کر دی ہے ۔جن لوگوں نے الطاف حسین کے ساتھ مل کر کراچی کے عوام کو درِ زنداں میں مقفل کرکے چابی’’ قلزمِ لولاک‘‘ میں پھینکی تھی وہ لوگ اب ’’کہیں پاک سرزمین پارٹی‘‘ اور کہیں ’’نئی متحدہ‘‘ کے پلیٹ فارم سے وہ چابی ’’ وسعتِ افلاک ‘‘ میں ڈھونڈ رہے ہیں ۔ اور نہ جانے یہ لوگ کب تک دھند میں کھوئے ہوئے آفاق چھانتے رہیں گے ۔۔؟؟؟ ابھی ان لوگوں کی مشقت کی بڑی معیاد باقی ہے کاش ماضی میں یہ لوگ کبھی اپنے قائد سے سید نصیر شاہ کے بقول یوں مخاطب ہوئے ہوتے ۔۔۔
بجائے گولیوں کے
دھات سے تم ڈھالتے سکے
تو جانے کتنے بچے
ٹافیوں سے جھولیاں بھر کے
چہکتے جھومتے
اپنے سکولوں کی طرف جاتے
نہ بنتے کارتوس اے کاش
اُن پیسوں سے تم کاغذ بناتے
کچھ کتابیں چھاپ لیتے
اور
دانش عام کر دیتے
تو جانے کتنے بچے
عصرِ نو میں نور برساتے ۔۔۔۔۔