گداگرانِ سخن کے ہجوم
گداگرانِ سخن کے ہجوم
منصور آفاق
آج کاسوال یہ ہے کہ ادبیوں اور شاعروں نے صرف کالم نگاری پر ہی کیوں اپنی تمام تر صلاحیتیں مرتکز کرلی ہیں شاید اسلئے کہ خالی شکم کو میر تقی میر کے تیس ہزار اشعار نہیں بھر سکتے۔ ”دیوان غالب“ دودھ کا گلاس نہیں بن سکتا۔”بال جبریل“نانِ جویں میں نہیں بدل سکتا۔فیض کا”نسخہ ہائے وفا“لقمہ ء تر نہیں ہو سکتا۔لکھنے والے کو پیٹ بھرنے کیلئے روٹی کی ضرورت ہے۔ایسی روٹی جس کے دوچار مرغ ِ مسلم بھی روسٹ کئے ہوئے موجود ہوں
ان دنوں کالم نگاری وہ واحد فن ہے جو قلم کارکی ڈائننگ ٹیبل پرانواع و اقسام کے لذیذکھانے چن دیتا ہے۔کئی اہم کالم نگار بڑی بڑی کوٹھیوں اور لمبی لمبی کاروں کے مالک بن چکے ہیں۔کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے اخراجات کا دائرہ صرف اخبار سے حاصل ہونے والی تنخواہ تک محدود رکھا ہوا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک طویل عرصہ سے زیادہ تر کالم مسلم لیگ نون کے حق میں لکھتے جارہے ہیں۔کچھ کالم نگاروں کا صرف تحریک ِ انصاف کے خلاف لکھنا ہے۔عمران خان کی برائیاں تلاش کرنا یا اپنے طور پر تراشنا ان کی ملازمت کا بنیادی کام ہے۔ انہیں کرپشن کا کوئی مسئلہ نہیں۔وہ پانامہ لیکس کو نواز شریف کے خلاف پروپیگنڈا سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے اور نہ اس سے زیادہ کچھ سمجھنا چاہتے ہیں۔اس طرح کے کچھ لکھنے والوں سے میری گفتگو ہوئی تو ان کا نقطہ ء نظر تھا کہ سب کو پیٹ بھر کرروٹی اس وقت حاصل ہوگی جب ملک میں خوشحالی آجائے گی۔نظام ِحکومت درست ہوجائے گاتوکرپشن خود بخود ختم ہوجائے گی۔ لوڈ شینڈنگ نہیں ہوا کرے گی۔وغیرہ وغیرہ مگر یہ کام رفتہ رفتہ ہونگے۔ اس لئے ہم تویہ کالم اپنے وطن کی محبت میں لکھتے رہتے ہیں۔ اس کی بہتری کیلئے لکھتے ہیں۔ ہم قلم دوستوں کا کہا سر آنکھوں پر مگروطن کی محبت میں کسی ایک موقف کو درست تسلیم کر لینا،چاہے وہ کتنا غلط ہی کیوں نہ ہو۔کسی سپاہی کا ماٹو تو ہو سکتا ہے ادیب اور شاعرنہیں۔لکھنے والاتو صرف حق اور انصاف کا سپاہی ہوتا ہے بے شک اگر کوئی دوسرا ملک اس کے وطن کیخلاف جارحیت کامرتکب ہوا ہے اور اسکی آزادی کے درپے ہے تو لکھنے والا ضرور تڑپ اٹھتا ہے۔ جیسے بھارت کے ساتھ موجودہ صورت حال میں ہم سب لکھنے والوں کیلئے پہلا موضوع اپنا وطن ہے۔پابلو نرودا Pablo Narodaنے اپنی یادداشتوں میں لکھا تھا۔
”سپین کی گٹاروں پر گولیوں کی پہلی بوچھاڑ ہوئی توان سے موسیقی کی جگہ لہو کے سر چیخ اٹھے اس انتہائی کر بنا ک لمحے نے میری شاعری کو انقلاب سے دوچار کردیا آگہی کے اس ثانیے میں میں نے محسوس کر لیا کہ میں تنہائی کے قطب جنوبی سے انسانوں کے قطب شمالی میں ہجرت کرآیا ہوں۔ان انسانوں کے درمیان کہ میری شاعری جن کے ہاتھوں کا رومال اور انکے میان سے تڑپ کر نکلنے والی تلوار بننے کی آرزو مندہے۔ رومال اس لئے کہ وہ انکی پیشانیوں سے انکی بے پایاں محرومیوں کا پسینہ پونچھ سکے اور تلوار اس لئے کہ انکی جدوجہد میں انکا ہتھیار بن سکے“
مگر یہ بالکل مختلف بات ہے۔جو کچھ ان دنوں لکھا جارہا ہے وہ رزمیہ کالم ضرور ہیں مگر ان کو موضوع پاکستانی لیڈر شپ ہے۔ان جنگ ناموں میں بڑی مہارت سے حقِ نمک ادا کیا جارہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہر کالم میں کوئی شاہنامہ فردوسی لکھا جارہا ہے یا کالم نگارواقعہ کربلا لکھتے ہوئے داخلِ دشنام ہونے والے لفظِ یزید پر تبرا بھیج رہے ہیں۔ بہر حال تمام کالم نگار میدان جنگ میں پوری طرح سرگرم عمل ہیں اور اپنے اپنے لیڈروں کیلئے بھرپورانداز میں آگے بڑھ بڑھ کر حملے کر رہے ہیں۔