کالم

یاسین ملک سے بے اعتنائی

حدِ ادب
انوار حسین حقی
یاسین ملک سے بے اعتنائی
____________
مقبوضہ کشمیر میں جاری جدو جہد آزادی نے ایک نئی کروٹ لی ہے ۔ برہان وانی کی شہادت نے ’’ کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ کی منزل کی جانب گامزن خون آلود قدموں میں استقامت اور عزیمت کی ایک نئی روح پھونکی ہے ۔گذشتہ ڈیڑھ دہائی کے حالات و حوادث آزادی کشمیر کے حوالے سے بے یقینی اور مایوسی کے سائے گہرے کرتے چلے آ رہے تھے ۔ پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر ، یومِ الحاقِ پاکستان اور یومِ شہدائے کشمیر ایسے ایام پر پاک و ہند میں کشمیریوں سے یکجہتی کا روایتی اظہار تو سامنے آتا ہے ۔ لیکن مسئلہ کشمیر پر پاکستانی قوم کی دلچسپی کا وہ انداز اور آہنگ ماضی کے دھند لکوں میں گم ہوتا نظر آتا ہے جو کشمیری حریت پسندوں کے حوالے سے ہمارے ماضی کا خاصہ ہوا کرتا تھا ۔دعووں وعدوں اور بڑھکوں کے باوجود مسئلہ کشمیر اور خصوصاً حریت رہنماؤں کے حوالے سے حکومتِ پاکستان سفارتی محاذوں پر وہ سرگرمی نہ دکھا سکی جو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی جدو جہد کا تقاضا تھا ۔
برہان وانی کی شہادت نے اس مسئلہ کے انسانی پہلوؤں اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت کے مظالم کو ایک مرتب ہ پھر دنیا کے سامنے آشکارا کر دیا ہے ۔ اسی ماحول میں تحریک حریت کشمیر کے رہنماء یسین ملک کی اہلیہ مثاعل ملک اپنے خاوند کی رہائی کے لیئے اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کا دروازہ کھٹکتا تی نظر آتی ہیں ۔ جموو ں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیر مین یاسین ملک کو وادی پر غاصب فورسسز نے غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر گرفتار کر رکھا ہے غاصب افواج کی حراست میں وہ انتہائی علیل ہیں ۔ بھارت کی جانب سے ان پر بے پناہ تشدد کیا گیا جن کی وجہ سے ان کی حالت خراب ہے ۔ ان کی اہلیہ مشاعل ملک نے ایک ماہ قبل عالمی برادری کی توجہ یاسین ملک کی اسارت کے دوران بیماری پر مرکوز کروانے کے لیئے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کو خط لکھا تھا اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس مسئلہ پر اپنا کردار ادا کرے ۔ لیکن اپنے سیاسی جھمبیلوں کی دلدل میں گردن تک دھنسی ہوئی قوم کی ہاہا کار میں مشاعل ملک کی صدائیں بے ثمر نظر آتی ہیں ۔ زیر حراست یاسین ملک کو سینٹرل جیل سے باہر ایک پرائیویٹ کلینک میں لیے جا کر ایک انجکشن کے ذریعے ان کا ایک بازو ناکارہ کر دیا گیا ہے ۔ انہیں پانی بھی کم دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ان کا ایک گردہ بھی متائثر ہوا ہے ۔
یاسین ملک کی حالت بگڑنے کی خبر پر گذشتہ دنوں مشاعل ملک پر بھی بے ہوشی طاری ہو گئی تھی ۔ ان کی اس حالت کی خبر میڈیا کے ذریعے عام ہوئی تھی لیکن پاکستان کا میڈیا کشمیر ی حریت پسند یاسین ملک کے معاملے کو شیخ رشید احمد کے صبح کے ناشتے جتنی اہمیت بھی نہیں دے سکا ۔
یاسین ملک کی پاکستان میں مقیم فیملی اپیلیں اور درخواستیں کرنے میں مصروف ہے کہ پاکستانی حکومت اور قیادت بین الاقوامی محاذوں پر بھارتی حکومت کی غیر قانونی حراست سے بیمار یاسین ملک کی رہائی کے لیئے اپنا کردار ادا کرے ۔
