منصور آفاق کا کالم . تیس ستمبر
تیس ستمبر
منصور آفاق
اگرچہ بلاول بھٹو اس وقت لندن میں ہیں مگر سندھ کےمشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیونے انکشاف کیا ہے کہ بلاول بھٹو عمران خان کو مایوس نہیں کریں گے ۔اب اگر بلاول بھٹو بھی رائے ونڈ مارچ میں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس مطلب یہ ہوا کہ یہ مارچ کسی خاص اہمیت کا حامل ہے ۔مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ تیس ستمبر دوہزار سولہ کا دن پاکستان کی تاریخ بڑی اہمیت حاصل کرنے والا ہے ۔ اس مارچ شریک ہونے والے لوگ کراچی اور کوئٹہ سے بھی آرہے ہیں ۔سوچتا ہوں کہ جو لوگ دو دو دن کا سفر کرکے لاہور پہنچیں گے وہ ایک دن کے احتجاج کے بعد واپس چلے جائیں گے ؟ ۔لگتا تو نہیں ۔یہ احتجاج کسی فائنل میچ کی طرف جاتا ہوا دکھائی دینے لگا ہے ۔مجھے پورا یقین ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعدادجاتی عمرہ کے اردگرد جمع ہوجائے گی ۔ویسے اطلاعات یہی ہیں کہ اس احتجاج میں عمران خان کی بھی توقع سے زیادہ لوگ جمع ہونے والے ہیں ۔اس کی کچھ وجوہات اور بھی ہیں ۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ احتجاج کرنے والوں نے اگر’’ جاتی عمرہ‘‘ کا محاصرہ کرلیا تو کیا ہوگا۔’’ محاصرہ ‘‘کا لفظ خود عمران خان نے استعمال کیا ہے ۔اس احتجاج کے حوالے سے میرے ساتھ ایک بڑی دلچسپ بات ہوئی۔ کل مجھے فون آیا اور ایک خاصے پڑھے لکھے شخص نے ایک عجیب و غریب خواہش اظہار کیا ۔ کہنے لگا ’’ میں چاہتا ہوں کہ عمران خان پانامہ لیکس کی کرپشن کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کرے کہ شریف فیملی ’’جاتی عمرہ ‘‘کا نام بدل دے ۔میں نے حیرت سے سبب پوچھا تو اس نے کہا ’’پاکستان میں ہندووں اور انگریزوں کے نام پر جتنی جگہیں جتنے شہر تھے ۔ہم نے پاکستان بننے کے بعد انہیں تبدیل کردیا۔ حتیٰ کہ لائل پور کا نام بھی فیصل آباد رکھ دیا۔پھر ہم نے اپنے میزائلوں کے نام ایسے مسلمان سپہ سالاروں کے نام پر رکھے جنہوں نے ہندووں سے جنگیں کیں ۔ایک میزائل کا نام غوری رکھاہے، دوسرے کا غزنوی رکھا ہےتیسرے کا نام ابدالی رکھاہے۔ غوری میزائل کا نام بھارت کے پرتھوی میزائل کے جواب میں رکھا گیا تھا۔ محمد غوری بارہویں صدی کے ایک مسلمان سپہ سالار تھے جنہوں نے شمالی ہندوستان کے حکمران پرتھوی راج چوہان کے ساتھ دو جنگی لڑی تھیں۔محمود غزنوی گیارہویں صدی کے حکمراں تھے جنہوں نے ہندوستان کو فتح کیا تھااسی طرح احمد شاہ ابدالی بھی اٹھارویں صدی کے فاتح ہند تھے۔ہم نے سرکاری طور پر کبھی ان ناموں کی وضاحت نہیں کی لیکن ان ناموں سے ہماری سوچ کا اظہار ہوتاہے ۔ بھارت کے ساتھ کشیدگی ایک تاریخی تسلسل میں نظر آتی ہے ۔اس صورتحال میں پاکستان کا وزیر اعظم اگر ایک ہندو قصبہ کے نام پر اپنے علاقہ کا نام رکھ لیا۔ہم جیسے زہر کے گھونٹ پی کر خاموش ہو گئے کہ اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں مگر بھارت کے ساتھ موجودہ کشیدگی کے بعد اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ’’جاتی عمرہ‘‘ کا نام بدل دیا جائے ۔سچ تو یہ ہے کہ یہ نام’’نظریہ ءپاکستان ‘‘کے ہی خلاف کام ہے۔دوقومی نظریہ کی نفی کرتا ہے ۔‘‘
