عمران خان نیازی کا سیف اللہ نیازی
حدِ ادب
انوار حسین حقی
عمران خان نیازی کا سیف اللہ نیازی
_____________________
عمران خان اپنی ذاتی دیانت کی وجہ سے ناقابلِ تسخیر ہیں ۔ فرانس کے چارلس ڈیگال کی طرح ان کے کارکن ان کے سیاسی نظریات کی بجائے ان کی ذات سے زیادہ متائثر ہیں ۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن نے چارلس ڈیگال کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’انہیں اچھی طرح احساس تھا کہ لیڈر کے اکیلا سوچنے کی خاطر وقت نکالنا نہایت ضروری ہے ۔ تمام اُمور میں بڑے فیصلے ڈیگال کرتے وہ اپنے آپ کو حضرت سلیمان سا باعلم تصور نہیں کرتے تھے لیکن انہیں یقین تھا کہ ان کی قوتِ فیصلہ انہی جیسی ضرور ہے۔ کسی خاص مسئلہ کے بارے میں پہلے وہ تمام اخبارات اور مواد منگواتے اور مسئلہ کی تمام تفاصیل جہاں کسی سے بن پڑتا جانتے تب وہ اپنے وزراء سے مطالعہ اور سوچنے کی خاطر رُخصت چاہتے اور تنہائی میں بیٹھ کر فیصلہ سوچتےَ ‘‘۔۔۔۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کے آج کل کے اکثر سیاسی فیصلوں میں سیاسی داؤ پیچوں اور’’ مکارانہ دانش‘‘ کی بجائے ایک سچا اور کھرا پن ہوتا ہے ۔ انہیں قریب سے جاننے والے آگاہ ہیں کہ وہ دوسرے پر بہت جلد اعتماد کر لیتے ہیں ایسا کرتے وقت ان کا خیال یہی ہوتا ہے سامنے والا جیسا نظر آ رہا ہے وہ ویسا ہی ہوگا لیکن اکثر اوقات اس سلسلہ میں انہیں اس وقت حیرانگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب دُوسروں کے چھُپے روپ سامنے آتے ہیں ۔
عین اُس وقت جب وہ اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف نواز شریف کے خلاف رائے ونڈ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر رہے تھے تو ان کے انتہائی قریبی ساتھی سیف اللہ نیازی کے مستعفی ہونے کی خبرسرگوشی کے انداز میں اسلام آباد کے صحافتی حلقوں تک پہنچائی جا رہی تھی ۔ اسلام آباد کے نواح میں پہاڑ کی چوٹی اور راول جھیل کے کنارے پاکستان کی سیاست میں ایک مرکزی مقام حاصل کرنے والے ’’ بنی گالہ ‘‘ میں ایسے ’’شرلک ہومز ‘‘ کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے جو وقت کے ’’ صوفیوں ‘‘ اور ’’ عارفوں ‘‘ کا ذریعہ اطلاع ہیں ۔
ہفتہ اور اتوار کی رات یہ خبر عام ہوئی کہ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ایڈیشنل جنرل سیکرٹری سیف اللہ نیازی نے پارٹی عہدے سے علیحدگی اختیار کر لی ہے ۔ سولہ ستمبر کی سہ پہر چار بجے کے قریب انہوں نے اپنا استعفیٰ اپنی پارٹی کے چیئر مین عمران خان کو بھجوادیا تھا ۔ ایک روز بعد17 ستمبر کو رات گئے اس استعفیٰ کی خبر میڈیا کو ملی جس کے بعد پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق نے عمران خان کو سیف اللہ نیازی کے استعفیٰ کی موصولی کی تصدیق کر دی ۔خود سیف نیازی نے بھی اپنے استعفیٰ کی خبر کو درست قرار دیا ۔ سیف نیازی آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ ہیں وہ اپنے تیار کردہ سافٹ ویئر کی مارکیٹنگ کے لیئے امریکہ جانے والے تھے لیکن اب انہوں نے اپنا مجوزہ دورہ اس لیئے موخر کر دیا ہے کہ ان کے اس نجی نوعیت کے دورے کو سیاسی ایشو نہ بنایا جائے ۔
سیف اللہ خان نیازی کے مستعفی ہونے کی خبر ہماری سیاست کے لیئے کوئی زیادہ دھماکہ خیز ثابت نہیں ہو گی لیکن پاکستان تحریک انصاف کی سیاست میں ایک بھونچال سے کم نہیں ہے ۔ سیف نیازی کا شمار پاکستان تحریک انصاف کے بانی ارکان میں ہوتا ہے ۔ عمران خان نے جب پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو سیف نیازی کی عمر بیس سال کے قریب تھی وہ امریکہ سے پاکستان آئے اور پھر عمران خان کے ہو کر رہ گئے ۔ انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سنہری 20 سال عمران خان کے خواب کی تعبیر کی جدو جہد کی نذر کر دیئے ۔ انہیں عمران خان کی بہت زیادہ قربت حاصل رہی عمران خان کے بہت سے ذاتی معاملات میں سیف نیازی ان کے ساتھ رہے ۔
سیف اللہ نیاز ی کا استعفیٰ پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی معاملات میں انتشار اور خلفشار کا اظہار ہے ۔ ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ سیف نیازی چھ ماہ سے پارٹی پالیسیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے چلے آ رہے تھے پارٹی کے اندر شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی مضبوط دھڑے بندی پر دوسروں کی طرح وہ بھی خاصے پریشان تھے۔ سیف اللہ نیازی کا استعفیٰ منظور ہونے کے امکانات زیادہ روشن نہیں عمران خان اور ان کے درمیان جو مضبوط رشتہ ہے اُس کو سامنے رکھا جائے تو اُمید یہی ہے کہ ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کے بعد استعفیٰ واپس ہو جائے گا اگر خدا نخواستہ ان کا استعفیٰ منظور ہو گیا اور امریکہ واپس چلے گئے تو پی ٹی آئی میں عمران خان کے چاہنے والوں یعنی ان لوگوں کو شدید دھچکا لگے گا جو عمران خان کے خواب سے جڑے ہوئے ہیں سیف اللہ نیازی کے چلے جانے سے پی ٹی آئی کی وہ اشرافیہ مضبوط ہو جائے گی جو پارٹی میں اپنے اپنے دھڑوں اور مقاصد کی سیاست کر رہے ہیں ۔ پارٹی اس وقت اُسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہے جس طرح 1972 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی میں کنونشین لیگ کے لوگوں نے بھٹو مرحوم کے جیالوں کو پسِ دیوار دھکیل پر پارٹی پر قبضہ کر لیا تھا ۔
عمران خان ملک میں تبدیلی کا سرمدی خواب اپنی آنکھوں میں سجائے سیاست کر رہے ہیں ۔ ملک کے مظلوم اور پسے ہوئے طبقات اب اس خواب کی تعبیر کو اپنی آسودگی سے جوڑے ہوئے ہیں ۔
پاکستان کی سیاست میں سرگرم اکثر سیاسی پارٹیاں ’’ ہم زلفوں‘‘ کی سی سیاست کرتی نظر آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادت ’’نقاب پوش سیاست ‘‘ کی قائل ہیں ۔ قوم کو اچھی طرح یاد ہے کہ 2014 ء کے دھرنے کے حوالے سے پارلمنٹ کے طویل ترین مشترکہ اجلاس میں ’’ دو چوہدریوں ‘‘ کی لڑائی کے دوران چوہدری اعتزاز احسن نے حکومت کے خلاف ایک طویل چارج شیٹ پیش کرنے کے باوجود یہ ارشاد فرمایا تھا حکومت گرانے کی سکت رکھنے کے باجود ہم حکومت کے ساتھ ہیں ۔ ’’ ہم زلفوں ‘‘ نے اپنے اس اندازِ سیاست کو ’’ میثاقِ جمہوریت کا نام دے رکھا ہے ۔ پانامہ لیکس کے معاملے پر سیاسی بساط کے ماہر ’’ چالبازوں ‘‘ نے ایسی بازی چلی کے ’’کپتان ‘‘ اور اس کے حقیقی ’’کھلاڑی ‘‘ اور عوام دیکھتے اور ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے ۔جو قصاص کے لیئے میدان میں نکلے تھے وہ اب عالمی اداروں سے رجوع کرنے کا اعلان کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ کپتان کا کیا کیا جائے کہ وہ لگی لپٹی کہنے کے تجربے اور مشق سے عاری ہے وہ دوسرے سیاست دان ’’ قائدین ‘‘ کی طرح لفظوں کی پناہ لینے کی عیاری سے بھی واقف نہیں ۔
درجنوں اپوزیشن جماعتوں کی موجود گی کے باوجود اگر اپوزیشن کا وجود محسوس ہوتا یا نظر آتا ہے تو وہ تحریک انصاف کی وجہ سے ہے ۔
دگر گوں حالات اور نا موسم مہربان ہونے کے باوجود کپتان اور اس کے کارکن پوری شدت کے ساتھ اپنے خواب سے جڑے ہوئے ہیں ۔
کپتان اور سیف اللہ نیازی محبت اور مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں ۔پارٹی میں موجود غیر جانبدار لوگوں کا کہنا ہے کہ سیف اللہ نیازی کو اپنے استعفیٰ پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ سیاست میں دل ٹوٹتے رہتے ہیں ۔ شجر سے پیوستہ رہ کر ہی اُمیدِ بہار رکھی جا سکتی ہے ۔ ورنہ تاریخ کا سبق موجود ہے کہ بھٹو مرحوم کو چھوڑنے والے قصہ پارینہ بن گئے ۔