لیکن ہماری ساری سرکاری اور سیاسی قیادت ہزار شیوٗ نازنین کے حامل اُس اقتدار کی زُلفِ گرہ گیر کے اسیر نظر آتی ہے جسے اردو شاعری کے روایتی محبوب کے بے وفا وعدوں کی طرح کبھی اعتبار میسر نہیں آیا۔
پارلمنٹ کی قومی کشمیر کیمٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے پاس تو شاید مسئلہ کشمیر کے لیئے وقت ہی نہیں ہے ۔فطرت کے اس اُصول سے واقفیت اور آگاہی رکھنے کے باوجود کہ دنیا کی ہر بادشاہت اور حکومت کی طرح موجودہ حکمرانوں کا اقتدار بھی عارضی ہے وہ اپنی تمام تر توانیاں ، صلاحیتیں اور ریاضتیں لیلائے اقتدار کے گیسو سنوارنے میں صرف کرتے دکھائی ہی نہیں دیتے بلکہ حقیقت میں مصروفِ عمل بھی ہیں ۔ اسی لیئے تو مشاعل ملک کی والدہ یاسمین ملک یہ مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں کہ ’’ وزیر اعظم میاں نواز شریف کشمیر کے ایشو کو سرِ فہرست رکھیں اور بیرونِ ملک ان وفود کو بھیجا جائے جو مخلص ہوں اور جن کو کشمیر کے مظالم کا علم ہو ‘‘ ۔۔۔
پاکستانیوں کی بے اعتنائی کے باوجود کشمیری حریت پسندپاکستان کے نقشے کو مکمل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔حریت رہمناؤں سید علی گیلانی ، میر واعظ اور یاسین ملک سمیت وہ سبھی کردار لائقِ تحسین ہیں جو المیوں اور مصیبت کے طوفانوں میں نظریے ، عقیدے ، اُصول کی دائمی طاقت سے ہمالہ کی بلندی کی طرح ایستادہ ہیں ۔
اذیت ، کرب اور دکھ کے ان لمحات میں بھی حریت پسندوں کے خاندان عزیمت کے راہی اور صبر کے کوہِ گراں بنے ہوئے ہیں ۔ انگریزی زبان میں اپنے کومل جذبات کا اظہار کرے والی نوخیز شاعرہ مشال ملک ہمیشہ یہ کہتی سنائی دیتی ہیں کہ وطن کی جنت میں جانے اور ارضِ جنت نظیر کو ستم شعاروں سے چھڑانے کے لئے ہم ہر روز اپنی آخر شب کی دعا میں تجدید عہد کرتے ہیں اور میرا یقین ہے کہ ازلی صداقت کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی ۔ ایک دن کشمیری آزادی کی منزل پا لیں گے ۔‘‘
مشال ملک کے اس ایقان کے پس منظر میں وہ ہزاروں خون آشام داستانیں ہیں جن میں لاکھوں حریت پسند اپنی جانوں کا نذرانہ ارضِ کشمیر کے لئے پیش کر چُکے ہیں۔ حریت پسندوں نے کشمیر کی آزادی کے لےئے جدو جہد کا آغاز اسی ایمان اور یقین کے ساتھ کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کو ناقہ وقت کے محمل سے اغواء نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ پھر وقت نے ثابت کیا کہ کشمیر کے چناروں کی سُرخی کی تابناکی کے لئے لاکھوں جانوں، عفتوں اور عصمتوں کی قربانی دی چُکی ہے ۔ شہادتوں اور قبرستان آباد کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔
مشال ملک کا سب سے معتبر حوالہ ان کے شوہر ممتاز حُریت لیڈر یاسین ملک ہیں ۔ ’’پیس اینڈ کلچر ‘‘ کے نام سے قائم ایک تنظیم کی چےئر پرسن ہیں۔ انہوں نے ایک ملاقات کے دوران بتایا تھا کہ وہ اپنی اڑھائی سالہ بیٹی کے ہمراہ جب مقبوضہ کشمیر جاتی ہیں تو انہیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک بھارت کے بھیانک رُوپ کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے ۔ بھارتی حساس اداروں کی جانب سے ان کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز سلوک روا رکھا جاتا ہے ان کی اڑھائی سالہ بیٹی کو بھی اس انداز سے دیکھا جاتا ہے جیسے وہ ان کے ازلی دشمن ملک ( پاکستان ) کی کوئی انتہائی خطرناک جاسوسہ ہو ۔ ‘‘
