لبرل سوچ یا مذہبی منافرت
تحریر : حیا غزل
پاکستان میں اس وقت توہین مذہب اور توہین رسالت ایک نازک مسلہ بن چکا ہے.توہین مذہب کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں باقاعدہ طور پر آئین کا حصہ بنایا گیا.جس میں مزید اسلامی دفعات کا اضافہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کیا گیا.اس سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو ایک عملی اسلامی ریاست بنانے کے لیئے باقاعدہ طور پر قانون سازی تو بہر حال کی گئ.لیکن عملی طور پر اس پر عمل درآمد اسطرح نہیں ہوا جسطرح ہونا چاہیئے.اگر ریاست صحیح معنوں میں اپنی ذمہ داری پوری کرتی تو عوامی حلقوں میں شدید غم و غصہ نہیں پایا جاتا اور نہ ہی وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر ازخود اسے اپنے طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کرتے.سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز نے اپنی ایک رپورٹ میں اس سلسلے میں قتل ہونے والے افراد کی ایک رپورٹ بھی جاری کی ہے جسکے اعدادو شمار تشویش کا باعث ہیں.
مذہب اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جو دوسرے مذاہب اور ان سے جڑی اقوام کے جذبات کا بھی احترام کرتا ہے اور انکے تمام اقلیتی حقوق دینے کا وعدہ کرتا ہے نہ صرف اسکے بلکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اسکی عملا تفسیر بھی موجود ہے.اور بحیثیت مسلمان ہم بھی پاکستان میں موجود دوسری اقلیتوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مذہبی جذبات کا احترام کریں.
اس مذہبی منافرت کو کچھ لوگ سوشل میڈیا اور الیکڑانک میڈیا بشمول پرنٹ میڈیا کا استعمال کرکے اشتعال انگیزی کو مزید ہوا دے رہے ہیں جسکا اسلام آباد ہائ کورٹ سے جسٹس شوکت صدیقی کی طرف سے فوری نوٹس لیا گیا.اور وزارت داخلہ سے اس مسلے کو حل کرنے کے لیئے باقاعدہ قانون مرتب کرنے اور اس پر عمل درآمد کی ہدایت کی نیز ایسے تمام سوشل ایپز کی تعاون نہ کرنے کی صورت میں بند کرنے کی ہدایت کی جو گستاخانہ مواد کی اشاعت پر کسی روک ٹوک کے قائل نہیں.انھوں نے کہا ایسی گستاخی کے مرتکب افراد پر باقاعدہ مقدمہ چلاکے سزائیں دیں جائیں گیں اور حکومت کی طرف سے کسی قسم کی لاپرواہی کے نتیجےمیں عدالت ریفرنڈم کا حق بھی رکھتی ہے اور آرٹیکل 19کی مہم سوشل میڈیا پر چلانے کا حکم دے سکتی ہے.
اس معاملے کو بعد ازاں پاکستانی سفارت خانے نے واشنگٹن میں بھی 27ملکوں کے سفیروں کے سامنے ڈسکس کیا اور بین الاقوامی سطح پر اس معاملے کو اٹھانے پر اتفاق رائے بھی ہوا جسکے نتیجے میں عدالت نے قدرے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن ممالک میں یہ سب ہورہا ہے ان کے سفیروں کو بلانا اور ا نکے سامنے یہ معاملات رکھنا کیوں ضروری نہیں سمجھا گیا.
وزارت داخلہ کے سیکرٹری نے کہا کہ حکومت اس معاملے میں اپنی پیش رفت دکھارہی ہے اور گذشتہ دنوں میں بھی اس ضمن میں کچھ گرفتاریاں عمل میں لائیں گئیں.
