میڈ اِن پاکستان …. محمد منصور آفاق
میڈ اِن پاکستان
منصور آفاق
بہت پرانی بات نہیں شاید نصف صدی کی بات ہو مارٹن لوتھر کنگ اقلیتوں کوان کے حقوق دلانے کےلئے میدان میں آئے تھے۔اپنی مشہورزمانہ تقریر میں انہوں نے کہا تھا
i lave a dreem)
اس خواب کی تعبیر وائٹ ہاﺅس میں براک حسین ابامہ کو لے آئی۔سولہ سال پہلے عمران خان نئے پاکستان کا خواب لے کر پاکستانیوں کوان کا حق دلانے کی جنگ میں رہنماکی صورت میں سامنے آئے ہیں۔اور انصاف کی تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔لوگ انہیں صرف کرکٹ کا ایک کھلاڑی سمجھ کر یہ خیال کرتے رہے کہ یہ کھیل موسمی ہے جلد ختم ہوجائے گا۔مگر عمران خان نے انہیں غلط ثابت کیا اور اٹھارہ کروڑ عوام جس کا بیشتر حصہ انصاف اور حقوق سے محروم ہے عمران خان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ان کے خواب کاحصہ بنتے چلے گئے۔ایک جاذبِ نظر شخصیت کے علاوہ انہی کے جذبوں کی ترجمانی ان کی اپنی زبان میں کرتا ہواایک ایسا رہنما مل گیاجس کی پاکستان کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال موجود نہیں ۔اب پاکستان کے کونے کونے سے تبدیلی کےلئے زندہ جذبوں کا ایک کاروان رواں دواں ہے ۔
عمران خان پاکستان کا وہ چہرہ ہیں جس کی پیشانی پرفتح مبین لکھا ہوا ہے۔وہ چہرہ جس کی آواز میں حق تلفی کرنے والوں کےلئے للکار ہے۔عمران خان لوگوں کا وہ اعتماد ہے جو لوگوں میں دل ودماغ میں نقش ہو چکا ہے ۔اس بھروسے اور یقین کومزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیںوہ غیر فانی اعتمادنئے پاکستان کے خواب شامل بچوں بوڑھوں ، نوجوانوں اورخواتین کے جوش و ولولے اور اخلاص و استقلال سے عیاں ہے ۔گلی کوچوں اور بازاروں میں اس کی جھلک نظرآتی ہے۔عمران خان نے ناامیدی کے بنجر صحرا کو امید کے ثمر آور شجرسے روشناس کرادیا ہے۔یہ وہ جہاد ہے۔جو بہت خوش قسمت لوگوں کو نصیب میں آتا ہے ۔
عمران خان پاکستان کا وہ برائڈ ہیں جنہوں نے گلوبل مارکیٹ میں پاکستان کی عزت کوچار چاند لگادئیے ہیں۔بے شمار لوگ ایسے گزرے ہیں جنہیں پاکستان کا برانڈ کہا جاسکتا ہے۔قائداعظم محمد علی جناح ، ذوالفقار علی بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام اپنے زمانے میں بہت مقبول ہوئے۔موسیقی کے حوالے سے نصرت فتح علی خان اور عطااللہ عیسیٰ خیلوی بہت مشہور ہوئے۔سائنس کے مناسبت سے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹرعبدالسلام کا نام بہت تاریخ ساز ثابت ہوا۔کھیل کے میدان سے جہانگیر خان کو بہت شہرت ملی۔لیکن جو نام سب سے زیادہ پاکستان کی پہچان بنا وہ عمران خان کا ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں کسی شخص سے بھی پاکستان کے حوالے کوئی بات کی جائے تو فوراً عمران خان کا نام اس کی زبان پر آجاتا ہے۔یعنی عمران خان ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے دنیا میں پاکستان کوعزت بخشی وگرنہ پاکستان زیادہ تر لیڈران کرام پاکستان کےلئے شرمندگی کا سبب ہی بنتے رہے۔
وہ دن دور نہیں پارلیمان سے لے کر صدر ہاﺅس تک ایک مخلص ایمان داراور پاکستانیوں کو ان کے حقوق دلانے والا شخص کی روشنی اور رہنمائی پھیلی ہوئی ہوگی۔میں نے یہ روشنی ہمیشہ میانوالی وساطت سے دنیا کے افق پر دیکھی۔یوں ہوا کہ میانوالی نے اپنی ر ت بدلی۔دریائے سندھ کے پانی میں گندھی ہوئی مٹی نے کہا’تو جہاں بھی پھرتا رہے، جن آسمانوں پر بھی پرواز کرتا رہے،تجھ سے میرے خمیر کی خوشبو کی چہکار ضرور اٹھے گی‘۔ عمران خان کا خمیر بھی میانوالی سے اٹھا ہے۔میانوالی ایک عجیب و غریب سر زمین کا نام ہے۔یہ تیس میل چوڑی اور تقریباً پچاس میل لمبی ایک سرسبز و شاداب وادی ہے۔