اس عجیب و غریب خواہش پر غور کرتے ہوئے میرے ذہن میں یہی خیال آ یا کہ بے شک نواز شریف نے اقوام متحدہ میں کشمیر کا مقدمہ بڑے بھرپور انداز میں پیش کیا ہے اوربہت حد تک بھارت نوازی کے الزام سے باہر بھی نکل آئے ہیں مگر ناقدین ابھی اپنی جگہ پر کھڑے ہیں ۔ایک اور اہم شخصیت نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ نواز شریف نظریاتی طور پر اب ویسے پاکستانی نہیں رہے جیسےبارہ اکتوبر 1999 سے پہلے تھے ۔پرویز مشرف کے مارشل لا سے نکلنے والے عرصہ ء جلاوطنی ان کی سوچ میں کافی تبدیلیاں لائی ہے ۔ایسا سوچنا اور سمجھنے والے بہت سے لوگ ہیں۔ایسے لوگ ثبوت کے طور پر ان کی چودہ اگست 2011کی وہ تقریر پیش کرتے ہیں جس میں انہوں نے انڈیا میں کہا تھا’’ہمارا ایک ہی کلچر ہے ہمارا ایک ہی ہیرٹیج ہے ۔ایک ہی معاشرہ کے ہم لوگ تھے بس بیچ میں ایک باڈر آگیا ہے باقی تو ایک ہی سوسائٹی کے ہم ممبران ہیں ۔ہمارا ایک ہی بیک گراونڈ ہے ۔ملڑی میں ہم کسی قسم کی ریس نہیں چاہتے ۔میرے نزدیک پاکستان اور ہندو ستان کی یہ بدنصیبی رہی ہے کہ ہم دونوں اسلحہ کی ریس میں شامل رہے ہیں ۔ہندوستان اگر مگ ستائیس کے پیچھے بھاگتا رہا ہے توہم ایف سولہ کے پیچھے بھاگتے رہے ہیں ۔ہندوستان نے ٹینک خریدے تو ہم نے بھی لازم کرلیا کہ ہم نے بھی ٹینک خریدنے ہیں ۔ ابھی امتیاز صاحب نے موٹر وے کی بات کی ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ موٹر وے واہگہ سے آگے ہندوستان اس کو بناتا اور یہی موٹر وےکلکتہ تک جاتا۔ہمارے ایٹمی دھماکے ہوئے ۔ویسے میں ہندوستان کا مشکور ہوں کہ اس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے ۔اس کی نوبت اگر نہ آتی تو بہت اچھا ہوتا ۔جس کو آپ رب کہتے ہیں ہم بھی اسی کورب کہتے ہیں۔ جس کو آپ پوجتے ہیں ہم بھی اسی کو پوجتے ہیں۔جناب دیکھئے ! ایک طرف تو لاہورڈیکلریشن ہورہا ہے اور دوسری طرف کارگل کا ایڈونچر بلکہ مس ایڈونچر کر کے میری پیٹھ چھرا گھونپا گیا۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف بھارت اور پاکستان کے درمیان اچھے مراسم چاہتے تھے اور اس کےلئے کوشش بھی کرتے رہے مگرکوئی میری بات تسلیم کرے یا نہ کرے حقیقت یہی ہے کہ کشمیر کے سلگتے ہوئے مسئلہ نے انہیں پھر وہیں آ کھڑا گیا ہے ۔جہاں وہ پہلے تھے ۔ایک مسئلہ اور بھی ان کےلئے پیدا ہوگیا ہے کہ دنیا کےوہ لوگ جو بھارت کے اچھے مراسم رکھنے کی کوشش کے سبب نواز شریف کے حامی تھے وہ بھی نواز شریف کے حق میں نہیں رہے کہ آخرکار نواز شریف بھی باقی پاکستانیوں جیسے ثابت ہوئے ہیں۔دوسری وہ لوگ جنہیں نواز شریف کی ہندوستان دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی وہ ابھی تک ان پر یقین نہیں کررہے ۔