چپ کی بولی بول بول کر تھکنے سے بہتر ہے کچھ کہہ کر تھک لیا جائے۔ بہرحال اذان خاموشی سے بہتر ہے۔ مگر کیا کریں؟ یہ حلقۂ یاراں بھی عجیب بلا ہے، کہتا ہے ’’سچ کو تمیز ہی نہیں ہے بات کرنے کی۔ جھوٹ کو دیکھو کتنا میٹھا بولتا ہے‘‘ لیکن ہم بھی کوئی کم عجیب نہیں، آخر ہم عوام ہیں کہ جب جینے کا خیال آتا ہے تب تک ہم زندگی گزار چکے ہوتے ہیں اور پھر کوئی ہم خیال بھی نہیں ملتا۔ مسرتوں کی تلاش میں زندگی کے تلخ و ترش ہنگامے تو یونہی پاناموں، دھرنوں، لانگ مارچوں، تعلیماتی ہجروں، بیمار وصالوں اور ناانصاف موسموں کی شکل میں برپا ہی رہیں گے۔ چلیں چھوڑیں یہ سب…؎
ساہ وی کیہڑا سوکھا آئوندا
اک موڑاں تے دوجا آئوندا
پھر سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی نے یہ بھی تو خوب کہا ہے نا…؎
توں ظلم وسا اساں چپ ریسوں
ہے شاکر دل کشمیر ساڈا
کوئی کچھ بھی کہے، ہمیں وزیراعظم سے محبت کرنے کا اتنا ہی اختیار ہے جتنا آج کے ممبران اسمبلی کو وزارت کے حصول کی خاطر پیار ہے یا کسی سیاستدان کو الیکشن 2018ء کے ٹکٹ کے حصول کا خیال۔ لیکن ہمارا حُسنِ ظن بہرحال میاں صاحب سے زیادہ وابستہ ہے کیونکہ ہم وہ نہیں جو طلوع آفتاب میں ن لیگی اور غروب آفتاب میں ق لیگی ہوں۔ ان دنوں ہمیں شک گزرا ہے کہ میاں محمد نواز شریف تعلیم اور صحت کے حوالے سے نسبتاً سرگرم ہوئے ہیں۔ اپنی حسرت ہے کہ یہ شک یقین میں بدل جائے۔ میاں صاحب جن دنوں دل کا علاج کرانے لندن گئے تھے اُن دنوں میں ہمارے دل سے ان کی صحت یابی کی دعائیں نکلتی تھیں۔ لگتا ہے ہماری وہ دعائیں قبولیت کا تسلسل پا رہی ہیں کہ اسے الیکشن 2018ء کی تیاری سمجھیں یا میاں صاحب کے دل میں عوام کی صحت کا خیال آنا سمجھیں۔ مگر ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ کوئی دل میاں صاحب کے حوالے سے یہ نہ سمجھے کہ…؎
بہت عجیب ہے یہ قربتوں کی دوری
وہ میرے ساتھ رہا اور مجھے ملا بھی نہیں
پاناما کی دلخراشی ہو یا دھرنوں کے شوروغل کا ساتھ بہرصورت ہم یہ چاہتے ہیں کہ میاں صاحب اپنے ہیوی مینڈیٹ کو انجوائے کرتے ہوئے ہمارے ساتھ یہ اپنا دور پورا کریں۔ آخر ہم بھی ان کے حکومتی حُسن کو حسن بیان تک ہی نہیں حُسنِ کارکردگی تک دیکھیں۔ لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کے خاتموں کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ چلو وہ وعدے دو دنوں میں گر پورے نہیں ہو سکے تو چار دنوں میں کر لیں۔ تعلیم اور صحت کے حوالے سے کیا کرتے ہیں گویا دن پورے ملنے چاہئیں تاکہ اونٹ کے منہ میں فقط زیرے تک اکتفا نہ ہو۔ اللہ میاں صاحب کو مزید صحت دے کہ وہ ہماری صحت کا خیال رکھیں اور آفتاب کی کرنیں ہم تک پہنچتی رہیں۔ لیکن سورج گرہن کا جو کردار چند وزراء کے پاس ہے کاش اس جانب بھی میاں صاحب کا خیال جائے۔ ترقی ٹیم ورک کا نام ہے اور قیادت ترقی کو شکل و صورت فراہم کرتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیم کے عاقبت نااندیشوں اور ذہنی بیماری میں مبتلا کھلاڑیوں سے جان چھڑائی جائے۔ اب نہیں تو کب؟ ورنہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ: ’’ہم کو آیا خیال جینے کا! زندگی جب گزار بیٹھے ہیں‘‘۔ بہرحال وزیراعظم نیشنل ہیلتھ پروگرام 12 جنوری 2017ء کو نارووال تک پہنچ گیا۔ ایک طرف یہ صحت کا پروگرام ہے جو اچھا ہے۔ دوسری طرف مریم نواز شریف عملی سیاسی لانچنگ براستہ مسیحائی ہے جو سیاسی اقدام ہے۔ بہرصورت وفاقی احسن اقبال بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کے شہر میں میاں صاحب نے 1 لاکھ 60 ہزار خاندانوں کو ہیلتھ کارڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔ نارووال سے قبل یہ پروگرام تقریباً 15 اضلاع میں شروع ہو چکا ہے۔ اس ہیلتھ کارڈ کے ذریعے موذی ترین امراض کا علاج پاکستان کے مختلف علاقوں اور ہسپتالوں میں کرایا جائے گا۔ اگر یہ سیاسی شارٹ کٹ نہ بنا، بیوروکریسی نے تساہل پسندی سے کام نہ لیا اور وزراء نے اپنا کردار ادا کیا تو میاں صاحب کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ پروگرام کے مطابق اس کا دائرہ کار پنجاب، بلوچستان اور فاٹا تک وسیع ہے۔ سندھ اور کے پی کے کی حکومتیں ازخود کرنا چاہتی ہیں۔ دیکھا جائے تو 18ویں ترمیم کے بعد مرکز کے پاس صحت اور تعلیم برائے نام رہ جاتے ہیں شاید اسی لئے اس کا نام ’’وزیراعظم ہیلتھ پروگرام‘‘ رکھا گیا ہے۔ عمران خان کا بھلا ہو کہ اُس نے رفاہی جدوجہد اور عوامی تعاون کے بعد لاہور کے بعد پشاور اور اب کراچی میں شوکت خانم میموریل ہسپتال برائے کینسر شروع کر دیا۔ پشاور اور کراچی کے عمران کام نے حکومت کو بھی تیز تر کر دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں کے یہ کام اپنی جگہ سیاسی نہ بنیں فقط رفاہی رہیں تو ملک و ملت کا فائدہ ہے۔ عمران خان سے لاکھ سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن شوکت خانم پراجیکٹ کو بھی خراجِ تحسین دیئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ پھر میاں نواز شریف کا اقدام بھی قابلِ رشک ہے۔ اگر سارے قائدین غور کریں۔ اس پروگرام کے تحت سیکنڈری کیئر کی مد میں 50 ہزار اور پریارٹی کیئر میں اڑھائی لاکھ تک رقم مختص کی گئی ہے۔ قلب، گردے، جگر کے موذی امراض کے علاوہ ہیپاٹائٹس اور ٹی بی کے علاج کے لئے بھی حکومت اور سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کا اشتراک مالی خدمات دے گا۔ پہلے مرحلے میں 15 اضلاع اور دوسرے مرحلے میں 23 اضلاع میں یہ سروسز شروع ہوں گی۔
سیانے کہتے ہیں کبھی کسی چیز سے کیڑے نہیں بھی نکالنے چاہئیں۔ سو ہم کیڑے نہیں نکال رہے۔ ہم وزیراعظم میاں نواز شریف کے اس ذاتی برین چائلڈ پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ مریم نواز شریف کی اس حوالے سے کاوشوں کو قابلِ تعریف گردانتے ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری، سینٹ اور قومی اسمبلی کی کمیٹیوں کے ممبران اگر دلچسپی لیں تو وزارت صحت کا ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) کبھی کرپٹ ترین ادارے کا ’’خطاب‘‘ سینٹ ہی کمیٹی سے نہ پاتا اور وزارت صحت کا ایک اور نااہل ادارہ فارمیسی کونسل آف پاکستان کسی موقع پرست کی بطور قائم مقام سیکرٹری آماجگاہ نہ بنتا۔ پی ایم ڈی سی (PMDC) کا قبلہ بھی کب کا درست ہو گیا ہوتا۔ اگر ممکن ہو تو میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف وزارت صحت کے ان ذیلی اداروں کو بھی پرائم منسٹر نیشنل ہیلتھ پروگرام پر قابل تعریف بنا دیں تاکہ گلشن کا کاروبار چلے۔ محترمہ سائرہ افضل تارڑ اگر متذکرہ ذیلی داروں کو ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو جعلی ادویہ اور ادویہ کے اس قدر نرخ کبھی نہ بڑھتے۔ آخر یہ کام کس کا ہے؟ کیا محترمہ منسٹر صاحبہ، پارلیمانی سیکرٹری یا کمیٹیوں کے چیئرپرسنز نے دیکھا؟