پاکستان مین ان اقدامات کو غیر ملکی سطح پر لبرل ممالک اور لبرل سوچ کی دعوے دار صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے شدید احتجاج کا نشانہ بھی بنایا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ شناختی عمل غیریقینی ہے اور کوئ ٹھوس تحقیقات اس ضمن میں نہیں کیں جارہیں کہ آیا جن افراد سے یہ گستاخانہ پیجز منسوب کیئے جارہے ہیں وہ انہی کے ہیں یا کسی اور کے. پھر عدالتی کاروائ کی شفافیت پر بھی شکوک کاـاظہار کرکے یہ کہا گیا کہ پاکستان ایک شدت پسند ریاست ہے جو ملاازم کو فروغ دے رہی ہے.جہاں اس ایشو پر بات نہیں ہوسکتی کہ توہین آمیز مواد کے زمرے میں کونسا مواد آتا ہے آیا جدت پسندی اور نئ سوچ کی بات کرنا بھی توہین ہے خیر انکے تمام تر بیانات یقیننا قلم زد نہیں کیئے جاسکتے کیونکہ میں خود صحافتی ذمے داریوں کے غلط استعمال اور قلم سے اشتعال انگیز ی کو ہوا دینے کے خلاف ہوں.
صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ جب غیر مسلم ممالک کی طرف سے پوری دنیا میں مسلمانوں پر دہشت گرد ہونے کا خود ساختہ ٹھپا لگا کر انکے ساتھ انتہائ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے جب انکی جانیں محض اسلیئے بہیمانہ طریقے سے قبض کرلیں جاتیں ہیں کہ وہ مسلمان کی حیثیت سے ایک آزاد زندگی جینا چاہتے ہیں تب آپکی لبرل سوچ کو کیا ہوجاتا ہے آپکے ممالک میں ایک جانور تک کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے تو کیا ایک انسان کو اسکے بنیادی انسانی حقوق بھی نہیں دیئے جاسکتے یہی نہیں بلکہ تاریخ گواہ ہے ہمیشہ دوسرے مذاہب کی طرف سے مختلف النوع اقسام کی شورشیں برپا کی گئیں اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کو نقصان پہنچانے کے لیئے
کیاجہاں انکے بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کی قلعی کھل جاتی ہے.کیا اسکا مداوا ممکن ہے اس غم و غصے کو ہوا دینے کاکام تو آپ بھی کررہے ہیں تو دہشت گرد کون ہوا ہم یا آپ؟
میں مانتی ہوں 13اپریل بروز جمعرات پیش آنے والا واقعہ غلط تھا. مشعل کو قتل کرنے والے بھی اسی کی طرح یونیورسٹی کے طلباء تھے جنھیں ایک مشتعل ہجوم کا نام دیا جارہا ہے جو غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مبینہ گستاخانہ گفتگو کے نتیجے میں پیش آیا.جسکے نتیجے میں ایک طالبعلم ہلاک اور دو شدید زخمی بھی ہوگئے جو یقینا ناقابل تلافی نقصان ہے اور ہمارے سیکورٹی اور حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان
اول تو تعلیمی درسگاہوں میں مذہبی منافرت پر مبنی گفتگو پر ہی پابندی عائد ہونی چاہیئے یا اگر کوئ بحث کی جارہی ہے تو وہ ٹیبل ٹاک پر اور علمی و عقلی دلائل پر مبنی ہو.مفاہمت کی فضا میں مناظرے یا مکالمے کی صحت مندانہ شکل میں ہو جسے اساتذہ مانیٹر کرسکیں.
جسکے دوررس اور صحت مندانہ نتائج نکل سکیں.وگر نہ تعلیمی درسگاہ کا مقصد اور تربیتی نقطہء نگاہ تو ویسے ہی فوت ہوجاتا ہے اسکی حیثیت ایک گارے سیمنٹ سے بنی عمارت سے زیادہ کچھ نہیں جب تک کہ اسکے تقدس کا خیال نہ رکھا جائے.اور اگر اساتذہ کو یہ سب کنٹرول کرنے میں دشواری ہو تو انکی سہولت کے لیئے جگہ جگہ سی سی کیمرے نصب کیئے جائیں.اور درسگاہوں میں اخوت و محبت کی فضا کو ہموار کیا جائے.اور اگر پھر بھی کوئ ایسا واقعہ ظہور پذیر ہو تو تمام معاملات کی شفافانہ تحقیقات ہونی چاہیئے.اور اصل ذمے داران کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہیئے.
