دھرنے کی نئی لہر ! عمران خان کی شادی ؟
دھرنے کی نئی لہر !
عمران خان کی شادی ؟
تحریر :. ظفر خان نیازی
شادی اور سیاست ایک دلچسپ موضوع ہے ، سیاستدانوں کے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے جو یا تو زندگی بھر کیلۓ کنوارے رہ گۓ یا پھر رنڈوے یا طلاق یافتہ ہوۓ تو قتالہٴ سیاست کی زلفوں کے کچھ یوں اسیر ہوۓ کہ پھر مڑ کر شادی کا سوچا تک نہیں ۔ معلوم نہیں ، پولیٹیکل سائنس کے نصاب میں اس کا باقاعدہ الگ سے باب باندھا گیا ہے کہ نہیں بہر حال عمران خان کے تازہ دھرنے کی خبر نے جہاں کہیں مخالف کیمپ میں پریشانیاں پیدا کر دی ہیں ، عمران خان کے چاہنے والے بھی اندر سے دھرنے کے ریزلٹ سے تھوڑے پریشان سے ہیں – انہیں ڈر ھے دھرنے کے ریزلٹ میں پھر کہیں شادی نہ نکل آئے کیونکہ عمران خان نے تو کئی بار کھلا اعتراف کیا ہے کہ شادی کرنا کوئی جرم نہیں ، شرعی معاملہ ہے – لیکن اس کا کیا کیا جائے عمران خان کی شخصیت کا ایک پہلو عوامی ہونے کا بھی ہے ، اس لئے اس کی شادی صرف اس کا مسئلہ نہیں ، عوامی مسئلہ بھی ہے – شادی کے بارے میں ان کا ایک پرانا بیان یاد آرہا ہے جس کے مطابق ان کا کہنا ہے ، میں چاہتا ہوں جلدی سے نیا پاکستان بن جاۓ تاکہ اس کے بعد شادی کر سکوں ۔ مطلب یہ کہ عمران خان ایک کے بعد ایک ، مشکل کام کے شوقین ہیں ، لیکن نیا پاکستان بنانے کی تگ و دو میں تو عوام ان کا ساتھ دے سکتے ہیں ، شادی کے روگ اکیلے ہی بھوگنا پڑتے ہیں اور عمران خان تو اس خار زار وادی سے پہلے بھی دو بار ہو آۓ ہیں اور اگر وہ پھر بھی بے مزہ نہیں ہوۓ تو واقعی بہت حوصلے کے مالک ہیں جبکہ سیانے تو کہہ گۓ ہیں
شادی ایک ہی کافی ہے
باقی شغل اضافی ہے
یعنی مومن ایک سوراخ سےدو بار نہیں ڈسا جاتا ۔ شادی تو وہ کر لیں لیکن خطرہ یہ ہے کہ وہ ایک اپنی شادی کر کے اپنی جان تو جوکھوں میں ڈالیں گے ہی ، خدا جانے کتنے اور نازک دلوں کو بھی توڑ بیٹھیں گے جو ان کے نام پر دھڑکتے ہیں ۔ عقل کا تقاضا تو یہی ہے کہ وہ چھڑے رہیں ۔ وہ چھڑے اور تھے جن کی آگ نہیں جلتی تھی اور چولہے ٹھنڈے رہتے تھے ، ان کے تو پکے پکائے پراٹھے بھی خوب مل جاتے ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ وہ مہم پسند ہیں ، اس لۓ بعید نہیں کہ انہوں نے سنجیدگی سے اس دھرنے مارچ کے بعد پھر پرخطر شادی مارچ کا سوچا ہو ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے اپنے دھرنے کی بے چینی کی شدت شہباز شریف کو سمجھانے کیلۓ انہی کے اشارے اور استعارے استعمال کئے ہوں ۔ بہر حال بر صغیر میں کامیاب چھڑوں کی بہت دلچسپ مثالیں ہیں ۔ کیا یہ ایک دلچسپ مگر تلخ حقیقت نہیں کہ برصغیر کی آزادی کے تین بڑوں گاندھی جی ، نہرو جی اور قائداعظم کی ازدواجی زندگی ادھوری گزری – اس کے بعد واجپائ ، شیخ رشید اور مولانا عبدالستار خان نیازی اور کئی دوسرے تو سرے سے شادی کے لڈووں کے خرچے سے ہی بچ گۓ لیکن نہرو اور قایداعظم شادی کر کے جب تنہا رہ گۓ ، تو اپنی ساری عمر اور اپنی ساری توانائیاں اور خوشیاں اپنی اپنی قوموں پر نچھاور کر دیں ۔ گاندھی جی کا قصہ ذرا وکھری ٹائپ کا ہے ، وہ اپنی سوانحعمری میں لکھتے ہیں ، جب میرا باپ مر رہا تھا ، میں اپنے ازدواجی تعلقات میں مصروف تھا ، اس واقعے کے بعد سکس سے میرا دل اٹھ گیا اور 35 سال کی عمر میں اپنی بیوی سے جنسی تعلقات ختم کر لۓ ۔ یہ اور بات ہے پچھلے دنوں ایک جرمن دوست کے نام ان کے کچھ خطوط منظر عام پر آۓ ہیں جن میں گاندھی جی اس کے ساتھ اپنی گہری دوستی کی مثال دیتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ میں اور تم ایک دو منزلہ مکان کی طرح ہیں ، اور تم اوپر والی منزل ہو ۔ گاندھی کے چاہنے والوں کو ان خطوں سے بہت دکھ ہوتا ہے کہ بننا ہی تھا تو نچلی منزل ہی کیوں – اس طرح تو سارے ایشیا کی عزت خاک میں ملا دی – اس طرح کے مسائل بھی قدامت پسند برصغیر کے ہی ہیں ، ترقی یافتہ یورپ ان منزلوں سے آگے جا چکا ہے –
مولانا عبدالستار خان نیازی بے داغ کردار کے مالک تھے ، ان کے مخالفین کو اعتراض کیلۓ کچھ اور نظر نہ آتا تو یہی اعتراض جڑ دیتے ، کہ آپ نے شادی کیوں نہیں کی ، انہیں بھی جوابی فقرہ کسنے میں کمال حاصل تھا اور بعض اوقات وہ سچی بات بہت کھلے ڈلے انداز میں کہہ جاتے تھے ۔ آخر تنگ آکر ایک دفعہ بول اٹھے ۔ سال کے بارہ مہینے تو میں جیل میں یا جلسے جلوس میں ہوتا ہوں ، بیوی کس کی خدمت کیلۓ کروں ( اصل الفاظ کچھ اور ہیں ) ۔
سن ستر میں وہ لکمشی چوک لاہور کی ایک مشہور بلڈنگ میں رہتے تھے ، میں اس وقت ایم ایس سی کا سٹوڈنٹ تھا ، وہاں مجھے چند بار ان کی خدمت میں حاضری کا اعزاز ملا ۔ اس بلڈنگ میں فلم پروڈیوسرز کے بہت دفاتر تھے اور ساری بلڈنگ پر فلموں کے پرکشش ، جوانی کی ہوا کےاشتہاانگیز پوسٹر لگے ہوتے تھے ۔ ایک بار ان کے ساتھ وہاں سے گزرتے وقت ہم پریشان سے ہوۓ تو کہنے لگے ، میری عمر باون سال ہو گئ ہے لیکن جب میں یہ پوسٹر دیکھتا ہوں تو میرے جسم میں آگ لگ جاتی ہے اور میں کلام اللە پڑھ پڑھ کر اپنے آپ کو محفوظ کرتا ہوں ، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آدمی کو شادی ضرور کرنا چاہیۓ ۔ اتنی سچی بات مولانا نیازی جیسا مجاہد ہی کہہ سکتا ہے –
