آپریشن ردالفسادکو متنازع کیوں بنایا جا رہا ہے
آپریشن ردالفسادکو متنازع کیوں بنایا جا رہا ہے
عالیہ جمشید خاکوانی
اب تو کوئی بہانہ بھی نہیں رہا کہ اختیارات ہمیں نہیں ملے جو یہ بات کر کے اپنے آپ کو بے قصور اور معاملے کو رفع دفع کرنا چاہتے ہیں اور عوام کو اذیت دینا چاہتے ہیں جبکہ عوام چاہتے ہیں ان کا مسلہ جلد از جلد حل کیا جائے وزارت ڈاخلہ نے بلاک یا انڈر ویری فیکیشن شناختی کارڈز کو کلیئر کرنے کا اختیار وفاقی اور صوبائی کابینہ کے ممبران کے حوالے کر دیئے اب ایم این اے ،ایم پی اے اپنے شہر کے کسی بھی علاقے کے لوگوں کا جن کا شناختی کارڈ بلاک یا کسی تحقیقاتی مراحل میں ہے ان کی ایک لسٹ مرتب کرے گا جس میں شناختی کارڈ نمبر یا نادرہ ٹوکن نمبر کافی ہو گا اور نادرہ کے ڈی جی کو دے گا جس کے بعد ایم این اے یا ایم پی اے اپنا انگوٹھا machine Biometricپر لگائے گا اور لسٹ کے سارے افراد کو 72گھنٹوں میں شناختی کارڈ جاری ہو گا یہ لسٹ ہر روز بھی بنائی جا سکتی ہے اور اس میں تعداد کی بھی پابندی نہیں اس میں کسی قسم کی 1978. 1973پروف بھی درکار نہیں ہونگے بس اتنا کافی ہے کہ ایم این اے،یا ایم پی اے آپ کو پہچانے کہ وہ اس کے علاقے کا ہے اور اس میں کسی کے لیئے خطرے کی بات بھی نہیں کیونکہ واحد شرط یہ رکھی گئی ہے کہ ایم این اے یا ایم پی اے اس کو شناخت کرے چاہے وہ کوئی بھی ہو اور وہ لوگ جو اب تک شناختی کارڈ نہیں بنوا سکے ہیں وہ بھی نادرہ سے فارم لے کر اپنے علاقے کے ایم این اے ،ایم پی اے سے تصدیق کروا لے تو ان کے بھی شناختی کارڈ بن جائیں گے اس سے زیادہ تر افراد جن کا شناختی کارڈ بلاک ہے امید ہے منتخب ارکان ان کا یہ مسلہ جلد از جلد حل کر دیں گے
یہ ہے وہ سارا پروسیجر جس کو اتنا بڑا فساد بنا دیا گیا ہے مجھے اس سوال کا جواب کوئی دے کہ اگر تطہیر کا عمل نہ ہوا تو دہشت گردی کیسے ختم ہو گی جبکہ سیاستدان معاملے کو الجھانے میں لگے ہیں تو میڈیا آگ لگانے میں سوشل میڈیا پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تصویریں لگا کر پھیلایا جا رہا ہے کہ پنجاب پولیس بزرگ پشتونوں پر ظلم کر رہی ہے پنجاب پولیس بدنام سہی لیکن رد الفساد کا کوئی تو طریقہ واضح کرنا ہو گا نا آخر کس طرح تعین ہو گا کہ یہ سہولت کار ہے ؟ اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ پہلے سے بنے منصوبے کے مطابق تیلی لگائی جائے پہلے تو پنجاب میں اپریشن کی راہ روکی گئی اور اب مجبوراً کرنا پڑا ہے تو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اپریشن ’’رد الفساد ‘‘ کو بذات خود ایک فساد قرار دے دیا ہے تحریک انصاف کے علی احمد نے ایک پروگرام میں خورشید شاہ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اپریشن چاروں صوبوں کی پولیس ،پاک فوج اور تمام سیکورٹی ادارے مل کر کر رہے ہیں اس کو صرف پنجاب پولیس کا کردار قرار دینا کہاں تک درست ہے اس کا مطلب ہے صرف سیاست کھیلی جا رہی ہے پہلے تو اپریشن میں خطرناک حد تک تاخیر کی گئی اور اپنی مرضی کے مطابق اجازت دی گئی اور پھر اس کے ساتھ ہی نفرت انگیز مہم بھی شروع کر دی گئی ان کا کہنا تھا کہ لاہور دھماکے میں شہید ہونے والے ایس ایس پی چیف ٹریفیک ریٹائر کیپٹن مبین کی چھوٹی بیٹی روزانہ پولیس لائن فون کر کے پوچھتی ہے میرے بابا کب آئیں گے؟ آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی شہادتیں ہم بھولے نہیں ملک کا ہر زرہ خون آلود ہے ایسے میں اپریشن کو متنازع بنانے والے ملک کے خیر خواہ نہیں ۔اپریشن رد الفساد میں مارے یا پکڑے جانے والے مشکوک افراد ہیں اور نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے اکثر افغان گروہ ملوث ملتے ہیں اور ان افغانوں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہوتا ہے ہم نے اپنی سادگی یا بے وقوفی کے تحت افغانوں کو بھائیوں کا درجہ دیا اپنی سر زمین پر جگہ دی یہ ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکے ہیں کاروبار پر قابض ہو چکے ہیں افغان سخت جان اور سخت کوش ہوتے ہیں لہذا کسی بھی قسم کا کام یا کاروبار کرنے میں انہیں گھبراہٹ نہیں ہوتی ،اس لیے سیاستدان ان پر انحصار کرتے ہیں بلال گنج اور اس کے اطراف میں افغان بستیاں آباد ہیں جن سے ہمارے سیاستدان قبضہ مافیا کے طور پر کام لیتے ہیں ان افغانوں سے جو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اپنا ووٹ بنک بڑھایا جاتا ہے یہ سہولت کار ہیں جانے انجانے میں بھارت کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بغیر شناختی کارڈ چیک کیے پشتون اور افغان کو الگ کیسے کیا جا سکتا ہے ؟اور دہشت گردی کا قلع قمع کیسے کیا جائے ؟حال ہی میں فیک میرج کا ایک اسکینڈل سامنے ے آیا ہے جس میں افغان ہی ملوث ہیں یہ لوگ غریب لڑکیوں کے رشتے حاصل کرتے ہیں چونکہ والدین ویسے ہی آجکل بیٹیوں کے رشتوں کے لیے پریشان ہیں لہذا وہ بغیر چھان بین کیے لڑکی کی شادی کر دیتے ہیں اور یہ لوگ آگے جا کر لڑکی بیچ دیتے ہیں یہ کام دو سال سے ہو رہا ہے اب تک سینکڑوں لڑکیاں فروخت ہو چکی ہیں قانون کی نرمی اور سیاست کی مجرمانہ سرپرستی سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے کیا ہم صرف کنارے پر بیٹھ کر ڈوبنے کا تماشہ دیکھتے رہیں گے حکومت کو چاہیے کہ سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہو کر پوری قوت سے اس اپریشن کو کامیاب بنائے ورنہ وہ ہو گا جس کا تصور ہی لرزا دینے والا ہے