جیالوں کا المیہ
حدِ ادب
انوار حسین حقی
جیالوں کا المیہ
______________
پاکستان کی عدالتِ عظمی ٰ میں پانامہ لیکس کے معاملے پر پیش رفت کے بعد عمران خان نے دو نومبر کادھرنا موخر کرنے کا اعلان کیا کیا کہ’’ سٹیٹس کو ‘‘ کی حامی قوتوں کی توپوں کا رُخ اُن کی طرف مڑ گیا ۔وہ تمام جو عمران خان کے دو نومبر کے احتجاج کو ان کا ذاتی فیصلہ قرار دے رہے تھے عمران خان کے تازہ ترین ذاتی فیصلے پر سیخ پا نظر آتے ہیں ۔ شیخ رشید احمد ، طاہر القادری سمیت پاکستان کی پوری سیاسی برادری کی خواہش یہ ہے کہ عمران خان ان کے مشورے پر چلیں ۔ سینٹ میں قائد حزبِ اختلاف اعتزاز احسن اپنی جماعت میں تو اپنا موقف منوا نہیں سکتے لیکن عمران خان کو مشورہ دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔۔۔ موجودہ حالات میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سب سے زیادہ ’’ ستم ظریفی ‘‘ کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ اپنے تازہ ترین بیان میں انہوں نے عمران خان پر میاں نواز شریف کو مضبوط کرنے کا الزام عائد کیا ہے ۔ شاہ صاحب کو کون سمجھائے کہ پاکستانی قوم کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں ہے کہ انہیں 2014 ء کے دھرنے کے موقع پر پارلمنٹ کے طویل ترین بے مقصد اجلاس میں حکومت کا ساتھ دینے کی تمام کہانی بھول جائے ۔۔ قوم دوپہر کے اُس کھانے کو بھی نہیں بھول پائی جو رائے ونڈ کے ’’ جاتی عمراء ‘‘ محل میں آصف علی زرداری کے اعزاز میں میاں صاحبان نے پکایا تھا ۔۔۔ اس لنچ کی 80 ڈشیں شاید آصف علی زرداری کو ہضم ہو گئی ہوں لیکن قوم کو نہیں بھولیں ۔
موجودہ پیپلز پارٹی کو کئی قسم کے المیوں کا سامنا ہے۔ جن میں پیپلز پارٹی سندھ اور پنجاب کی قیادت کے خیالات کا تضاد ،آصف علی زرداری کی پارٹی پر مضبوط گرفت اور بلاول بھٹو زرداری میں سیاسی پختگی کا فقدان سرِ فہرست ہے ۔ پیپلز پارٹی کا 46 سالہ سفر اب ’’ سیاسی بڑھاپے ‘‘ میں ڈھل رہا ہے ۔ پارٹی کا یہ بڑھاپا خورشید شاہ سے برداشت نہیں ہو پاتا شاید یہ سب اس لئے ہے کہ وہ خود عمرکے اس حصے میں ہیں جہاں عمرِ رفتہ کی یادیں روگ بن جاتی ہیں ۔اور پھر مستقبل بلاول بھٹو جیسی قیادت سے جُڑا ہو تو پریشانی خورشید شاہ جیسی ہی ہو جاتی ہے ۔۔۔۔
بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہونے کے باجود بلاول’’ بھٹو‘‘ نہیں بن سکا ۔۔۔۔۔۔ یہ سب تین سال پہلے مزارِ قائد کے سامنے پیپلز پارٹی کے ایک بڑے جلسے میں یہ خود بلاول نے ثابت کیا تھا جب عوام کے ایک جمِ غفیر میں بلاول کی عملی سیاسی مہم میں انٹری کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔تین سال بعد بھی آج اگر بلاول بھٹو کی ایک گذشتہ ایک ماہ کی تقاریر اور بیانات کا جائزہ لیں تو بلاول یہ تائثر قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ ’’ باغِ سیاست ‘‘ کے ماحول کا انہیں کچھ اندازہ ہے۔ ۔۔ گلستانِ سیاست کی پہلی ’‘ بہار ‘‘ کے نووارد کے طور پر بلاول زرداری سیاست کے’’ صوفیوں‘‘ کے سبق سے محروم نظر آئے تھے اور ابھی تک ان کی محرومی بر قرار ہے ۔ پہلی سیاسی تقریر میں انہیں دوران تقریر شیری رحمن کی ٹیوٹر شپ تو حاصل رہی لیکن سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کرنے والے دلِ فطرت شناس کی آگاہی سے ان کی محرومی واضح طور پر محسوس ہوتی رہی۔
اس جلسے میں بلاول زرداری کی تقریر کے دوران شیری رحمن ان کے ساتھ نہ صرف موجود رہیں بلکہ ان کی رہنمائی بھی کرتی ر ہیں ان کے برقت لقموں کے باوجود بلاول کی تقریر میں قائدانہ خطاب کی جھلک کہیں نظر نہیں آئی تھی ۔ اب بھی بلاول بھٹو کی تقاریر کو کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کی بے ہنگم ، بے ترتیب، بے آہنگ گفتگو کو کسی طور پر بھی ’’بھٹو‘‘ کے وارث یا کسی بڑی پارٹی کے مرکزی لیڈر کا ’’ اظہاریہ ‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ بھٹو خاندان کی تاریخ ہے کہ انہیں جواں سالی میں ہی میدانِ سیاست کا بارِ گراں اُٹھانا پڑا ۔ اس حوالے مسائل کے انبار کے باوجود بھٹوز کے لئے میدان بہت ہموار اور ماحول ساز گار رہا ۔ پاکستان کی قومی سیاست میں قوم نے بھٹوز کو امر ہوتے اور حیاتِ جاودانی پاتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن بلاول کے لئے بہت سی مشکلات ہیں ۔سب سے بڑی مشکل یہ کے انہیں اپنے والد کی عوامی شہرت کو ساتھ لے کر چلنا ہے جو کسی بھی صورت میں مثبت نہیں ہے۔آصف علی زرداری کی مفاہمت کی سیاست نے ثابت کردیا ہے کہ وہ میاں نوازشریف سمیت کسی سے بھی ٹکر نہیں لینا چاہتے ۔ یا پھر آصف علی زرداری کو یقین ہوگیا ہے کہ 37 سال سے بھٹو کے نام پر قربان ہونے والا ’’ جیالا ‘‘ اب یکطرفہ محبت میں زیادہ پُر جوش نہیں ہے ۔
2013 ء کے عام انتخابات سے پہلے عمران خان کو فیورٹ قرار دینے والوں کا خیال تھا کہ اگر عمران خان حکومت نہ بنا پائے تو وہ ایک انتہائی خطرناک اپوزیشن لیڈر ثابت ہوں گے یہ تجزیہ شاید درست ثابت نہ ہوتا اگر میاں نواز شریف حالات کا ادراک کر لیتے لیکن چار حلقوں میں ہونے والی دھاندلی کو تحفظ دینے کے لئے انہوں نے جس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا وہ نہ صرف ان کے گلے کی ہدی بن گئی بلکہ اس نے روایتی سیاست کے علمبرداروں کے لئے بھی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ اسلام آباد کے شاہراہ دستور پر دئے گئے دھرنوں نے لوگوں کی سوچ بہت حد تک بدل دی ہے۔
خورشید شاہ اور سعید غنی کی پارٹی اور قیادت کا المیہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسے وقت بہت کمزور وکٹ پر ماضی کی کرکٹ کے آل راؤنڈر او ر ورلڈ کپ کے فاتح کو للکار رہے جب ان کی اپنی اننگز بارہویں کھلاڑی کا کریکٹر معلوم ہو رہی تھی۔ یہ اب جنرل پرویز مشرف اور جنرل ضیاء الحق کی باقیات کا شور بھی مچا سکتے کہ ماضی کے اِن تلخ حقائق نے اِن کے لہجے کی گھن گھرج کو کھسیانہ بنا دیا کہ ان کی والد ہ نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او سائن کیا تھا اور بینظیر بھٹو نے جن پر اپنے قتل کی سازش کا الزام لگایا تھا اور جو چوہدری برادران جنرل ضیاء الحق کی خالص باقیات کا حصہ کہلاتے ہیں وہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں نائب وزراعظم کا منصب تخلیق کرکے حکومت کا حصہ بنائے گئے ۔ جسے بے نظیر کا قاتل قرار دے کر کراچی میں اس کی موجودگی کا حوالہ دیا جا رہا تھا اس پرویز مشرف کو ان کے اپنے دورِ حکومت میں گارڈ آف آنرز پیش کیا گیا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دیگر جماعتوں کو آمریت سے یارانوں کا طعنہ دینے والے بلاول زردار ی بھول جاتے ہیں کہ ان کے ’’نانا ‘‘ ذوالفقار علی بھٹو یحیےٰ خان کی نیم مارشلائی حکومت کی پیداوار ہیں ۔ اور جمہوریت کے اسی چیمپین نے پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت میں شمولیت اختیار کئے رکھی اور بھٹو ازم کے فلسفہ کے بانی ایوب خان کے لئے ’’ ڈیڈی ‘‘ کے الفاظ استعمال کیا کرتے تھے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت باقی جماعتوں کے قائدین کو بھٹو ازم کے فلسفے میں فلاح کی راہ دکھانے کی کوشش میں مگن دکھائی دیتی ہے ۔ جیئے بھٹو کے نعرے لگائے جاتے ہیں مگر خود ان کی پارٹی کی 37 سالہ تاریخ بھٹو ازم کے فلسفے سے بے وفائی اور کج ادائی کی تاریخ دکھائی دیتی ہے ۔ اِ س کے مقابلے میں جس عمران خان کے لئے کٹھ پتلی کا نام استعمال کرتے ہوئے بلاول خود’’ جو کر‘‘ دکھائی دیتے ہیں وہ قوم کو اُس ترجمانِ حقیقت کا پیغام دیتا نظر آتا ہے جو نوجوانوں کو ’’ رہ نوردِ شوق‘‘ قرار دے کر مسلسل جستجو اور جد وجہد کا پیغام دیتے ہیں ۔ ایسا رہ نوردِ شوق جس کی نظر میں بے شمار لیلائیں اور بے شمار محمل ہوتے ہیں ۔
بلاول بھٹوزرداری اپنے والد کے خیالات کے برعکس وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے بھائی میاں شہباز شریف پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف اپنے لائیحہ عمل کا اعلان نہیں کرتے ۔ بلاول زرداری نوجوان ہیں ، پرعزم ہیں ، اپنی والدہ کے جانشین بننا چاہتے ہیں ۔سیاسی زندگی کو تیز ہواؤں اور آرزؤں میں اُڑانا چاہتے ہیں لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی عمر کے لوگوں کو بھی متائثر نہیں کر سکے ۔۔۔ سیاست میں جسمانی بلوغت کے ساتھ ساتھ ذہنی بلوغت بھی ضروری ہے ۔ جس سے خورشید شاہ کی پارٹی کے چیئر میں ابھی بہت دور نظر آتے ہیں ۔ مایوسی کے اس ماحول میں پیپلز پارٹی کا ورکر مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے ذوالفقار جونےئر اور فاطمہ بھٹو کی جانب رجوع کر سکتا ہے ۔۔۔۔ اس حوالے سے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