کشمیریوں کے ساتھ بھارتی سلوک اور پاکستان کے ساتھ انڈیا کے مکارانہ ، عیارانہ اور ازلی دشمنی سے بھر پورکردار کے مقابلے میں ہم پاکستانیوں کا طرزِ عمل حریت پسندوں کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے ۔ کئی سال پہلے میری تحریک حریت کشمیر کے ترجمان پروفیسر اشرف صراف سے گفتگو ہوئی تھی ۔ پاکستانی حکومت اور عوام کے طرزِ عمل پر انتہائی آبدیدہ ہوتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’’ جب ہم لائن آف کنٹرول عبور کرکے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں تو بے اختیار اللہ رب العزت کے حضور سر بسجود ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنی آزاد سرزمین اور ملک میں آئے ہیں لیکن جب پاکستان کے گلی کوچوں ، بازاروں اور یہاں کے رہنے والوں سے ملتے ہیں تو یہ دیکھ کر کلیجہ شق ہو جاتا ہے کہ یہاں ہر سُو انڈین ثقافت کے رنگ بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں ۔‘‘
حُریت پسندوں کی جد وجہداور قربانیوں کا جائزہ لیا جائے تو جرائتوں ، جسارتوں اور شہادتوں کا رواں سلسلہ جانفزائی کا فسوں طاری کرتا نظر آتا ہے ۔ لیکن ہم بھارت کا اصل چہرہ جاننے کے باوجود اُس کے ساتھ سیاسی و اقتصادی روابط بڑھانے ، ثقافتی وفودکے تبادلوں ، کنٹرول لائن پر بھارت کو باڑ لگانے کی اجازت دینے ، مظفر آباد سری نگر بس سروس شروع کرنے کے اقدامات سمیت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سفارتی محاذوں پر بعض انتہائی حساس نوعیت کی پسپائیوں کے مرتکب ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے رہنماؤں کے درمیان گرمجوشی بُری طرح متائثر ہوئی ۔
موجودہ دور میں حالات و واقعات کی جو تصویر سامنے آتی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم خطے میں ایک ایسے کھیل کا حصہ بن چُکے ہیں۔جس میں بڑی طاقتوں کے مفاد ات کی خاطر ہمیں اپنے مفادات قربان کرنے پڑ رہے ہیں ۔ ہم نے بھارت کے ساتھ تعلقات کے نام پر ایسی ایسی قربانیاں دی ہیں جن کی وجہ سے ہمارا نظریاتی وجود ’’ رعشہ ‘‘ کی بیماری میں مبتلا نظر آتا ہے ۔ حریت اور عزیمت کے کوہِ گراں سید علی گیلانی یہ کہنے پر مجبورہیں کہ ’’ امریکا نے پاکستان کو اپنے جال میں پھنسا لیا ہے ‘‘۔
کشمیری حریت پسندوں کا پاکستان پر اعتماد مزید مجروح ہونے سے پہلے ہمیں اپنے طرزِ عمل پر نظرِ ثانی کر نا چاہئے ۔خصوصاً قومی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مسئلہ کشمیر پر خلوت کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیں ان کے اس عمل سے بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف اور کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کو تقویت ملے گی اورہماری سیاسی اور قومی قیادت کو دربار کی قربت سے آخری انعام ’’ وطن فروشی ‘‘ کے الزام سے بچنے کے لیئے یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی کی قدروقیمت کا اندازہ رکھے والے ہی تاریخ میں زندہ رہیں گے ۔۔سلام ان کشمیری مجاہدوں کو جن کی جدو جہد سے اُمید کی کھیتیاں ہری ہیں اور جن کی قربانیوں نے کشمیر کی آزادی کو لمحہ حق بنادیا ہے ۔۔

Back to top button