بھنور میں پھنسی حکومتی کشتی
تحریر: عابد ایوب اعوان
ذرائع کیمطابق پانامہ کیس کا فیصلہ وسط اپریل تک متوقع ہے۔ فیصلہ حکومت کی خواہشات کے بر عکس آسکتا ہے۔ قریبی مخبر خبر کچھ یوں دے رہے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف پچھلے آٹھ دس دنوں سے کافی پریشانی کے عالم میں مکمل خاموش ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے خفا خفا سے موڈ میں دکھائی دیتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ انکے خلاف آئیگا اور وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ فوج اپنا کردار ادا کر کے سپریم کورٹ کو ایک واضح پیغام دے مگر فوج اس معاملے میں کوئی کردار ادا کرنے کیلیے تیار نہیں ہے اور فوج چاہتی ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ سچ پر مبنی ہو کر قوم کے سامنے آئے۔ اسی لیئے آئی ایس پی آر کیطرف سے بھی ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فوج بھی ہر پاکستانی کی طرح پاناما کیس کے فیصلے کی منتظر ہے۔
وزیر اعظم پریشان اور مکمل خاموش ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ یہ اس بات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ جے یو آئی ایف کہ صد سالہ تقریب میں وزیر اعظم دکھائی نہیں دیئے حالانکہ مولانا فضل الرحمان نے جسطرح سے پانامہ کیس میں وزیر اعظم کا ساتھ دیا اور وکالت کی تو وزیر اعظم نواز شریف کا جے یو آئی ایف کی اس صد سالہ تقریب میں شمولیت کرنا بنتا تھا جس میں دنیا بھر کے 52 ممالک سے وفود نے شرکت کی اور امام کعبہ بھی خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ وزیر اعظم تو امام کعبہ کے پارلیمنٹ کے دورے کے موقعہ پر بھی دکھائی نہیں دیئے۔ خیر مولانا فضل الرحمان تو ابھی اس وقت وزیر اعظم کیلئے اتنے اہم نہیں ہیں کیونکہ وزیر اعظم خود آجکل جس کیفیت میں ہیں اس سے سرخرو ہو کر نکلنے کے لیئے انہیں اور تو کچھ سجھائی دے نہیں رہا بس ایک ملاقات کے ہی شدید منتظر دکھائی دیتے ہیں جو شائد کچھ کام کر دکھائے۔ وزیر اعظم کی اس خاموشی کو ایک ملاقات ہی توڑ سکتی ہے اور ایک ذرائع کے مطابق عنقریب ایک ایسی ملاقات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جسکے لیئے کافی سر توڑ کوشیسیں جاری و ساری ہیں کہ یہ خفیہ ملاقات کرا دی جائے اور شاید یہ ملاقات ہی وزیر اعظم کی خاموش پریشانی کا اثر زائل کر کے کسی راحت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکے کیونکہ یہ ملاقات اس شخصیت سے ہونی ہے جو سیاسی چالیں چلنے میں کافی ماہر سمجھی جاتی ہے۔ یہ شخصیت جناب آصف زرداری ہیں جو اس ملاقات میں کچھ لو کچھ دو کے فارمولے کی ڈیل کرنا چاہتی ہے تا کہ مک مکا والے ماضی کے کامیاب تجربے کے بعد اب کے بار بھی مک مکا کر لیا جائے تو شاید اسطرح دونوں کی کچھ جان بخشی ہو جائے۔ کیونکہ آصف زرداری خود بھی ان دنوں مشکلات میں پھنسے دکھائی دے رہے ہیں۔ آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بول کر جسطرح ملک سے باہر گئے تھے اور انکی وطن واپسی پر اسٹیبلشمنٹ کافی سیخ پا دکھائی دی جس پر آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ سے اپنے تعلقات ہموار کرنیکی کوشیشیں کی جو بے سود ثابت ہوئیں اور اب آصف زرداری بھی یہ سمجھ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے تو کچھ نہیں ملنے والا اور الٹا انکے 3 قریبی ساتھی غائب ہو چکے ہیں جس پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو 24 گھنٹوں میں ان قریبی ساتھیوں کو عدالت میں پیش کرنے کا الٹی میٹم دینا پڑا اور مزید یہ بھی کہنا پڑا کہ انکو بھی غائب کروا دیا جائے کیونکہ وہ بھی آصف زرداری کے ساتھی ہیں۔ خیر بات دور نکلے گی تو پھر بہت دور تلک جائیگی لہذا اس بات کو یہیں چھوڑ کر واپس آتے ہیں مک مکا پارٹی کی عنقریب ہونے والی ملاقات کی طرف۔ وزیر اعظم نواز شریف اور آصف زرداری کی اس اہم ملاقات کی اس وقت دونوں کو ہی ضرورت ہے اس ملاقات کے نتیجے میں کچھ خاص حاصل ہوتا نظر تو نہیں آرہا مگر پھر بھی وزیر اعظم جس پریشانی اور اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہیں تو انکی کچھ راحت کیلئے شائد مفید ثابت ہو سکے۔ ورنہ پانامہ کیس کے متوقع فیصلے کی صورت میں اس وقت حکومتی کشتی ایک ایسے بھنور میں پھنس چکی ہے جس سے ایسا لگ رہا ہے کہ حکومتی ایوان ضرور کسی گہری چھائی ہوئی دھند میں گھرا ہوا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دھند کب تک چھٹ جانے کا امکان ہے یا پھر عنقریب کہیں یہ دھند پوری حکومت کو ہی اپنی لپیٹ میں نہ لے لے کیونکہ پانامہ کیس کا فیصلہ تقریبا لکھا جا چکا ہے اور وسط اپریل تک فیصلہ سنایا جانے کا قوی امکان ہے جو کہ حکومتی خواہشات کے ارمانوں پر پانی بہا سکتا ہے۔ باقی بادشاہت تو صرف اللہ کی ذات ہی کی ہے۔ آخر میں محترمہ حیا غزل صاحبہ کا ایک خوبصورت شعر
ذہن و دل سے جو نکلی تو زباں تک پہنچی
بات سے بات جو نکلی تو کہاں تک پہنچی