ممتاز صحافی اور تجزیہ نگار عنایت عادل کا ’’نیلاب ڈاٹ کام کے لئے خصوصی کالم بالحق
بالحق
عنایت عادل
جدید ڈاکئے
___________
مجھے شاید خود کو ان خوش قسمت افراد میں شامل کر لینا چائیے کہ جو آج کے اس ترقی یافتہ دور میں پیدا ہوئے ہیں۔یہ اور بات کہ عمر کے اس حصے میں مجھے یہ ’’ترقی‘‘ دیکھنے اور اس سے مستفید ہونے کا موقع مل رہا ہے کہ جس میں ہمارے ہاں ماضی کے تمام کرتوتوں سے تائب ہوتے ہوئے پارسا دکھائی دینے کی ریہرسل شروع کر دی جاتی ہے اور ان کرتوتوں سے حاصل کردہ ’’نعمتوں‘‘ پر بھی الحمد للہ کا ورد بصد زعم کثرت سے لبوں پر لایا جاتا ہے۔میرے بچے جس عمر میں آج لیپ ٹاپ، موبائیل فون اور Tabletجیسی حیران کن ایجادات کو انگلیوں پر نچاتے ہوئے حیرانگیوں کو جنم دیتے دکھائی دیتے ہیں، اس عمر میں میری نسل کے لوگ ٹیلی وژن چلتا دیکھ کر کھسر پھسر کرتے سنائی دیتے تھے کہ ’’اتنے سارے بندے ایک چھوٹے سے ڈبے میں داخل کیسے ہوئے؟؟‘‘۔مذکورہ بالا اور دیگر اس قسم کی سائنسی ایجادات سے استفادہ گرچہ آپ کی معاشی حالت کے ساتھ ساتھ آپ کے ذوق اور رجحانات پر بھی منحصر ہے لیکن موبائل فون ایک ایسی ایجاد بن کر سامنے آئی ہے کہ جن پر ، میرے خیال میں، اس قسم کی ’’انسانی حدود‘‘ کا اطلاق نہیں ہوتا۔سہولت قرار دی جانے والی اس نایاب جنس کے موجد کو بھی شاید اسکی ایجاد کے وقت ان سہولیات کا ادراک نہیں ہو گا کہ جو ان دنوں ہاتھ میں پکڑی، جیب میں ٹھنسی یا میز پر دھری اس ڈبیا میں سمو دی گئی ہیں۔مشینری بنانے والے نے چند ایک بٹن، ایک چھوٹی بڑی سکرین اور اندرون ڈبیا کچھ تاریں ، پتریاں اور دھاگے باہم پیوست کر دئیے لیکن قربان جائیے ان موبائل کمپنیوں کے کہ جنہوں نے ان دھاگوں پتریوں کے ذریعے وہ ارتعاش پیدا کیا کہ زندگی سراپا مرتعش ہو چکی ہے۔پیشہ ورانہ تعلق اور حلقہ احباب کے وسیع ہونے کے سبب میرے موبائل پر سینکڑوں کے قریب ’’فعال رابطے‘‘ محفوظ ہیں۔ لیکن ان قریبی رابطو ں سے زیادہ فعالیت خود ’’سہولت ‘‘ فراہم کرنے والی کمپنی دکھائے رکھتی ہے۔منہ اندھیرے اڑان کی تیاری کرتے پرندوں کی چہچہا ہٹ،مرغ کی بانگ اور گھر کے چاروں طرف موجود نصف درجن مساجد کے محترم موذنوں کی اذانوں سے بھی قبل، سرہانے دھرے موبائل کی گھڑگھڑاہٹ ’’اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے‘‘ پر مصر نظر آتی ہے۔ان میں سے کچھ تو ان صاحبان کی کرم نوازی ہوتی ہے کہ جو وضو اور نماز فجر کی درمیانی فرصت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم جیسے منجی توڑ غافلوں کو ’’تحریری طور پر‘‘ بیداری کا درس بھیجتے ہیںیہ اور بات کہ پیغاماتِ بیداری کا یہ سلسلہ تہجدی اوقات سے لے کر چاشت و اشراق سے ہوتا ہوا بعض اوقات ظہرانے تک جا پہنچتا ہے۔کبھی کبھار تو ہماری بیداری کا غم کھاتے یہ غم گسار عجلت میں وہ پیغامات بھی اوقات سحر میں بھیج دیتے ہیں کہ جن کے آخر میں میٹھے خوابوں کی دعا کے ساتھ نیند کی وادیوں کے سفر کی تلقین کی گئی ہوتی ہے۔مواصلی پیغامات کے اس دھندے سے قبل ، پیغام رسانی کے مختلف مراحل ہوا کرتے تھے۔قرطاس ڈھونڈنا، قلم تلاشنا(اور یا پھر کسی بچے کے بستے سے اچکنا)، میز یا کسی متوازن سطح اور یا پھر کسی گتے کاپی کی تگ و دو(اس ضمن میں آزادیِ تحریرِ مکتوب کی شرائط بھی لازمی ذہن میں رہتیں کہ خط کسے اور کیوں لکھا جا رہا ہے)، مخاطب کی شخصیت کے مرتبے، عمر اور رشتے کے لحاظ سے الفاظ کا چناؤ، طرز تخاطب، مطمع نظر کی نوک پلک، اختتامی کلمات میں بقدر جذبات وارفتگی(یا کوئی مخصوص نشان)۔ اس مرحلے کے بعدخط کے لفافے کی تلاش (جو جذباتی قدروں کے ہم آہنگ ہونا لازمی ہوتا)، تحریر شدہ خط کو لفافے میں انڈیل کر(ایسے خطوط جذبات کے استعارے ہوا کرتے تھے)لفافے کے منہ کو بند کرنے کے لئے کسی بھی چپکو قسم کی چیز(لعاب دہن جس کے لئے موزوں ترین کفایت شعاری کہلایا جاتا تھا) سے بند کرنے اور خط (اگرقابل دست درازی والدین نہ ہو تا تو)کسی بالے بچے کے ذریعے یا خود ہی قریبی ڈول(لیٹر بکس) کے دہانے میں ڈال دینا۔پھر ڈاکئے کا اس ڈول کا پیٹ پھاڑ کر اس میں موجود تمام خطوط کو ڈاکخانے لے جانا اور ان خطوط کی منازل کے لحاظ سے تقسیم بندی کے بعد ہر ایک خط کو اسکی منزل پر پہنچانا جہاں اس خط کی راہ تکتی آنکھیں ، بھیجنے والے سے تعلق کی بنیاد پر جذباتی انداز(جو مختلف کہلائے جا سکتے ہیں) اسے وصول کر تیں۔ان تمام تر مراحل میں فاصلے کے ساتھ ساتھ محکمہ ڈاک کے اہلکاروں کی اہلیت و قابلیت اورپھرتی و سستی کے لحاظ سے عرصہ صرف ہوتاجسکی طوالت کا اندازہ گھڑی کی ٹک ٹک کے بجائے بھیجنے وصولنے والے کے دل کی دھک دھک سے لگایا جاتاکہ سچے جذبے سنا ہے دلوں ہی میں پروان چڑھا کرتے تھے۔لیکن اب تو دلوں کی یہ دھڑکن چند ثانیوں کی محتاج رہتی ہے جسے زندہ رکھنے ہی کی غرض سے شاید مریضان قلب اپنا موبائل وائبریشن پر دھرتے ہوئے دل کے قریب ترین خانے میں رکھے دکھائی دیتے ہیں۔ادھر دھڑ دھڑ یا ٹناٹن ہوئی ادھر حاملِ موبائل کا ہاتھ جیب تک پہنچ گیا۔ ایک لمحے میں پیغام موصول، دوسرے لمحے جواب روانہ بہ منزل۔۔ اور یہ سلسلہ انہی سبک رفتاریوں کے ساتھ (جن میں انگلیوں کی رفتار سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے) ہمیں ہر جا جاری و ساری نظر آتا ہے۔نہ قرطا س و قلم، نا گوند و لفافہ اور نہ ڈاکیہ و ڈاک خانہ(جذبات و التفات کا اندازہ البتہ مشکل)محبت و الفت سے لے کر شادمانی و ماتم کی اطلاعات تک اور کاروباری و پیشہ ورانہ پیغامات سے لے کر لالچ و دھمکی تک کے پیغامات آپ گھر بیٹھے ہی نہیں، بستر لیٹے بھی محض چند لمحوں میں ارسال یا موصول کر سکتے ہیں۔
زمانے (بلکہ یقیناََ سائنس ) کی اس سبک رفتاری کا فائدہ خود یہ موبائل کمپنیاں بھی خوب اٹھاتی دکھائی دیتی ہیں۔عین وقت نماز آپ کو پیغام موصول ہوتا ہے کہ کون سے انڈین گانے آپ اپنی ڈائل ٹیون کے طور پر استعمال کرنے کا قانونی حق حاصل کر سکتے ہیں۔قرات سننا چاہتے ہیں کہ نعت، قوالی پر دھمال کا موڈ ہے یا کہ آپ نئے دور میں بھی پرانے گانوں کے رسیا ہیں، ٹین کنستر پیٹتے گروپ آپ کا انتخاب ہے یا کہ راگ الاپتے غزل گو آپ کو پسند ہیں، آپ کا ایک میسج اور ہماری ہر فن مولا سروس حاضر۔۔محرم ہو کہ ماہ رمضان، عید ہو کہ بقر عید، یوم آزادی ہو یا کہ یوم قائد، کرکٹ کا بخار ہو یا کہ نت نئی فلموں کی آگہی، چند انچ کی ڈبیا آپ کی تمام خواہشوں کی تکمیل کے لئے فرشِ راہ۔