کرم فرمائوں کی نذر دو مثالیں پیش کر دیں کہ، کارکردگی اور دیانتداری کسے کہتے ہیں۔ پہلی مثال امریکہ کے نائب صدر جوبائیڈن نے اپنی آخری تقریر میں ایک بات آبدیدہ ہو کر بتائی کہ اس کا بیٹا کینسر میں مبتلا تھا، علاج مہنگا تھا، وہ گھر فروخت کرنے پر مجبور ہو گیا تو صدر اوباما نے روک دیا اور ادھار رقم پاس سے دی۔ اور بیٹا بھی کون؟ جی! اٹارنی جنرل! نائب صدر امریکہ چاہتا تو کچھ بھی کر سکتا تھا لیکن فرض شناسی اور دیانتداری کی سرحدیں پار نہ کر سکا۔ دوسری مثال آسٹریلوی وزیر صحت کی ہے۔ وزیر سوسن لی نے میلبورن اور کینبرا شہروں کے درمیان کمرشل فلائٹ کے بجائے چارٹر فلائٹ کیا استعمال کر لی کہ آسٹریلیا میں شور مچ گیا کہ لوگوں کے ٹیکس پر شب خون مارا گیا ہے۔ اتنی سی بات پر دو تین دن قبل سوسن لی نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ ہم کسی سے استعفیٰ نہیں مانتے بس معمولی سا احساس مانگتے ہیں کہ تمام سرکاری ہسپتال بنے ہی عام آدمی کے مفت علاج کے لئے ہیں۔ بی ایچ یو، رورل ہیلتھ یونٹ، تحصیل ہسپتال، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال غریبوں کے مفت علاج ہی کے لئے ہیں۔ وہاں کے ڈاکٹرز اور پروفیسرز وہاں وہ توجہ نہیں دیتے جو پرائیویٹ ہسپتالوں اور پرائیویٹ ٹائم میں دیتے ہیں۔ مشینری خراب رہتی ہے آخر کیوں؟ کیا سرکاری خزانے سے ایم ایس، پرنسپلز اور پروفیسر تنخواہ نہیں لیتے؟ شکریہ غریبوں کو کارڈز تھمانے کا لیکن موجودہ سسٹم ختم کر کے ایک نیا سسٹم تھما دیا گیا۔ اچھا ہے لیکن اسے بحال رکھا جا سکے گا؟ نومولود بچوں کی اغواکاری اور نوزائیدہ بچوں کو بے اولاد جوڑوں کی بلیک مارکیٹ میں فروخت ہونے سے کب بچایا جا سکے گا؟ پرویز الٰہی کارڈیالوجی ہسپتالوں کو سیاسی ضد کی بھینٹ چڑھا کر دیر کیوں کی گئی؟ کیا اُن پر قومی سرمایہ نہیں لگا تھا۔ فرش پر مر جانے والی حاملہ عورتوں کو بیڈ کب ملیں گے؟ ملک کے طول و عرض میں ہسپتالوں میں MRI اور ہیپاٹائٹس کے جینو ٹائپ، کوالی ٹیٹو اور کوانٹی ٹیٹو ٹیسٹ کب ہوا کریں گے؟
المختصر، وزیراعظم کا یہ پروگرام غریبوں کے مفاد میں ہے اگر اس سسٹم کو چلانے والے بھی مفاد میں رہے۔ اگر پنجاب اور مرکز میں اس کا حشرنشر پیلی ٹیکسی، دانش سکولوں، لیپ ٹاپس، سستی روٹی اور موجودہ ہسپتالوں کے نظاموں کی طرح نہ کر دیا گیا۔ میاں نواز شریف سے میاں شہباز شریف تک اور پنجاب کے صوبائی وزراء خواجہ سلمان رفیق سے عمران نذیر تک محنت کر رہے ہیں۔ مرکز کے دیگر ذمہ داران اور دوسرے صوبوں والے بھی محنت کریں کہ غربت اور صحت کو مسیحائی ملنے کا کوئی دریچہ تو کھلے۔ ہمیں ہے حکم اذاں سو ہم چپ کی بولی سے تھکنے کے قائل نہیں، تمیز سے جو سچ بولنے کی کوشش کی ہے، میٹھے جھوٹ کو بالائے طاق رکھا ہے اور عرض کی ہے کہ وزیراعظم صاحب عاقبت نااندیشوں، مطلب پرستوں، موقع پرست سیاستدانوں اور تساہل پسندوں سے یہ پروگرام بچا لیں گے تو تاریخ اور تحریک کا سنہری باب بن جائیں گے ورنہ…!!!