کالم

تلاشی۔۔۔

بالحق۔۔۔ عنایت عادل
تلاشی۔۔۔
کہتے ہیں ناکامی یتیم اور کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا کیا جو خانہ ولدیت میں ابو جہل لکھنے کے ناصرف درپے ہیں بلکہ اس پر تفاخر بھی کرتے نظر آتے ہیں۔موجودہ صورتحال ہی کو لے لیجئے۔ 77سے شروع ہوتے دھرنوںا حتجاجوں کو، جن کا مقصد صرف اور صرف من مرضی کی حکومت حاصل کرنا اور اس وقت کے حکمرانوں کو پٹخ دینے کی تاریخی حقیقت رہاہے،جمہوریت کی شان قرار دیتے آج اس احتجاج پر صف ماتم بچھائے ملتے ہیں کہ جس کا مقصدپانامہ کے ان ثبوتوں(جو انہیں الزامات قرار دیتے ہیں انہیں آئیس لینڈ اور برطانیہ کے وزرائے اعظم پر لعنت ملامت کرنے کی ہمت کرنی چاہئے) کے سامنے آنے پر شروع ہوا کہ جس میں انہی ماتم کے قابل ماتمام کنائوںکے ٹیکس کے پیسوں کو بیرون ملک منتقل کرنے کی شہادت سامنے لائی جا چکی ہے۔اس احتجاج کے سرخیل کو نا معلوم کیا پڑی تھی کہ ہڑتال، پہیہ جام ہڑتال، شٹر ڈاون ہڑتال ، لانگ مارچ ، ٹرین مارچ اورملکی سطح پر اس قسم کے دیگر درجنوں، بیسیوں ، پچاسیوں ، سینکڑوں اور مقامی سطح پر ہزاروں بلکہ لاکھوں مرتبہ کے طریقہ ہائے احتجاج کے ناموں کی عادی اس قوم کے سامنے لاک ڈاون کی نئی اصطلاح لے کر میدان میں کود پڑا۔ بڑے بڑے تجزیہ نگاروں اور خود کو عقل کل قرار دیتے اینکروں نے اس اصطلاح کو کچھ ایسے خوفناک انداز میں بار بار دوہرایا کہ پنجاب حکومت کی گود میں بیٹھی وفاقی حکومت کو گویا جان کے لالے پڑتے دکھائی دینے لگے۔ کسی کو اس جملے پر اعتراض ہو تو 2نومبر سے کہیں پہلے لگتے ہزاروں کنٹینروں کی قطاروں، ہزاروں پولیس اہلکاروں اور ایف سی اہلکاروں کی دوڑوں اور ان دوڑوں کے دوران ہوتی نہتے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور لاٹھی چارج کی آمرانہ روایت کے مناظر کو منظرنامے سے کھرچنے کی جرات کرے۔کیا یہ سب کچھ کسی بہادری کی دلیل کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے؟ ۔ کہا جائے گا کہ ریاست کا تحفظ یقینی بنانے کی کاوش رہی ہو گی تو حضور ریاست کسی ایک صوبے یا کسی ایک جماعت، چاہے وہ بر سر اقتدار ہی کیوں نہ ہو، کی میراث نہیں ہوتی۔ جمہوری ضوابط کے مطابق ریاست کا ایک ایک شہری اس ریاست کا وارث ہوا کرتا ہے اور زیر بحث معاملے میں تو ریاست پر قابض ”جتھے” نے ایک صوبے کو سینگھوں پر اٹھانے کا گویا ٹھیکہ ہی ”لے لیا'(ذہن میں پڑوسی کہلائے جانے والے شیاطین کی منصوبہ بندیوں کا ریکارڈ ضرور رہے)۔
پوچھا جائے گا کہ کس بات کا خوف ؟ کیا پانامہ لیکس، جسے کہ ہم تجاہل عارفانہ کے طور پر ابھی تک ”الزامات ” ہی سمجھ رہے ہیں اور جس کی بنیاد پر ”مہذب” قوموں نے اپنے کتنے ہی ”شیروں” کتنے ہی ”سورمائوں” کو پٹخ کر رکھ دیا(جن میں میسی جیسا دیوتا کہلایا جانے والا فٹبال کا کھلاڑی بھی شامل ہے) ، اس پر اگر مداریوں کے اس دیس میں بھی اسی طرح ”مہذب ” انداز میں کاروائی ہو جاتی ہے تو کیا شہنشائیت کے زعم میں مبتلا ہمارے کتنے ہی ایوان ، زندان میں نہیں بدل جائیں گے؟۔سولو فلائٹ کے لفظ پربغلیں بجاتے سوال اٹھا سکتے ہیں کہ اس مسئلے کو صرف ایک جماعت کی جانب سے ہی کیوں شد و مد سے اٹھایا جا رہا ہے؟ تو اس کے دو جواب دئیے جا سکتے ہیں۔ اول یہ کہ ماضی میں احتساب کو سیاسی ہتھیار اور پھر اسی ہتھیار پر ”این آر اوئی و میثاقی” ندامت کے ڈرامے دیکھتی اس قوم کو اگر حقیقی احتساب کی نوید ملتی ہے تو کیا بات صرف پانامہ تک محدود رہے گی؟ سرے محل، پیرس محل، نیکلس، سوئس اکاونٹس کے حقائق(پوری ذمہ داری کے ساتھ لفظ ”حقائق ”تحریر کیا جا رہا ہے، کسی اندھے مقلد کو اعتراض ہو تو راقم کسی بھی فورم پر جوابدہی کے لئے تیار ہے)این آر او کے ذریعے پوتر قرار دئیے جانے والے مسیحائوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد بھی شروع ہو سکتا ہے۔صاف شفاف احتساب کی اگر کبھی ابتدا ہوئی تو سکوٹر، 50سی سی موٹر سائیکل ، چٹائی اور حجرے سے اندرون و بیرون ملک اثاثوں اور کئی پلازوں تک کے سفر تک کی داستانیں کیا قالین کے نیچے چھپی رہیں گی؟۔ دوسری وجہ جو اس مسئلے پر پی ٹی آئی کی ”سولو فلائٹ” کی نظر آرہی ہے، وہ یہ کہ یہ جماعت ماضی میں نہ تو اقتدار میں آئی اور نہ ہی کبھی شریک اقتدار رہی کہ جسے اس قسم کی سولو فلائٹ کی کامیابی کی صورت میں اپنی گردن کے بھی پھنس جانے کا خطرہ ” لاحق ” ہو۔ ماضی میں انہی مقتدر جماعتوں سے اڑان بھرکر پی ٹی آئی کی منڈیر پر آ بیٹھنے والے پنڈتوں کے بھی نام پانامہ میں نہ سہی، اواخر الذکر داستانوں میں شامل ہونے کے امکان کوبھی رد نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پی ٹی آئی کو ملکی سیاست کے ساتھ ساتھ خود اپنی تطہیر کی بھی پیشگی مبارکباد دینا لازم ہے۔
اب بقراطی اذہان عمران خان ،انکی ہمشیرہ، جہانگیر ترین، علیم خان اور ان کے دیگر رفقاء کی آف شور کمپنیوں ، ان میں سے کچھ کے بیرون ممالک اثاثہ جات اور یہاں تک کہ شوکت خانم جیسے نیم ہی سہی، رفاحی ادارے پر اٹھتی احمقانہ انگلیوں کی کوڑی لے کر نکل آئیں گے تو تھوڑا دھیرج۔۔۔ بیرون ملک کاروبار کرنا جرم ہے نا ہی آف شور کمپنیاں، سوال یہ ہے کہ بیرون ملک کی جانے والی سرمایہ کاری کے لئے سرمایہ آیا کہاں سے، بیرون ملک منتقل کیسے ہوا ، الیکشن کمیشن میں ان اثاثہ جات کو ظاہر کیا گیا اور کیا اس تمام تر جائداد پر ٹیکس ادا کیا گیا تو 35سالہ حکومتی تجربہ کاروں اور انکی محبت میں گرفتار(بلکہ قید) اذہان کی خدمت میںدست بستہ عرض ہے کہ موجودہ حکومت یا مستقبل قریب میں حکومت بنانے کے خواب دیکھتی سیاسی قیادت کو ان تمام امور کو منطقی انجام تک پہنچانے کی خاطر ناں ہی کسی دھرنے کی ضرورت ہے اور ناں ہی کسی لاک ڈائون کی،انہیں نہ ہی کسی کنٹینر سے خطرہ ہے اور نہ ہی کسی آنسو گیس کے گولے یا کسی پولیس والے کی چھترول کی، نہ کسی عدالتی درخواست کی ضروت ہے اور ناں ہی عدالتی فیصلوں کی تاخیر سے خائف ہو نے کی۔۔ سیدھا سادا نیب کا کیس ہے، ایف بی آر کی کاروائی ہے اور ایف آئی کے ہاتھ کی میل۔۔ استعمال کیجئے ناں ان رکھیل اداروں کواور الٹا لٹکا دیجئے نیازی اینڈ کمپنی کو۔۔
