کیا اسلام میں صادق اور امین کی کوئی اہمیت نہیں؟
عالیہ جمشید خاکوانی
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شائد اس سے زیادہ اہمیت کسی چیز کی نہیں جب حضورْ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی تو اپنے بستر پر حضرت علیؓ کو اس لیے سلا کر آئے کہ وہ صبح ہوتے ہی لوگوں کی امانتیں لوٹا کر آئیں جو لوگوں نے ان کے صادق اور امین ہونے کی وجہ سے ان کے پاس رکھوائی تھیں اگر اس چیز کی کوئی اہمیت نہ ہوتی تو انہیں اس سے کوئی فرق نہ پڑتا لوگوں کی امانتیں رکھی رہیں یا لوٹائی جائیں ،لیکن آج موجودہ حکومت کے ایک وزیر فرماتے ہیں حکمران کا صادق اور امین ہونا ضروری نہیں حالانکہ یہ آئین پاکستان کی ایک شق میں بھی موجود ہے شائد یہی وجہ ہے کہ ہم تنزلی کی طرف مسلسل گامزن ہیں جس طرح دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے اسی طرح حکومت بھی چند افراد کے گھر کی لونڈی ہے وہ جسے چاہیں اربوں کھربوں سے نواز دیں اور جس کا چاہیں منہ کا نوالہ بھی چھین لیں اس مملکت خدا داد میں جہاں لاکھوں بے روزگار ہاتھوں میں ڈگریاں لیے معمولی نوکریوں کے لیے زلیل و خوار ہو رہے ہیں وہاں کچھ لوگوں کو ریٹائر منٹ کے بعد بھی گرانقدر سہولتوں سے نوازہ جاتا ہے جب کہ ان کا پچھلا ریکارڈ دیکھا جائے تو سوائے حکومت وقت کی وفاداری کے ان کے کریڈٹ پہ کوئی کار نامہ نہیں ہوتا بلکہ جرائم کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے کیا عوام کچھ پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ ان کے ٹیکس کے پیسوں سے کن کن کی جھولیاں بھری جا رہی ہیں؟حال ہی میں جاری کردہ پنجاب حکومت کے ایک حکم نامہ نمبر2 (B &a )so 1 2017 کے تحت چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کو تنخواہ ،الاؤنسز اور دوسری تمام تر مرعات کے علاوہ اب انہیں بالترتیب چار لاکھ اور پونے چار لاکھ ماہانہ الاؤنس دینے کا حکم دیا ہے اس نوازش نامے کے تحت سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکرٹری کو بھی تین لاکھ روپے ماہانہ سپیشل الاؤنس ملے گا ،بلکہ ریٹائر منٹ کے بعد بھی ان کو ایک ڈرئیوراور اردلی کی خدمات حاصل رہیں گی اور کسی حد تک گیس،بجلی،پیٹرول کی سہولت بھی مفت ملتی رہے گی ہمیں اعتراض اس بات پر ہے کہ یہ وہی آئی جی صاحب ہیں جو چھوٹو گینگ کے ترلے کرتے پائے گئے جنھوں نے اپنی ناقص حکمت عملی اور کم ہمتی سے کئی غریب پولیس کے جوانوں کی جان گنوائی ان صاحب کے متعلق انٹیلی جنس ادارے نے تفصیلی رپورٹ اعلی حکام کو بجھوائی ہے باخبر ذرائع کے مطابق
دسویں کامن سے تعلق رکھنے والے آئی جی پنجاب سکھیرا صاحب جب سیالکوٹ میں ایس ایس پی تعینات تھے تو انہوں نے پولیس کا سرکاری اسلحہ سیالکوٹ کے ایک اسلحہ ڈیلر سکندر بندوق والا کے پاس بیچ دیا اور اسی اسلحہ ڈیلر سے ناقص اسلحہ خرید کر پولیس کے مال خانے میں جمع کرا دیا جس کے بعد ایک چھاپے میں پولیس نے جب مذکورہ اسلحہ ڈیلر سے اسلحہ پکڑا تو اس پر سرکاری نمبر لگے تھے اس پر عدالت میں مذکورہ اسلحہ ڈیلر نے مشتاق سکھیرا کا پردہ فاش کر دیا جس پر اس وقت کی پنجاب حکومت نے مشتاق سکھیرا کو او ایس ڈی بنا کر انکوائری شروع کروا د ی ذرائع کے مطابق مشتاق سکھیرا نے پہلی شادی پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق وزیر خالد کھرل کی بھانجی سے کی جو نفسیات کی ڈاکٹر تھیں جن سے ان کا بیٹا بھی ہے جس کے بعد مذکورہ ڈاکٹر نے عدالت میں بیان دیا کہ میرا شوہر ذہنی مریض ہے اور عدالت میں علیحدگی کا مطالبہ کیا پہلی بیوی سے طلاق کے بعد یہ صاحب جب بہاول پور میں ڈی آئی جی تعینات تھے دوسری شادی ایک خاتون اے ایس آئی سے کی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی اس کے بعد تیسری شادی ایک ریٹائر بریگیڈیر کی صاحبزادی سے ہوئی جس کے نام پر سکھیرا صاحب نے دبئی میں اربوں روپے مالیت کے اثاثے بنا رکھے ہیں موصوف اپنے دوستوں میں ’’ٹیلو‘‘ کے نام سے مشہور تھے جس مطلب جہان کا بیکار پرزہ ہوتا ہے ان کا ایک بھائی جس کا نام عارف ہے مویشیوں کی چوری میں ملوث تھا جو بھائی کی پولیس میں بھرتی کے بعد سے اب تک پنجاب کا مشہور قبضہ مافیا بن چکا ہے اور اپنے بھائی کے لیے بطور ٹاؤٹ کام کرتا ہے قتل کے کیسوں میں کھلم کھلا منہ مانگی رقم لے کر جرائم پیشہ افراد کو رہا کرانے میں کردار ادا کرتا ہے مشتاق سکھیرا نے بہاول پور اور جھنگ میں بطور ڈی آئی جی تعیناتی کے دوران لشکرجھنگوی کے ملک اسحاق کو اپنا رائٹ ہینڈ بنا رکھا تھا اس کے ذریعے بہت سارے جعلی پولیس مقابلے کرائے ملک اسحاق ڈی آئی جی ہاؤس میں بھی رہتا تھا ملک اسحاق کے کہنے پر سکھیرا نے لشکر جھنگوی کے رہنما اور سابق ایم این اے اعظم طارق کا قتل کروایا کوئٹہ میں تعیناتی کے دوران ان صاحب نے ریکارڈ شیعہ لوگوں کا قتل کرایا جن کےْ قصے سن کر وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں راتوں رات آئی جی پنجاب کا چارج لینے اور دوسرے ہی دن طاہرالقادری کے جلسے کو ناکام بنانے کا آرڈر دیا جس پر مشتاق سکھیرا نے کوئٹہ سے چارج چھوڑ کر پنجاب میں چارج لیتے ہی طاہرالقادری کے جلسے میں فائرنگ کا حکم دے دیا جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے کیونکہ اس وقت مشتاق سکھیرا سے پہلے تعینات آئی جی پی خان بیگ نے وزیر اعلی کے حکم پر جلسے میں گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا جس پر مشتاق سکھیرا کی تعیناتی فوری طور پر عمل میں لائی گئی انہی خدمات کے عوض مشتاق سکھیرا کو نواز حکومت کی جانب سے مرتے دم تک سہولیات سے نوازنے کا حکم جاری کیا گیا ہے جو اب تک کسی سرکاری افسر کو نہیں دی گئیں مشتاق سکھیرا کے رویے کی وجہ سے بیشتر پولیس افسران اپنے تبادلے دوسرے صوبوں ،ایف آئی اے ،موٹر وے اور آئی بی میں کروا کر کام کر رہے ہیں ابھی کچھ ہی دن پہلے کانسٹیبل دین محمد کو محض اپنی دکھ بھری داستان سنانے پر کہ اسے سات ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اس کے بچے بھوک سے بلکتے ہیں اس کو قرض دینے والے اب بھیک مانگنے کا مشورہ دیتے ہیں اس غریب کو اس کے بچوں کے سامنے تشدد کا نشانہ بنا کر جیل میں ڈال دیا گیا لیکن نہ حکومت کو خوف خدا آیا نہ کسی نے اس کی تلافی کرنے کی کوشش کی لیکن اس طرح کے وفادار اعلی افسران ہر وقت حکومت کی گڈ بک میں ہوتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ایسے افسران عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر تا حیات مراعات کے مستحق ہیں اور کیا ایسی حکومت عوامی خدمت کا دعوی کر سکتی ہے ؟