میری زندگی کا دوسر ا رُخ ۔۔ محترمہ نیلو فر کھر کا اپنی سالگرہ کے حوالے سے خصوصی کالم
نیلاب
نیلوفر کھر
میری زندگی کا دوسرا رخ
____________________
بارہ فروری میرا جنم د ن ہے یہ دن میرے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔وہ دن جس نے مجھے زندگی دی اس خوبصورت دنیا میں زندہ رہنے کا موقع فراہم کیا میرے لئے سب سے اہم ہے ۔ اس بہت اہم دن کومیں آپ کے ساتھ بانٹنا چاہتی ہوں۔اس لئے آج میں آپ سے اپنی زندگی کے کچھ نشیب و فراز بانٹوں گی۔ میں پیدائشی طور پر ایک خوش قسمت انسان ہوں، کچھ لوگ اپنے لئے مستقبل خود سنہرا بناتے ہیں۔اور کچھ لوگ بہترین قسمت اور شاندار مستقبل کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اور میں بھی انہی میں سے ایک ہوں۔یقیناًیہ قسمت اور مستقبل خدا نے خود ترتیب دیا ہوتا ہے۔اس لئے انسان کی کوششوں سے تشکیل دےئے مستقبل سے کہیں زیادہ پائیدار ہوتا ہے۔مگر خوش قسمت لوگوں کی زندگی میں صرف فراز ہوتے ہیں۔ اور نشیب نہیںیہ کس نے کہا۔؟ انہیں بھی نشیب سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ان نشیبوں کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی ہے۔یہاں خدا ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت ، ہمت اور حوصلے کا امتحان لیتا ہے۔اور پھر صلاحیت کا استعمال انہیں جلد ان نشیبوں سے نکال کر پھر سے فرازسے آشناء کرتا ہے۔
یہ 2007 ء کا اختتام تھا۔۔۔۔ غالباً آغازِ دسمبر سال کا آخری ماہ میں نے یوں گذارا جیسے زندگی کی شام ہو۔ہر طرف سے اندھیرا مجھ پر غالب آنے کی کوشش کر رہا تھا۔کہنے کو تو یہ چند دن تھے مگر تھے بہت صبر آزما۔ اس ماہ میں نے اپنی سب سے قیمتی چیزیں کھوئیں اور دنیا کی سب سے انمول چیز حاصل کی ۔۔ ’’سچ ‘‘ ۔۔ محبت کا سچ، رشتوں کا سچ، دوستی کا سچ،وفاداریوں کا سچ، اور غداری کا سچ۔ آج اس حصول پر میں سب سے زیادہ آسودہ ہوں۔ بابا مجھ سے دور ہو گئے۔میں غم کے اندھیروں میں ڈوبنے لگی اور میرے دشمن جو ہمیشہ سے بابا کو مجھ سے دور کرنا چاہتے تھے۔۔ خوش ہو گئے۔۔میری زندی کا اندھیرا ان کے لئے روشنی تھا۔ہمیشہ سے میں خوش بختی کے اُجالے میں اور میرے دشمن بدقسمتی کے اندھیروں میں غرق تھے۔پہلی بار میں تاریکی میں ڈوبتی جارہی تھی۔اور وہ میرے غم سے خوشی بٹورنے میں لگے تھے۔میں جو بابا کی جان تھی ۔ بات بات پر بابا کو شکایتیں کرنے کو اپنا حق سمجھنے والی عجیب حالات کا شکار تھی۔ایک لمحے کے لئے سو نا پاتی تھی۔دواؤں کی مدد سے جب بھی آنکھ لگتی۔ اندھیرے میں خود کو بابا کو پکارتے پاتی۔ان دنوں مجھ پہ یہ بھی آشکار نہ تھاکہ حاسدین اور بد خواہوں کی ایک خفیہ فوج میری طاق میں تھی۔جو مجھے ہارتا دیکھنا چاہتے تھے۔ابھی بہت سے چہرے بے نقاب ہونا باقی تھے۔کم عمری نا تجربہ کاری اور غم کے باعث دوست دشمن پہچاننا میرے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ وہ بچی جس نے زندگی ایک خواب کی طرح گذاری ہو۔Wonderland والی Alice کی طرح، اس کے لئے بدخواہوں اور دنیا کی بد صورتی کودیکھ پانا مشکل تھا۔انہی دنوں میری مرحوم نانی جنہیں میں بہت چاہتی ہوں۔سخت بیمار ہو گئیں۔میں پیسے سے بھی ان کی زندگی نہیں خرید سکتی تھی۔کیونکہ وہ اپنی عمر گذار چکی تھیں۔ اب ان کے جانے کا وقت تھا۔ اس تلخ حقیقت نے کہ وہ کبھی بھی مجھے چھوڑ کر جا سکتی ہیں۔مجھے مزید اتنہا کر دیا۔میری ہر سالگرہ پر وہ میرا ماتھا چومتیں اور میرے خوبصورت ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر میری آنکھوں میں مسکراتی ہوئی جھانکتیں اور پھر مجھے خود سے لپٹا لیتیں ۔ وہ میری نانی ہی نہیں میری زندگی کا سرمایہ بھی تھیں۔ ان کو کھو دینے کا خوف مجھے ہلکان کر رہا تھا۔دوست احباب سب کے سب غدار اور بدخواہ تھے۔ وہ جنہیں میں نے غریب سمجھ کر ان کی مدد کی اور احساس محرومی نہ پنپے،اس کیلئے ہر ممکن کوشش کی۔ انہوں نے میرے خلوص کو بے وقوفی سمجھا۔