لیکن میرا مسئلہ پانامہ سوئس سے بھی زیادہ آسان ہے۔۔نہ کوئی نیب، انٹی کرپشن، ایف آئی اے ، ایف بی آر اور ناں ہی کوئی معزز عدالت۔۔ میرا سوال بس اپنے آپ ہی سے ہے، اور میری خواہش ہو گی کہ میرے قاری اور خاص طور پر ناقدین یہی سوال اپنے آپ سے ہی کر لیں۔مجھ پر اور مجھ جیسے ہر شہری پر ریاست نے کم و بیش 40کے قریب ٹیکس لگا رکھے ہیں۔پاکستان کی آبادی اس وقت بائس کروڑ نفوس تک پہنچتی بتائی جا رہی ہے۔ مردم شماری کے فارمولے کے مطابق، ایک گھرانے میں افراد کی تعداد 7بتائی جاتی ہے۔ اگر ہم فرض کر لیں کہ ہمارے ملک کے تمام گھرانے مبلغ 15000.00کی آمدنی کے حامل ہیں تو وطن عزیز کے کم بیش 3کروڑ14لاکھ گھرانوں کی کل آمدنی لگ بھگ 4کھرب 70ارب روپے بنتی ہے۔ جبکہ سالانہ بنیادوں پر یہ (کم از کم ) تخمینہ 56کھرب57ارب روپے بنتا ہے۔میرا ذاتی تخمینہ ہے کہ پندرہ ہزار روپے وصول کرنے والا ایک خاندان جب ان نئے نکور نوٹوں کو استعمال کرنے نکلتا ہے تو مذکورہ بالا چالیس ٹیکسوں کے ذریعے ان نوٹوںمیں سے کم سے کم 25فیصد، یعنی3750روپے (غیر محسوس انداز میں) حکومت کو منتقل ہو جاتے ہیں۔ یعنی ہمارے سوا تین کروڑ کے لگ بھگ گھرانے(اگر ان کا کفیل ایک ہی ہو) ماہانہ بنیاد پر ایک کھرب17ارب روپے ، جبکہ 14کھرب 13ارب روپے سالانہ بنیادوں پر سرکاری خزانے میں (غیر محسوس انداز میں) جمع کرواتے ہیں۔
قارئین میں سے کچھ کی آمدنی مذکورہ آمدنی سے کم ہو گی جبکہ کچھ اس سے کہیں زیادہ حاصل کر رہے ہوں گے۔ اب اسی فارمولے کو اپنی اپنی اس آمدنی پر لاگو کرتے ہوئے ”کشید کردہ” ٹیکسوں کے اعداد و شمار (حتمی نہ سہی) حاصل کئے جا سکتے ہیں۔کم یا زیادہ، جائز یا نا جائز ، حکومتی ٹیکس ادا کرنا ہر محب وطن شہری کا فرض ہے لیکن کیا اس فرض کے پورا کر چکنے کے بعد ریاست کی ذمہ داری قرار دئیے جانے والے حقوق اور بنیادی سہولیات بھی ان شہریوں، ان خاندانوں کو دی جا رہی ہیں؟۔اگر نہیں تو پھر ہمارا ٹیکس آخر جا کہاں رہا ہے؟ ۔پھر اسکے بعد ہر پیدا ہوتے بچے پر پڑتے بیرونی قرض کے سوا لاکھ کے بوجھ کو بھی اس میں شامل کیجئے۔ گاہے گاہے ملتی بیرونی امداد کو بھی ذہن میں رکھئے اور پوچھئے خود سے کہ یہ سب اعداد و شمار ہماری انتظامی صورتحال، خاص طور پر عوام کی بنیادی سہولیات جو کہ ریاستی ذمہ داری ہے، کی صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو خود کو بے حسی سے کسی اگلی منزل پر براجمان ہونے پر بغلیں بجائیے اور اگر نہیں۔۔۔ تو پھر مان لیجئے کہ حکمران طبقہ کی بچے دیتی جائدادیں آپ کے اور میرے بچوں کی رگوں سے نچوڑے گئے خون سے ہی پھل پھول رہی ہیں۔ قارئین سے استدعا کی جسارت کا تو متحمل نہیں البتہ ذاتی طور پر اپنے مالک سے دعا گو ہوں کہ وہ اس قوم کو اندھی تقلید کے غلیظ جوہڑوں سے نکلنے کی توفیق عطا کرتے ہوئے اپنے اپنے سیاسی آقائوں سے بھی تلاشی لینے کی جرات عطا فرمائے۔تھوڑی سی ”ہمت” کر لی جائے تو نسل در نسل حکمرانی کے ٹھیکہ دار خاندانوں سے استعفیٰ نہ سہی، تلاشی لی ہی جا سکتی ہے ۔ چاہے ذہنی غلامی سے تلاشی میں کامیابی حاصل کرنے تک کی منزل پا لینے کے بعد ”یوٹرن” کی احمقانہ بپھتیاں ہی کیوں نہ سننی پڑیں۔ اور یقین کیجئے اس تلاشی میں نکلنا وہی ہے جو دراصل میرا، آپ کا اور ہم سب کا اپنا ہے۔آخر میں فاتحہ ان آرزوں کے لئے جو 2نومبر کو خون خرابے اور پھر اسکی بنیاد پر کسی ”موقع” کے خواب دیکھتے دیکھتے ابدی نیند سو چکیں۔احتجاج کے انعقاد کو انتشارقرار دینے اور پھر احتجاج کے موخر کرنے پر خارش زدگی کا اظہار کرنے سے بڑا بھی کوئی یوٹرن ہو گا؟ جی بالکل۔۔۔ پونی صدی کی اس مملکت کے سب سے بڑے یو ٹرن دیکھنے ہوں تو این آر او اور میثاق جمہوریت کی دستاویزات دیکھئے۔

Back to top button