مولانا تو کاغذی پوسٹرز کی جامد تصویروں میں گھرے تھے ، عمران خان کا کنٹینر جن زندہ اور متحرک دھرنیوں اور ہرنیوں میں گھرجاتا ہے ، اسے دیکھ کر تو اچھا بھلا آدمی ڈیزل کے بھرے ڈرم کی طرح چھلکنے لگتا ہے – دھرنے کے دنوں میں اسلام آباد کی کئ محتاط اور شکی مزاج بیویوں نے تو اپنے شوہروں کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی تھی حالانکہ اگر ان کے شوہروں کو لاٹھی چارج میں دوچار ہاتھ لگ بھی جاتے تو ان بیگمات کو افسوس کی بجائے کچھ خوشی ہی ہوتی لیکن ناچ گانے سے متاثر ہونے کا وہ رسک نہیں لے سکتی تھیں – حکومت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی ان بیگمات کا پھر سے امتحان شروع ہونے والا ہے ۔ لیکن اگر گھر بسانے کی خواہش عمران خان کے دل میں کہیں پل رہی ہے تو یہ ایک فطری امر ہے اور بقول سراج الحق صاحب کے ، ایک مثبت بات ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان کے سینے میں بھی دل ہے ، جبکہ بے رحم سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔ بے رحم سیاست شادی پر شادی کرتی ہے لیکن جب جدہ جانے کا موقع آۓ تو چالیس بکسوں کا لوڈ تو وہ اپنے ساتھ لے جاتی ہے ، اپنی شوقیہ شادی کو معصوم بچی سمیت پیچھے چھوڑ جاتی ہے ۔
میری بات تو ختم ہو گئ لیکن عمران خان کے دھرنے کا اونٹ ابھی کسی کروٹ نہیں بیٹھا – کامیابی اس کا مقدر ہے کہ نہیں ، یہ تو اللہ جانتا ہے لیکن اس نیک مقصد کے حوالے سے ان کیلۓ اور ان کے چاہنے والوں کیلۓ مولانا عبدالستار خان نیازی مرحوم کی ایک بات دہرا دوں ۔ دیگر لوگوں کیلۓ بھی یہ ایک خوبصورت بات ہے ، انہوں نے یہ بات مجھے دو بار بتائ تھی ، اس پر میری مفصل پوسٹ الگ سے ہے –
بتاتے ہیں ، میں روضہ رسول صلی الله علیہ وسلم پر حاضر ہوا اور رو کر عرض کی یا رسول اللە صلی الله علیہ وسلم ، ہم آپ سے سخت شرمندہ ہیں کہ ہم اسلامی نظام نہیں لا سکے ۔ بتاتے ہیں ، مجھے خواب میں زیارت نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نصیب ہوئ ، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ کامیابی اللە کا کام ہے ۔ تم لوگوں کا کام صرف محنت کرنا ہے ۔
مولانا نیازی مرحوم باعمل عالم دین تھے ۔ جب ان کے آخری غسل کیلۓ کپڑے اتارے گۓ تو لوگوں کو معلوم ہوا ، ان کی بنیان میں سوراخ ہیں اور جب ان کا آخری دیدار کیا گیا تو لگتا تھا ان کے رخساروں میں دو جلتے دیۓ رکھے ہیں ۔ یہ مشہور حدیث پاک یقینا” ان کی نظروں سے گزری ہوگی ، جس کا مفہوم ہے کہ جو رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے جھوٹا خواب بیان کرتا ہے ، وہ اپنی جگہ دوزخ میں بناتا ہے ۔۔۔۔۔۔
یا اللە !
ہمیں ان کے رستے پر چلا جن پر تو نے اپنا انعام کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہمیں کرپٹ نظام سے لڑنے کیلئے وہ ارادے اور حوصلے دے جو تیری راہ میں ہمیں استقامت سے چلانے کیلئے کافی ہوں —–
( ایک پرانی پوسٹ جو پرانے دھرنے کے موقع پر لکھی تھی ، تازہ کر کے پیش خدمت ہے )