جس کے تین اطراف میں بے آب و گیاہ پہاڑی سلسلے ہیں اور ایک طرف صحرا ہے۔ریت ہی ریت ہے۔دریائے سندھ پہاڑوں سے نکل کر پہلی بار جس میدانی علاقہ میں اترتا ہے وہ یہی میانوالی کی وادی ہے۔اقبال کا کہا یاد آرہا ہے کہ فطرت کے مقاصد کی نگہبانی یا مردِ کوہستانی کرتا ہے یا بندہ ءصحرائی اور میانوالی کے لوگ تو صرف بند ہ ءصحرائی اور مردِ کوہستانی ہی نہیں مرد میدانی اور مردِ دریائی بھی ہیں یعنی جیون کے خوبصورت مقاصد کی نگہبانی کیلئے عمران خان کا انتخاب کوئی اتفاق نہیں بلکہ قدرت کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ میں ویسے ”اتفاق“ کا قائل ہی نہیں ہوں۔ میرے نزدیک کہیں بھی کوئی اتفاق نہیں ہوتا، وہی کچھ ہوتا ہے جو ہونا ہوتا ہے۔
یعنی یہ بات آسمانوں پر کہیں طے کردی گئی تھی کہ اس زوال آمادہ قوم نے عمران خان کے پیچھے پیچھے چل کر آخر ایک دن اندھیروں بھری پستیوں سے باہر نکلنا ہے۔اگرچہ عمران خان کے راستے میں راتوں کے ظلم و جبر کے رکھوالے خندقیں کھودتے رہے ہیں مگر وہ مسلسل شاہراہ ِ قائداعظم پر آگے بڑھتے رہے ہیں
یقیناً قدرت نے قوم کو اس تباہ حالی سے نکالنے کیلئے عمران خان کا انتخاب کیا ہے یقیناً کسی بزرگ کی دعا قبول ہوئی ہے۔ کسی دوائی کو ترستی ہوئی بڑھیاکی فریاد رب نے سن لی ہے۔کسی اندھیرے گھر کے سرد چولہے پر بیٹھی ہوئی کسی ماں کی آہ فلک کو چیر گئی ہے …مجھے پورا یقین ہے کہ لوڈشیڈنگ کی یہ رات بس اب ختم ہونے والی ہے۔ مہنگائی کی یہ سلگتی ہوئی دوپہر ڈھلنے والی ہے۔ غربت سے رہائی کا جذبہ اک شوخ پرچم میں بدلنے والا ہے۔ سونے کے قفس کی کڑیوں میں پھڑکتے ہوئے مجبور اآزاد ہونے والے ہیں۔ سچ مچ جمہور کی سلطانی کا دورِ منور آنے والا ہے۔بہت جلد سچ مچ کے انتخابات ہونے والے ہیں جس میں غریب آدمی کو صرف ووٹ دینے کا حق نہیں ووٹ لینے کا حق بھی حاصل ہوگا یعنی جیون کی سہانی گھڑیوں میں دل اور طرح سے دھڑکنے والے ہیں۔
میانوالی کی مٹی سرخرو ہونے والی ہے۔اس وقت پوری قوم عمران خان کی آواز پر لبیک کہہ رہی ہے۔یہ آواز اگر کسی کو سنائی نہیں دے رہی تو اسے اپنی سماعت کا علاج کرانا چاہئے۔ عمران خان کسی فردِ واحد کا نام نہیں۔ ایک زندہ و تابندہ تحریک کا نام ہے۔پاکستانی قوم کے دھڑکتے ہوئے دل کا نام ہے، اجتماعی ضمیر کا نام ہے بلکہ پوری پاکستانی قوم کا نام ہے یقیناً میانوالی کے اسی سرخیل نے فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرنی ہے۔ اسی نے کھجور کی ٹہنی کی طرح افق کی گود میں گرتے ہوئے پاکستان کو پھر سے مطلع الفجر پر طلوع کرنا ہے۔
اور اب پوری قوم کی آنکھوں میں یہ سچ کاسورج کی چمک رہا ہے ۔شاید پاکستان میں صرف یہی ایک ہی شخصیت ہے جس کے دامن پر داغ کوئی نہیں ۔جس نے زندگی میں کوئی کرپشن نہیں کی ۔کبھی جھوٹ نہیں بولا۔جس نے کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا۔جو پچھلی دو دھائیوں سے انصاف کا علم اٹھائے گلی گلی پھر رہا ہے۔جس کا ایمان ہے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے ناانصافی کا نظام نہیں چل سکتا۔جس کی آنکھیں خوبصورت تبدیلیوں کے خواب دیکھتی ہیں۔جس کا رومان ایک نیا پاکستان ہے ۔جس کی زبان محبت ہے ۔ جس کی پہچان انسانیت ہے ۔وہی اس ملک کی ڈوبتی نیا کا کنارے لگا سکتا ہے۔وہی اس ملک کوبھوک ، غربت ، بے روزگاری، ناانصافی ،دہشت گردی اورریاستی تشدد کے عفریت سے نجات دلا سکتا ہے ۔وہی اس ملک کی لوٹی ہوئی لٹیروں سے چھین کر واپس عوام میں بانٹ سکتا ہے۔وہی اس ملک کو قرضوں کی لعنت سے ہمیشہ کےلئے محفوظ کرسکتا ہے ۔وہی ہر بچے کومساوی تعلیم کے مواقع فراہم کر سکتا ہے۔ وہی ہر پاکستانی کومفت علاج کی سہولت فراہم کرا سکتا ہے ۔وہی ہرغریب پاکستانی کی گمشدہ عزت ِ نفس کوواپس لاسکتاہے ۔وہی جس کا نام عمران خان ہے۔