اگروالدین نے آپ کا نام معانی جانے بغیر رکھا ہے تو والدین والا یہ فرض بھی ہم ادا کئے دیتے ہیں۔بیگم اور آپ ابھی تک دوپہر یا شام کے دسترخوان کا فیصلہ نہیں کر پائے تو ہم آپ کو نا صرف ظہرانے عشائیے کامینو بتا سکتے ہیں بلکہ منتخب کردہ کھابے کی ترکیب بھی ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے۔اگر آپ ستاروں کی چال پر یقین رکھتے ہیں تو ابھی ہمارا متعلقہ نمبر ڈائل کیجئے اور قسمت کے اس کھیل سے بروقت آگاہی حاصل کیجئے کہ جو آج اس نے آپ کے ساتھ کھیلنا ہے۔موسم کے ساتھ در آنے والی بیماریاں کون کون سی ہیں جو آپ پر حملہ کرنے کو بس تیار بیٹھی ہیں اور آپ ان کے حملے کو کس طرح پسپا کر سکتے ہیں یہ بھی ہم ہی آپ کو بتا سکتے ہیں۔اگر آپ کسی غیر موسمی مگر مہلک بیماری سے خائف یا خدانخواستہ شکار ہو چکے ہیں تو گھبرائیے نہیں، ہمارے سائینٹفک طبیب آپ کو ان بیماریوں سے بچاؤ سے لے کر علاج تک کے گُر سکھانے کو بے چین بیٹھے ہیں۔آپ کی آنکھوں کے آگے ہمیشہ ڈالر گردش کرتے رہتے ہیں تو پریشان مت ہوں، ہمارے دئیے گئے نمبر پر چند آسان ترین سوالوں کا جواب دیجئے اور آنکھوں کے سامنے ناچتے ان ڈالروں کو کھیسے میں ڈالنے کو تیار ہو جائیے۔صرف یہی نہیں، آپ کتاب پڑھے بغیر کسی امتحان میں جھنڈے گاڑنا چاہتے ہیں یا اپنے ملک کی خدمت کے بجائے آپ دیار غیر میں سکون کی سانس کے متلاشی ہیں۔کسی مقامی زبان پر عبور حاصل کرنا چاہتے ہیں یا کہ کسی فرنگی زبان سے آپ کا عشق نا قابل علاج ہو چکا ہے۔ مشکل الفاظ کے معانی درکار ہیں یا کہ صرف و نحو یا گرائمر آپ کی توجہ چاہ رہی ہے۔ چار پانچ بار انگلی کو حرکت دیجئے اور یہ تمام علوم آپ کی انگلیوں پر ناچتے نظر آئیں گے۔
مندرجہ بالا اور اس طرح کی کتنی ہی ’’سہولیات ‘‘ ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر نہیں، گھنٹوں بلکہ منٹوں کی بنیاد پر آپ کی دہلیز، بلکہ آپ کے سینے کھٹکھٹاتی سنائی دیتی ہیں۔ اور اب تو نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ’’ بغیر پڑھے ان موبائل پیغامات کو آگے بڑھانے ‘‘کی بڑھتی ہوئی عادت کو دیکھتے ہوئے یہ خدائی خدمتگار آپ پر باقائدہ ’’کال‘‘ کی سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں، روز و شب کی تفریق کے بغیر، آپ کا موبائل آپ کی تقدیر بدلنے، آپ کو روحانی سکون بخشنے یا آپ کے ذوق کی تسکین کا سامان آپ تک بہم پہنچانے کی غرض سے کی جانے والی کال سے جھنجھنا اٹھتا ہے۔ نماز بعد میں پڑھی جا سکتی ہے، تلاوت کا کوئی وقت مقرر نہیں، نیند آرام کے لئے ساری زندگی پڑی ہے، دفتر کے کام آپ پہلے کون سا تندہی سے کرتے ہیں، دکان کاروبار تو چلتے ہی رہتے ہیں۔ پڑھائی لکھائی میں وقفہ ضروری ہے ، محفلوں بیٹھکوں میں وقت کا ضیاع ویسے بھی نا پسندیدہ ہے تو پھر مانع کیا ہے؟ صبح شام موصول ہوتے ان ’’فلاحی ‘‘ پیغامات پر لبیک کیجئے اور کی جانے والی کالز کو ناصرف غور سے سنئے بلکہ ان پر عمل کیجئے۔ قسمت در کھٹکھٹا رہی ہو تو کفران نعمت کا ارتکاب چہ معانی دارند؟ ۔۔ اس کے جواب میں ’’چندسکے فی میسیج ‘‘ کا مطالبہ کیا بھی جا رہا ہے تو سودا مہنگا تو نہیں۔۔۔