شمشیریں چمک رہی ہیں۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں۔کوئی میمنہ کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے تو کوئی میسرہ کو۔یقین کیجئے زمانہ ء جاہلیت کے عرب شعراء امرؤ القیس اور عمروبن کلثوم میدان میں اترتے ہوئے ہیں جن کے لفظوں تلواروں کی جھنکار سنائی دیتی ہے اورہاں۔۔ اپنے کئی کالم نگار صرف لکھنے کی حدتک سپاہی نہیں وہ عملی طور پر بھی ان جنگوں میں شریک ہیں۔یہاں مجھے ژاں پال سارتر یاد آرہا ہے اگرچہ اس حوالے پر اس کی روح بھی قبر میں تڑپ تڑپ اٹھی ہوگی مگراس کی بدقسمتی کہ یاد وہی آیا ہے۔ فرانس کا وہ شاعر ادیب اور فلسفی قلم چلاناہی نہیں بندوق چلانا بھی جانتا تھا مگر اس کے قلم کی طرح اسکی بندوق کی بھی سچائی کیساتھ کمٹ منٹ تھی اسے اپنے فرانس سے بھی بڑی محبت تھی، دوسری جنگِ عظیم میں اس نے فوج میں شامل ہوکر اپنے وطن کے دفاع میں تلوار اٹھائی اسے میگنوٹ لائن پر جرمن فوج نے گرفتار کر لیاتھا وہ نوماہ تک جرمن فوجی کیمپ میں نازیوں کے رسوائے زمانہ تشدد کا شکار رہا۔لیکن وہ ہمارے قلم کے سپاہیوں کی تنخواہ دار نہیں تھا اس عظیم قلم کارنے تونوبل پرائز لینے سے انکار کردیا تھا
قلم کار کی ساری جدوجہد معاشرہ کی بدصورتی ختم کرنے کے لئے ہوتی ہے۔حا لات کی کریہہ المنظری مٹانا اور اسے حسن و جمال عطا کرنا دانشور کا فریضہ سمجھا جاتاہے اوراپنے کالم نگاروں سے بڑا دانشور اورکون ہوسکتاہے یہ انتہائی حساس اور باشعور لوگ ہوتے ہیں مگرمجھ اس بات پر حیرت ہے کہ گلی گلی میں ان کے سامنے ان کے اپنے بھائی کسی سنگدل کی چیرہ دستی سے بدن دریدہ پڑے ہیں،ان کے ہر طرف دکھی انسان بکھرے ہوئے ہیں، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں،عورتیں ظلم کی چکی میں پس رہی ہیں اور وہ ہیں کہ ایک طرف نواز شریف اور آصف زرداری کی زلف و لب ورخسار کے قصیدے گارہے ہیں تو دوسری طرف عمران خان کے بیٹھنے اٹھنے اور چلنے پر معترض ہیں وہ کبھی تحریک انصاف کی بے پناہ مقبولیت کو جھوٹ قرار دیتے ہیں توکبھی چمک کی وجہ سے انہیں تحریک انصاف کا دلان خالی دکھائی دیتا ہے۔کبھی تحریک انصاف کو ملنے والے اسی لاکھ ووٹ انہیں داستان ظلسم ہوش ربا لگنے لگتے ہیں۔کبھی عمران خان کا رائیونڈ مارچ انہیں میلہ لگنے لگتا ہے کبھی انہیں عمران خان خوئے دلنوازی سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔
میں نے یہاں ان کی قوس ِ قزح کے رنگوں میں لپٹی ہوئی گالیاں نہیں درج کیں ان کے پڑھنے والے ان سے اچھی طرح آشنا ہیں سوایک طرف یہ اندازِگفت و شنیدہے اور دوسری اپنے پسندیدہ بلکہ زردیدہ لیڈروں کی شان میں ایسی ایسی دلچسپ خوشامد ی تحریریں ہیں کہ سنجیدہ تحریربھی مزاح کے زمرے میں در آتی ہیں صرف اسی بات سے اندازہ کریں کہ ایک کالم نگار اپنا پورے کالم میں بار بار بس یہی لکھتے رہے کہ نواز شریف کاآئی جی آئی سے کوئی واسطہ نہیں ہے نواز شریف نے آئی جی آئی نہیں بنائی تھی۔ جنرلوں کے اقبالی بیان غلط تھے۔ نوازشریف بہت معصوم آدمی ہیں۔ ان سے کبھی غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی۔اگر عوام کی طرف سے سنگ باری کا خطرہ نہ ہوتا تو وہ انہیں معصومیت کے مقامِ امامت سے بھی جا ملاتے۔یہ تمام احباب میرے لئے بڑے محترم ہیں میں انہیں اور تو کچھ نہیں کہہ سکتا صرف ان کی خدمتِ اقدس میں علامہ اقبال کا ایک مصرعہ تھوڑے سے تصرف کے ساتھ کالم فروختند و چہ ارزاں فروختنداوراحمد فراز کی چار لائنیں
تم اہل حرف کے پندار کے ثنا گر تھے
وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں