ٹرپل ون بریگیڈ کا نمبر اور تھوڑا سا انکسار۔۔۔۔
ٹرپل ون بریگیڈ کا نمبر اور تھوڑا سا انکسار۔۔۔۔
تحریر . سعدیہ رافع
نکے نکے دل والوں کے وڈے وڈے کالم۔ اچھے اچھے لفظوں میں جکڑے سارے جھوٹ۔ سینیر اور دانشور صحافی کے کیری ڈبے کا پھڑپھڑاتا جہاز جس پریڈ گراؤنڈ میں لینڈ ہوا، وہیں سے ہم نا اہل، نا لائق، نۓ دور کے کم عقل اور نتھو لال درسگاہوں سے پاسنگ نمبر لے کر نکلے صحافی اپنے قلم کے پھٹیچر سائیکل پر سچ کا پیڈل مارتے ہوۓ ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں ایک قصہ فریب کی حقیقی منظر کشی کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔ (معافی ان ڈگریوں سے جن کے ملنے پر اماں ابا نے مٹھائی کے ٹوکرے بانٹے تھے کیونکہ نالائق صحافی نے جڑواں شہروں میں موجود اپنے کالج کی تمام برانچوں میں ٹاپ کیا تھا ۔)
خیر جناب بات کچھ ایسے ہے کہ چمن میں گل کھلیں تو خون مالی کا شامل ہوتا ہے۔ منے میاں دنیا میں آئیں تو پاس اک عدد ابا میاں کھڑا ہوتا ہے۔ پروں میں بچوں کو سمیٹنے کے واسطے پرندہ اکثر نہیں سوتا ہے اور جو ہوم ورک نہ کیا ہو تو جواب میں جو ہوتا ہے وہ استاد کا سوٹا ہے۔ یعنی نگہبانی ایک بڑا ہی لازم و ملزوم سا عمل ہے۔
اب بیوروچیف سے ملنے والی حوصلہ افزائی کا شوق یا ان کی ترچھی نگاہوں کا خوف نہ ہو تو ہم صحافی بھی بھلا اس شوق و خوف کی وجہ سے کی جانے والی دوڑ بھاگ بھول کر ہر حسین لڑکی دیکھ کر جھوٹ کے پلندوں سے بھرے کالم نہ لکھنے بیٹھ جائیں؟ (حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے اور پھر سینئر صحافی کے قلم سے ادا کی گئی اکلوتی تعریف کیسے بھول جاؤں۔ )
تو طے یہ ہوا کہ کوئ سربراہ کوئ نگہبان ضرور ہوتا ہے۔۔۔ اسی لئے تو ہر سیاسی پارٹی کا چئیر مین موجود ہے۔ ۔مگر کرسیاں اور بھی تو ضرور ہیں۔۔۔۔ اب وزیر اعظم کے منصب سے نیچے وزیر بھی تو آتا ہے نا اور دینہ سے پہلے جہلم بھی تو اپنی لہروں میں لہراتا ہے۔ مامے بشیر سے پہلے چاچا کرمو بھی تو بانسری بجاتا ہے اور ہر باغ کے فوجی رکھوالوں پر اک فوجی افسر دھونس جماتا ہے ۔ (جی باجی بلقیس ٹھیک پڑھا آپ کی آنکھوں نے )
اب ہوا یہ کہ ایک عدد باجی ، چادر لپیٹے ، دفتری رولوں سے اوازار ، کیری ڈبے سے بیزار جو پہنچتی ہیں پریڈ گراؤنڈ تو ایک بھولا بھالا (ہم نا لائقوں سے بہتر، عقل رکھنے والا) ۔ ۔فوجی رکھوالا باجی کو روک لیتا ہے۔ اس دانشور، مفکر رکھوالے کو باجی ہائیکورٹ کے آرڈرز سناتی ہیں کہ پپو پا جی اس گراؤنڈ کو (democracy and speech corner) قرار دیا گیا ہے
