اکرام اللہ خان نیازی

حدِ ادب
انوارحسین حقی
اکرام اللہ خان نیازی
تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ میانوالی اور اس کے ارد گرد بنوں تک کا علاقہ بلوچستان اور سندھ سے بہت پہلے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا تھا ۔مورخ بلاذری ’’فتوح البدان ‘‘میں اس علاقے کی مسلمانوں کے ہاتھوں فتح کا ذکر کرتا ہے ۔ طبری اور ابن الثیر نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے ’’اس وقت خراسان کے جنرل آفیسر کمانڈنٹ عبد الرحمان ابنِ سمرہ تھے اور مہلب ابنِ صفرہ ان کے زیرِ کمان افسر تھے ۔ تسخیرِ کابل کے بعد ہندوستان کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے صہلبی لشکر نے بتہ اور الاھوازپر حملہ کیا ۔ مورخین نے’’ الاھواز‘‘ کو بنوں اور میانوالی کے قریب کا علاقہ بتایا ہے ماضی میں میانوالی کے اس علاقے کو دھنوان ، شنوران ، رام نگر اور ستنام کے ناموں سے بھی پُکارا گیا ہے ۔بعد میں ایک بزرگ حضرت میاں علیؒ کے نام کی نسبت سے اس علاقے کو ’’میاں والی ‘‘ کا نام ملا ۔۔۔
یہاں نیازی قبائل کی آمد کا سلسلہ ہندستان پر سلطان محمود غزنوی کی ’’ دستک ‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔لیکن ان قبائل کی باقاعدہ منظم شکل میں اس علاقے میں آمد بہت بعد کی بات ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ نیازیوں کی اکثریت اوائل میں غزنی کے جنوبی علاقے میں آباد تھی ۔ اس علاقے پر انڈروں اور خلجیوں کے آئے دن کے حملوں سے تنگ آکر یہ لوگ ترک سکونت پر مجبور ہوئے اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقہ ٹانک سے ہوتے ہوئے میانوالی کے علاقہ میں آئے۔ میانوالی میں پٹھانوں کے نیازی قبائل میں بلو خیل قبیلہ کو ممتاز مقام حاصل ہے۔
اس قبیلے کے مورث اعلیٰ بلو خان (Baloo Khan ) کا شجرہ نسب سرہنگ نیازی سے جا ملتا ہے۔تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ احمد شاہ ابدالی کے دو امراء کو1748 ء میں گکھڑوں کے مضبوط قلعے پر یلغار کے وقت بلو خیل قبیلہ کی مدد حاصل تھی۔ ماضی میں اس جنگجو قبیلے کے دلیرانہ معرکوں کی شہادت مقامی لوک گیتوں میں آج بھی ملتی ہے۔تاریخ میں ایک معرکہ بلو خیل قبیلہ کے ایک سردار سہراب خان کے نام سے منسوب ہے۔ روایات کے مطابق ’’ سہراب خان کی زیر قیادت اس قبیلے کے افراد نے غالباً1845 ء میں موجودہ بلو خیل سے چھ کلو میٹر مغربی جانب ایک تاریخی لڑائی لڑی۔ اس لڑائی میں بلو خیل قبیلہ کا سردار سہراب خان تو شہید ہو گیا ۔ مگر جنگ کے نتیجے میں لا تعداد سکھ سپاہیوں کی کٹی ہوئی گردنیں(گلو) اور کھوپڑیاں گھوڑوں کے سموں تلے کچلتے کچلتے گارا ( کیچڑ) بن گئیں۔ یوں اس جائے حرب کا نام ’’ گلو گارہ ‘‘ پڑ گیا۔اب یہ علاقہ چشمہ بیراج کی تعمیر کی وجہ سے زیر آب آ چکا ہے ۔ ‘‘
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ بڑا قبیلہ سرورخیل، سہراب خیل، بہرام خیلِ شیرمانخیل،خنکی خیل،پنوں خیل، زادے خیل اور عالم خیل وغیرہ کی الگ الگ شاخوں میں تقسیم ہو گیا۔شیر مان خیل قبیلہ کے علی شیر خیل اپنی سیاسی وابستگیوں میں استقامت اور جرائت کے حوالے سے منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔
ڈاکٹر محمد عظیم خان شیر مان خیل کے چار بیٹے ظفر اللہ خان نیازی، امان اللہ خان نیازی، کرنل فیض اللہ خان نیازی اور اکرام اللہ خان نیازی تھے۔ اکرام اللہ خان نیازی امپیریل کالج لندن سے فارغ التحصیل تھے ۔ بتایا جاتا ہے کہ 1948 ء میں جب وہ اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرکے میانوالی واپس آئے تھے تو ریلوے اسٹیشن پر میانوالی کے تمام لوگ ان کے استقبال کے لئے جمع تھے ۔انہوں نے محکمہ پی ڈبلیو ڈی(PWD ) میں ملازمت اختیار کی۔ وہ پی ڈبلیو ڈی میں چیف انجینئر تعینات تھے تو میانوالی میں ان کا خاندان ایوبی آمریت کے خلاف ڈٹا ہوا تھا۔ا ن کی نفسیات جاننے والوں کے مطابق’’اس خاندان کا ہمیشہ سے یہ امتیاز رہا ہے کہ یہ لوگ مصیبت میں گھبرانے کی بجائے اپنے موقف پر ڈٹ جاتے ہیں۔‘‘ قیام پاکستان کی تحریک کے دوران یہ اپنے علاقے میں مسلم لیگ کے پشتیبان تھے۔ اکرام اللہ نیازی کا خاندان اور مولانا نیازی ؒ ہمیشہ یک قالب و یک جان رہے۔ ایوب خان کے دور میں یہ خاندان مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے ہمراہ تھا۔ سابق گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان نواب آف کالاباغ میانوالی میں انجینئر اکرام اللہ خان نیازی کے بھائیوں ظفر اللہ خان اور امان اللہ خان ایڈو کیٹ کی سیاسی سر گرمیوں کی وجہ سے ان سے ناراض تھے۔یہی وجہ تھی کہ اکرام اللہ خان نیازی کو ملازمت سے ریٹائر منٹ لینا پڑی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد اکرام اللہ خان نیازی اور انکی اہلیہ محترمہ شوکت خانم مرحومہ نے اپنے بیٹے عمران خان کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی۔ اُن کے بیٹے نے کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھا تو اپنی شاندار کارکردگی کی بدولت دنیائے کرکٹ کے بادشاہ کہلائے۔ پاکستان کو ورلڈ کپ کا فاتح بنایا۔ بعد میں اپنے والد کی بھرپور سرپرستی میں سماجی خدمت کے میدان کا انتخاب کیا ۔ عظیم الشان اور بے مثال ادارے ’’ شوکت خانم ہسپتال ‘‘ کی تعمیر میں بھی عمران خان کے والد کا بہت نمایاں کردار رہا۔عمارت کی ڈیزائنگ میں بھی ان کی تجاویز اور مشاورت کا خاصا عمل دخل رہا۔ سماجی خدمت کے میدان میں اپنے اکلوتے بیٹے کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اکرام اللہ خان نے عمران خان کو سیاسی میدان میں بھی تنہا نہیں چھوڑا۔ جب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے عمران خان کو اپنی کابینہ میں شامل ہونے کی دعوت دی تو اکرام اللہ خان نے اپنے بیٹے کو منع کر دیا تھا کہ ابھی آپ نے مزید منزلیں طے کر نا ہیں۔نئی اڑانیں تمہاری منتظر ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ آج سیاست میں عمران خان کے سب سے بڑے حریف میاں محمد نواز شریف ( جو کرکٹ کے کھیل سے دلچسپی کے باعث عمران خان نے خصوصی مراسم رکھتے تھے ) نے بھی عمران خان کو اپنی مسلم لیگ میں شامل ہونے کے عوض مسلم لیگ کی سینےئر نائب صدارت اور ڈپٹی وزیر اعظم کے منصب کی پیش کش بھی کی تھی۔لیکن اکرام اللہ خان نیازی کی روایتی خاندانی استقامت اور سیاسی بصیرت نے ان کے بیٹے کو اس پیشکش سے بھی دور رکھا۔اگر عمران خان یہ پیشکش قبول کر لیتے تو عالمی پہچان رکھنے والا یہ پاکستانی ہیرو پاکستان کی سیاست کے صلاحیتوں کے قبر ستان میں دفن ہوجاتا۔1997 ء کے عام انتخابات سے قبل عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی تو اس وقت بھی اکرام اللہ خان نے اپنی علالت اور ضعیف العمری کے باوجود عمران خان کے سیاسی سفر کو تنہا نہیں ہونے دیا اور وقتاً فوقتاً اپنے بیٹے کو اپنے مشوروں سے نوازتے رہنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ استقامت اور جرائت کی تلقین کرتے رہے۔ اکرام اللہ خان نیازی نے 19 مارچ 2008 ء کو لاہور میں وفات پائی ۔ان کو انکی وصیت کے مطابق میانوالی میں ان کے آبائی قبر ستان میں دفن کیا گیا۔
اکرام اللہ خان نیازی نے ہمیشہ عمران خان کو اقبالیات کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی۔ وہ اکثر اپنے بیٹے کو اقبال ؒ کی زبان میں کہا کرتے تھے کہ ’’ توُ رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول ‘‘
عمران خان کو اقبالیات سے جوڑنے میں ان کے والد کا بڑا حصہ ہے ۔عمران خان نے علامہ اقبال ؒ کے کلام کا مطالعہ کیا تو روشنی کی بے کنار وسعتوں کا ادارک ہوا۔اکرام اللہ خان نیازی مرحوم کا گھرانہ سماجی خدمت کے میدان میں اپنی خدمات کے حوالے سے محسنین پاکستان کی صفوں میں شامل ہو چُکا ہے ۔ گذشتہ دنوں ایک ملاقات کے دوران عمران خان کی ہمشیرہ محترمہ ڈاکٹر عظمیٰ حق نے اپنے والد کے حوالے سے بتایا تھا کہ ’’ ہم چاروں بہنیں اور بھائی اپنے والد کی اس ہدایت پر ہر صورت میں عمل کرتے ہیں کہ جو غلط ہے اُسے غلط کہا جائے اور کسی قیمت پر بھی سیاہ کو سفید کہنے کے لیئے تیار نہیں ہوتے ۔ میانوالی کے اکرام اللہ خان نیازی مرحوم نے 23 مارچ 1940 ء کو لاہور کے منٹو پارک میں قائد اعظم ؒ کی زیرصدارت جلسے میں شرکت کرکے جو عہد کیا تھا اُس عہد کی پاسداری کیلئے انہوں نے ہمیشہ اپنی اولاد کو ہدایت کی جس کی بدولت اُنکے خانوادے کے اُجلے کردار نے اہلِ پاکستان کے دلوں میں گھر کر لیا ہے۔اور دریائے سندھ کے کنارے میانوالی کے تاریخی اور قدیم قبرستان میں موجود اکرام اللہ نیازی کی مرقد ہمیشہ لوگوں کی دعاؤں کی بدولت اللہ پاک کی رحمتوں کا مرکز بنی رہے گی ۔