میں یہ بھی مانتی ہوں کہ ماضی سے لے کے اب تک رسم و رواج اور مذہب کی آڑ لے کر بہت سے ناعاقبت اندیش لوگوں نے اپنے ذاتی مفادات کی بھی سیاست کی ہے جسکی وجہ ہماری ملکی سیاست کا کمزور اسٹرکچر ہے جسے اپنی اولین قیادت بھی ٹھیک سے میسر نہیں آسکی یا اندرونی سازشوں کا شکار ہوگئ.جسکی وجہ سے آج تک الزامات کی اور ذاتی مفادات کی سیاست کی جارہی ہے.
میں یہ بھی مانتی ہوں کہ عوام کو ازخود ایسا کوئ جارحانہ فیصلہ نہیں لینا چاہیئے جس سے وہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں اور انسانی جانوں کا ضیاع ہو.اسکے لیئے ہمارا عدالتی سسٹم مضبوط اور بااختیار ہونا چاہیئے جو اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہو اور ان پر عمل درآمد بھی بغیر کسی جھجھک کے کراسکے.
میں یہ بھی مانتی ہوں کہ یہ ذمے داری اعلی سرکاری اور سیکورٹی عہدے داران کی ہے وہ اس ساری صورتحال کو کنٹرول کریں تاکہ عوام مشتعل نہ ہو تاکہ ہمارے ملک کے معمار اپنے ہاتھوں میں اسلحہ تھام کر ازخود دوسروں کی قسمتوں کا فیصلہ نہ کریں بالکل ضروری ہے ایسے معاملات کو باقاعدہ طور پر عدالت میں زیر بحث لاکر شواہد سے ثابت کرکے جزا و سزا کا فیصلہ کرنا
بالکل ضروری ہے ریاست کو ملک میں اسطرح کا ماحول دینا کہ کوئ اپنی شناخت کو چھپا کر اپنی بات نہ دوسروں کے سامنے رکھے. ہم خود چاہتے ہیں کہ آیئے بات کریں اپنا اپنا موقف سامنے رکھیں.دلیلوں سے ہمیں صحیح یا غلط ثابت کیا جائے.لیکن کیا آپ یہ سب کرسکتے ہیں کیا آپ پوری دنیا میں جو لوگ چند ممالک کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں انکو آزاد کراسکتے ہیں.کیا آپ سب کو بنیادی انسانء حقوق دینے کا وعدہ کرتے ہین کیا مزید انسانی جانوں کا ضیاع نہیں ہوگا.کیا مزید کسی کے مذہبی جذبات کو مجروع نہیں کیا جائے گا کیا بین الاقوامی سطح پر ہماری بات کو اہمیت دے کر اس کو سنا جائے گا کیا اس پر عمل درآمد ہوگا
تو ہم بھی یقین دلاتے ہیں کہ خاطر جمع رکھیئے کہ ہم کسی ازم کو فروغ نہیں دے رہے. ہم صرف اپنے مذہب کی اخلاقی روایات کو فروغ دیں گے جس نے ہمیشہ دوستی مساوات کی بات کی.خدارا ہماری سب سے محترم ہستی کو نشانہ بناکر ہمارے مذہبی جذبات مجروع کرنے کی کوشش نہ کی جائے. کیونکہ مسلمان نہ کل دہشت گرد تھا نہ آج ہے. اسے اور اسکے مذہب کو صرف بدنام کیا جارہا ہے اور اپنے نوجوانوں ملک کے معماروں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ یہ معاملات اپنے ہاتھوں میں نہ لیں قلم سے معاشرے کے ان ناسوروں کی نشاندہی کریں جو ہماری جڑوں کو کھارہے ہیں. یہ جہادالقلم ہے