ادبی دنیاکالم

لکھے پڑھے ہوتے اگر

آ ئینہ
عالیہ جمشید خاکوانی
لکھے پڑھے ہوتے اگر

جناب صدر ممنون حسین گو کہ پس منظر میں رہتے ہیں لیکن کرپشن کے بارے میں ان کے خیالات بہت واضح ہیں جن کا وہ گاہے بگاہے اظہار بھی کرتے رہتے ہیں انہوں نے کوئٹہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جو کمنٹس پاس کیے وہ بہت مشہور ہوئے انہوں نے کہا جو لوگ کرپشن کرتے ہیں ان کے چہروں پر ایک خاص قسم کی نحوست برستی ہے اور وہ پہچانے جاتے ہیں ان کے ان سادہ الفاظ میں بہت گہرائی تھی جس کی وجہ سے انہیں تنبہہ بھی کی گئی کہ ہاتھ ہولا رکھیں اہل کرپشن کو تکلیف ہوتی ہے ابھی کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں ہونے والی ایک تقریب میں انہوں نے رشوت ستانی کے حوالے سے سخت الفاظ کا استعمال کیا اور حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے کا مشورہ بھی دیا انہوں نے قوم کا پیسہ لوٹنے والوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اب یہ اور بات ہے کہ وہ ایک ایسی حکومت کو کرپشن کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا مشورہ دے رہے ہیں جو خود گوڈے گوڈے کرپشن کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے اور جس کے سپوت معصوم بچوں کو سبق دیتے ہیں بچو ! کرپشن ہوتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں اسی سے ملک ترقی کرتے ہیں جس حکومت کے دور میں سزا اور جزا کا عمل طاقتور اور کمزور کے لیے امتیازی سلوک بن چکا ہے انصاف کا ترازو صرف پیسے کے بوجھ سے جھکتا ہے اس حکومت سے کرپشن کے خلاف اقدام کی توقع عبث ہے
شائد اسی لیے صدر صاحب کی ٓواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی ہے جسے کوئی نہیں سنتا حال ہی میں صدر ممنون حسین نے ایک حیران کن انکشاف کیا ہے کہ وہ کبھی بھی باضابطہ طور پر اسکول نہیں گئے نہ ہی اعلی تعلیم حاصل کی ہے کیڈٹ کالج حسن ابدال میں یوم والدین کے عالمی دن کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی زندگی میں اسکول کی خوشیوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے
کیونکہ وہ کبھی اسکول نہیں گئے تقریب کے اختتام پر طلبا نے صدر کے متعلقہ اسٹاف سے اس بارے میں پوچھا کہ صدر اسکول کیوں نہیں گئے اور انہوں نے نصابی تعلیم کیوں حاصل نہیں کی ؟تو انہیں بتایا گیا کہ متعد وجوہات کی بنا پر وہ اسکول نہیں جا سکے اور گھر پر ہی تعلیم حاصل کی صدر کی جانب سے اس انکشاف کے بعد سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر ریمارکس کی بھر مار ہوگئی اور مختلف سوچ کے لوگوں نے صدر کی نصابی تعلیم کے حوالے سے ردعمل کا اظہار کیااس کی ابتدا پاکستان تحریک انصاف کی رکن اسمبلی شیریں مزاری نے کی انہوں نے کہا صدر صاحب فخریہ انداز میں بتا رہے ہیں کہ ان کے پاس کوئی اعلی تعلیم نہیں دوسری طرف وزیر اعظم صاحب فرماتے ہیں انہوں نے پرچیوں کے ذریعے کاروبار کیا نہیں معلوم آگے کیا ہو گا سوشل میڈیا پر جہاں صدر کے اس انکشاف پر خاصی تنقید ہوئی وہاں ایک خاتون نے اس بیان کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کیا ہوا اگر ممنون حسین نے گھر پر تعلیم حاصل کی اس میں کیا برائی ہے انہوں نے سچ تو بولا بحر حال تاریخ میں ایسے بھی حکمران گذرے ہیں جنھوں نے کبھی کسی درسگاہ کا منہ نہیں دیکھا لیکن انہوں نے بہترین حکمرانی کی صدر ممنون حسین کا شمار بھی انہی لوگوں میں کیا جائے ویسے بھی ہمارے اکثر ارکان اسمبلی تعلیم سے نا بلد ہیں یا جعلی ڈگریوں کے حامل ہیں لیکن وہ ہمارے ٹیکسوں پر عیش کر رہے ہیں بہترین مرعات اور آسائشات ان کو حکومت مہیا کرتی ہے یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ سٹاف کالج کوئٹہ کے دورے کے موقع پر صدر ممنون حسین نے کمانڈنٹ سے سوال کیا کہ آپ کے افسران نے میٹرک شیٹرک تو کیا ہوا ہو گا؟ حیرت زدہ کمانڈنٹ نے جواب دیا سر یہ تو ایف ایس سی کے بعدہی آتے ہیں انہیں یقین نہ آیا تو انہوں نے دوبارہ پوچھا تو انہیں بتایا گیا وہ ایف ایس سی بھرتی ہوتے ہیں پھر اکیڈمی سے ہی بی ایس سی کر کے پاس آؤٹ ہوتے ہیں یہاں تو یہ ماسٹرز کر رہے ہیں انہوں نے پھر پوچھا کہ جب آپ پوسٹ ہوتے ہیں تو پھر کیا کرتے ہیں کمانڈنٹ نے کہا دو تین دن میں چلے جاتے ہیں اور نئی جگہ کام شروع کر دیتے ہیں کہنے لگے اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر نہیں جاتے؟کمانڈنٹ نے کہا نہیں سر یہی تو خوبی ہے سسٹم کی کہ صرف سربراہ پوسٹ ہوتا ہے اور باقی تمام لوگ وہی ہوتے ہیں صدر صاحب سمجھے یا نہیں سمجھے لیکن قوم کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے لیے تعلیم کتنی ضروری ہے اور سیاستدانوں کا قوم کو جاہل رکھنے میں کیا مفاد ہے اصل ادارہ ہی وہی ہوتا ہے جس کے سربراہ کے جانے یا تبدیل ہونے سے سسٹم رکتا نہیں کام ویسے ہی چلتا رہتا ہے یہ نہیں کہ نواز شریف نہ ہوا تو حکومت کیسے چلے گی زرداری کے نہ ہونے سے پارٹی کیسے کھپے گی عمران خان نہ ہوا تو تحریک انصاف بیٹھ جائے گی اگر قوم ترقی کرنا چاہتی ہے تو شخصیات کے سحر سے باہر نکلنا ہوگا اور تعلیم کو اولیت دینی ہو گی ورنہ یونہی جاہلوں کی چاکری کرتے رہیں گے!

Back to top button