ڈیموکریسی کا ڈی اور سپیچ کا ایس سمجھنے کی ناکام کوشش کے بعد وہ عظیم دانشور گردن اکڑا کر کہتے ہیں ہمیں نہیں پتہ اس متعلق ۔۔۔ تب ایک فیشنی سی ( سندھی کرتے اور شیشوں کی دیسی کڑھائ والی فیشنی رپورٹر عرف نیک نہیں نالائق بخت۔۔۔ ویسے اب اس حلئیے میں بھی ٹور ٹشن ہو تو بندہ کیا کرے۔۔۔ اور یہ اب باجی کے لۓ اصل میں ہنسی کا فوارہ چھوٹنے والا جملہ۔تھا۔۔۔
خیر جی وہ رپورٹر گستاخی کرتی ہے کہ پا پپو ، بھیا آپ کے اوپر جو یہاں رکھوالا تعینات ہے، اسے بلائیں۔ اب پپو تھا۔۔۔ لفظ اوپر سے سمجھا کہ ٹرپل ون بریگیڈ۔ نااہل رپورٹر سمجھ گئی کہ اسے لفظ اوپر سے غلط فہمی ہوئی ہے اور کہا کہ بھیا جو اس باغ میں آپ سب کا ہیڈ ہے، سربراہ ہے جو اتنے بڑے باغ میں موجود تمام گارڈز کا انچارج ہے، اس کو بلا دو۔ یہی وہ وقت تھا جب پپو رکھوالا اس سربراہ گارڈ کو بلانے گیا تھا اور باجی اپنا تخیلات میں بنایا ہوا ہنسی کا فوارہ بہانے گئی تھیں اور پانی اتنا سر کے اوپر ہو گیا کہ سر ہی پھر گیا اور کان بھی بجنے لگے ۔ پھر میرے لب ٹرپل ون کا نمبر مانگتے ہوۓ باجی کو ہلتے نظر آۓ۔۔۔
اب سنیے اگلا ماجرا۔۔۔ ہماری نتھو لال درس گاہوں میں پڑھایا گیا تھا کہ بنا اجازت کسی کی ملکیت یا ذات سے چرا کر خبر دینا بھی صجافت کے اصولوں کے خلاف ہے مگر باجی اپنے کیمرے کے آگے کھڑی ہو کر دھڑا دھڑ پی ٹی سی کروا کر دوڑ گئیں۔۔۔ (شام ہوتے ہی ثریا کو آشیانہ پکارتا ہے اور دفتر کاٹتا ہے)
اور جناب پھر پپو رکھوالا اپنے ٹیپو سربراہ کے ہمراہ آیا اور اجازت ملنے کے بعد ہم نے اپنی رپورٹ بنائی جس کو بنانے کے دوران ٹیپو سربراہ ہمارے ساتھ ساتھ موجود رہا۔۔۔
آپ آج بھی پریڈ گراؤنڈ جا کر رکھوالوں سے ان کے سربراہ رکھوالوں کے بارے میں معلوم کر کے ملاقات کا شرف حاصل کر سکتے ہیں ۔
ارے ہاں اکلوتی تعریف کا بھی جاتے جاتے پھر سے ذکر خیر ہو جاۓ۔ ۔ہماری وہ لہراتی زلفیں اور حسن۔۔۔ اور ہمارا ایسا جائزہ لیتی نگاہیں ایک خاتون باجی کی۔۔۔ ہائے! بھلا عورت کے منہ سے عورت کی تعریف؟ خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا۔ ۔تو لو بھئی اب بات کے اختتام پر تجربے والی عظیم باجی کو ادنی اور نالائق صحافی کا تعریف سے متعلق آخری پیغام۔۔۔
حسن تو خدا کی عطا ہے
اس پر بکھری زلف اک بلا ہے
سارے رنگ بے خطا ہوتے ہیں
مگر فریب و حسد تمھاری خطا ہے
یہ چہرے کی نہیں، من میں بسی رنگت کی بات۔کی گئی ہے جو بنا کسی کو وقت دیے اس کی ذات کے بارے میں رائے قائم کر لیتی ہے ۔
زندگی میں مانگنے والی چیز تو انکسار ہے، تھوڑا سا انکسار۔۔۔