دراصل یہ احساسِ کمتری تھا یا ان کے اندر کا گھٹیا پن جو ان میں میرے لئے غصہ بن کر پل رہا تھا۔ان کے حالات کی ذمہ دار میں نہیں تھی۔نہ تو میں نے ان کی شکل و صورت بنائی تھی اور نہ ان کی قسمت میں نے لکھی تھی۔میری تو نیت صاف تھی۔ میرا تو کوئی قصور نہیں تھا۔مگر بُرے لوگ ہمیشہ برائی پھیلاتے ہیں۔ حضرت علی کا قول ہے کہ جس کے ساتھ بھلائی کر و اُس شر سے بچو۔
اکثر لوگ مجھے مغرور کا خطاب دیتے ہیں۔خود پر اعتماد کرنا اچھی بات ہوتی ہے ۔ یہ اعتماد ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ہاں میں مغرور ہوں یہ پروردگار کی دین ہے ۔ اس کا دیا تحفہ بہترین ہوتا ہے۔ غرور وہ ہے جو پروردگار کی دین نہ ہو اور اس پر اِ ترایا جائے ۔ یہ غروربُرا ہے۔
سازشوں کا جال ہر طرف میرے لئے بچھایا گیا تھا۔ محبت پر سے میرا عتماد اُٹھ گیا۔دوست ، احباب، رشتے سب سے دھوکہ کھانے کے بعد میں باالکل ٹوٹ گئی تھی۔میں نے Sidney Sheldon کا ناول The Other side of me پڑھا ۔سڈنی گیارہ فروری1917 ء کو پیدا ہونے والا میرا پسندیدہ ناول نگار ہے۔یہ ناول سڈنی کی اپنی زندگی کی کہانی پر مبنی ہے۔اس میں سڈنی جب زندگی میں ہار بیٹھتا ہے۔تو اُس کا باپ اُسے سمجھاتا ہے۔اس ناول کے ان الفاظ نے مجھ پر گہرا ثر ڈالا’’ زندگی ایک ناول کی طرح ہے۔یہ سپنس سے بھری پڑی ہے۔ تمہیں کوئی اندازہ نہیں کہ آگے کیا ہوگا جب تک کہ تُم اگلا ورق نہ پلٹو۔ ہوسکتا ہے کہ اگلے صفحے پر تمہارے لئے کوئی زبردست خوشگوار سرپرائز ہو۔ان الفاظ نے مجھے ہمت دی۔اور میں اگلا ورق پلٹنے کے لئے بیتاب ہونے لگی۔میں ورق پلٹتی گئی اور خوبصورت سرپرائزز میرا استقبال کرتے گئے۔اسی دوران میں نے محبت کو بھی ٹھکرا دیا۔جہاں بھی میری ذات کا سوال آئے گا کسی کی کوئی اوقات نہیں اور یہی میرا فیصلہ تھا ۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے سب ٹھیک ہوتا چلا گیا ۔ جس بات سے میں ڈرتی تھی۔اُس خوف کی جگہ اب طاقت نے لے لی تھی ۔ میں اب پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو چکی تھی۔
صرف تیس دن ہی سہی مگر میری زندگی کے سیاہ ترین دن تھے۔یہ تیس دن کا نشیب طویل مدت کا بھی ہو سکتا تھا۔اگر میری قسمت خدا اور درست فیصلہ کر نے کی صلاحیت میرا ساتھ نہ دیتی تو۔۔۔۔۔۔
دو اگست2009 ء کو میری نانی اماں وفات پا گئیں۔مگر میں نے ہمت سے اس کا سامنا کیا ۔ وہ آج بھی میرے خیام میں مددگار کی طرح میرے ساتھ ہیں۔ نیلوفر آج بھی کامیاب ، خوش اور مضبوط ہے۔میری مضبوطی وہ تھپڑ ہے جو میرے بدخواہوں کے منہ پر روز رسید ہوتا ہے۔آج میں بخوبی اپنے تمام دشمنان سے آگاہ ہوں۔ زندگی کی کتاب کے ہر پلٹتے ورق کے ساتھ وہ سب بے نقاب ہو گئے۔ہمیشہ کی طرح میں فتح مند اور حاسدین شکست خوردہ ہیں ۔یہی ان کا مقدر ہے۔’’سڈنی ‘‘ اور میری زندگی کو ایک ہی سوچ نے بدلا۔یہ سوچ ہم دونوں کے لئے مددگار ثابت ہوئی۔یہ خیال کہ شاید کسی اور کو بھی یہ سوچ سہارا دے سکے ۔میں نے اس سوچ کو آج کے اہم دن بانٹنا ضروری سمجھا۔میں خدا کی مشکور ہوں کہ جس نے مجھے ہر بہترین چیز سے نوازا۔ان سب بہترین چیزوں میں سب سے بہترین خدا کی مجھ سے دوستی ہے۔ایک ماڈرن لڑکی بھی خُدا سے محبت رکھ سکتی ہے۔ خدا ہمیشہ میراساتھ یو نہی دے۔ اس سے بڑھ کر میری خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے۔کہ شب کے آخری پہرمیں لکھے میرے یہ الفاظ آپ کے دن کا آغاز ہوں گے۔۔۔ نیلوفر