ایسے لوگوں کی اگر نشاندہی ہوتی ہے تو انھیں حکومتی سیکورٹی اہلکاروں کے سپرد کریں اورحکومت اس ضمن میں اپنا رول ادا کرے ورنہ اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا مہذب ملک ایک ایسے جنگل میں تبدیل ہوجائے گا جہاں کا ہر رہنے والا اپنی بقا کے لیئے ہر فیصلہ خود لیتا ہے چاہے وہ غذا چھیننے کا ہو یا اپنی جان بچانے کے لیئے دوسرے کو قتل کرنے کا
اللہ نے مسلم امہ کو اپنی پسندیدہ ترین امت قرار دیا ہے کیا اسے ثابت کرنے کا اور منوانے کا وقت نہیں آیا؟
اور رہی آج کل کی لبرل سوچ تو کیاـاسکے حمایت کرنے والے جانتے ہیں کہ اسکی پیدائش کہاں سے اور کن حالات میں کیونکر ہوئ؟کیا اسکے بنیادی مقاصد گزرتے وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوگئے؟
کیا آپ نے یا دوسرے مذاہب سے وابستہ لوگوں نے صحیح معنوں میں اپنی اصل تعلیمات کا مطالعہ یا ان سے استفادہ کیا نہیں تو آپ کو کوئ بھی آسانی سے گمراہ کرکے آپکو اپنے آلہ ء کار کے طور پر استعمال کرسکتا ہے یہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئ بھی تحریک صرف اپنے ابتدائ دور تک ہی اپنی اصل حالت میں رہ پاتی ہے بعد میں اسکی شکل بگاڑ دی جاتی ہے.اور دنیا کے تمام مذاہب جس اخوت و یگانگت اور بھائ چارے کا ابتدائ سبق دیتے ہیں.ان کا عملا نفاذ صرف مذہب اسلام میں نظر آتا ہے مذہب اسلام قدامت پرستی کو فروغ نہیں دیتا اسکا مطالعہ کرنے والے اسکی حقانیت کے متعرف ہوکے ہی اسکے دائرہ کار میں داخل ہوتے ہیں.اسکے اندر آزادیء رائے اور خیالات کے اظہار پر کوئ پابندی نہیں بلکہ اعلی انسانی ضابطہ ء حیات کے جو اصول اسلام وضع کرتا ہے انکی مثال تو بین الاقوامی چارٹر بھی پیش نہیں کرسکتا.خدارا اسکو غیر جانبدارانہ طور پر سچائ سے جانیئے اور دوسروں کو بھی درست معلومات فراہم کیجے خود کو اسکی تعلیمات کے مطابق ڈھالیئے صرف ظاہری پہناوا آپکو مسلمان ظاہر نہیں کرتا کردار بھی مسلم شاندار روایات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کیجے
سرورکائنات محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جسکی عملی تفسیر پیش کی جسے تاقیامت کوئ نہیں جھٹلاسکتا.جسکا زمانہ آج بھی متعرف ہے.ہم سب کو انہی خطوط پر چلنے کی ضرورت ہے اسلام کی طرف بلایئے خیر کی دعوت دیجیئے یہی حب نبوی کا تقاضہ ہے اور پھر بھی جو اپنی تعصبانہ روش پر قائم رہے اسکا فیصلہ دین قرآن اور قانون کی روشنی میں ریاست کے ذمے داران کے ہاتھوں کے ذریعے کیجے. کیونکہ اللہ نے انسانوں کی رہنمائ کے لیئے دنیا میں رسول پیغمبر بھیجے اور زمین پر اپنے خلیفہ نامزد کیئے.