کالم

انجمن ترقی پسند مصنفین ڈیرہ اسماعیل خان کی ادبی و ثقافتی خِد مات

انجمن ترقی پسند مصنفین ڈیرہ اسماعیل خان کی ادبی و ثقافتی خِد مات
از سید ارشاد حسین
دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر آباد شہر ڈیرہ اسماعیل خان اپنے دامن میں سندھ کی عظمت اور وسعت لئے ہوئے ہے۔ملک سہراب خان کے بیٹے ملک اسماعیل خان نے 1469ء میں اس عظیم شہر کی بنیاد رکھی۔
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان ایک عظیم الشان علمی ، ادبی ، تہذیبی اور ثقافتی ورثے کا امین ہے۔ اور اپنی اعلیٰ تہذیبی روایات کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہے۔ بقول ڈاکٹر طارق ہاشمی :’’ ڈیرہ کے باشندے جفا کش بھی ہیں اور وفا کیش بھی ۔ سادہ مزاج ہیں مگر رنگوں کی تفہیم اور ذائقوں کے شعور سے ان کے حواس عاری نہیں ۔ زندگی کے ہر شعبے میں اس مٹی کے باسیوں نے ایک ترو تازہ کردار ادا کیا ہے۔ اردو ادب کی نشو ونُما میں بھی یہاں کے اہل قلم کا یہی ترو تازہ کردار نمایاں ہے۔ ‘‘
یہاں کے اہل قلم نے نہ صرف مقامی و علاقائی سطح پر بلکہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔
شعرا ء اورو ادباء کی ایک کثیر تعداد اس بات کا ثبوت ہے ۔ کہ یہ خطہ دامان تخلیقی لحاظ سے کتنا ثروت مند ہے۔ عبد الکریم صابرؔ اور ، افضل امر قصوریہ اور محسن عمرانی سے لے کر غلام محمد قاصرؔ ، نذیر اشکؔ ، غفار بابرؔ ، پروفیسر سعید احمد اختر ، عبداللہ یزدانی اور تسلیم فیروزؔ تک اس شاندار ماضی کے گواہ ہیں۔ بقول شاعر :’’جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے‘‘
تخلیقی طور پر توانا نئی نسل بھی معاصر اردو ادب کے اُفق پر جگمگا رہی ہے۔ اور اس مٹی کی خوشبو میں اضافے کا باعث بھی۔
مرحوم غلام محمد قاصرؔ کا یہ شعر پوری اردو دنیا میں گو نج رہا ہے:
؂ کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
محبت کا یہی جذبہ اس مٹی کے باسیوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔ یہاں کی ادبی تنظیموں نے ماضی میں بھی اردو زبان اور ادب کے فروغ کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے اور موجودہ دور میں بھی وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود اپنی مدد آپ کے تحت لفظ کی خوشبو بکھیر رہے ہیں۔
ماضی میں بزمِ اقبال، بزمِ غا لب، ادارہ علم و فن ، مجلس ترقی اردو ، اربابِ قلم، اِدارہ علم و ادب اور قاصر ادبی فورم وغیرہ نے بساط بھر کوشش سے علم و ادب کا چراغ روشن کیا۔
عصرِحاضر میں ستاِرہ اَدبی فورم ، بزمِ ناصر اور انجمن ترقی پسند مصنفین نے اس چراغ کی لو کو بُجھنے نہیں دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں جس ادبی تنظیم نے اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے سب سے زیادہ کام کیا ہے ، وہ انجمن ترقی پسند مصنفین ہے۔ اس تنظیم نے مختصر وقت میں اور وسائل کی کمی کے باوجود اپنی اعلیٰ کارکردگی سے شاندار نتائج دیئے ہیں۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کا مختصر تعارف ، پس منظر اور پیش منظر۔
تعارف:
اردو ادب کی توانا ترین تحریک جسے ترقی پسند تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ برصغیر کی سب سے بڑی ادبی تحریک شمار کی جاتی ہے۔ اردو ادب میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا آغاز 1936کے لگ بھگ ہوا۔ اس سے قبل جولائی 1935میں پیرس میں بعض شہرہ آفاق ادبی شخصیات نے کلچر کے تحفظ کے لئے تمام دنیا کے شاعروں اور ادیبوں کی ایک کانفرنس بلائی۔ اس کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے کی ۔ بعد میں انہوں نے لندن میں مقیم کچھ ہندوستانی طلبا ء کی مدد سے انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی ۔ جس کا پہلا جلسہ ناکنگ ریستورا ن لندن میں ہوا۔ جہاں اس کا منشور مرتب کی گیا۔ اس اجلاس میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں سجاد ظہیر ، ڈاکٹر دین محمد تاثیرؔ ، ملک را ج آنند اور جیوتی گھوش وغیرہ جیسے بڑے نام شامل ہیں۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کُل ہند کانفرنس اپریل 1936میں لکھنؤ میں منعقد ہوئی ۔ جس کی صدارت معروف ادیب اور دانشور منشی پریم چند نے کی ۔ اسی کانفرنس میں سجاد ظہیر کو انجمن ترقی پسند مصنفین کا جنرل سیکٹری منتخب کیا گیا۔
انجمن کے مقاصد:
۱۔ آرٹ ا ور ادب کو رُجعت پسندوں کے چنگل سے نجات دلانا۔
۲۔ ادب میں بھوک ، اَفلاس، غربت ، سماجی پستی اور سیاسی غلامی پر بحث کرنا۔
۳۔ واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور، بے مقصد روحانی اور بے روح تصوف پرستی سے پر ہیز۔
۴۔ ایسی تنقید کو رواج دینا جو ترقی پسند اور سائینٹیفک رُجحانات کو فروغ دے۔
۵۔ ماضی کی اقدار و روایات کا از سر نو جائزہ لے کر صرف صحت مند اقدار اور روایات کو اپنانا۔
۶۔ سماج اور ادب کی ترقی میں رکاوٹ بیمار اور فرسودہ روایات کو ترک کرنا۔
مختصر یہ کہ انجمن ترقی پسند مصنفین نے ادب برائے زندگی کا بھر پور جامع اور حقیقی نظریہ اپنانے پر زور دیا۔تمام بڑے بڑے شعراء اور ادباء نے اس منشور اور نظریے کا خیر مقدم کیا۔ ہندوستان میں سب سے پہلے مشہور ادیب اور افسانہ نگار منشی پریم چند نے اسے خوش آمدید کہا ۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال اور بابائے اردو مولوی عبد الحق جیسے حضرات نے بھی اس تحریک کی حمایت کی ۔ اس منشور پر دستخط کرنے والوں میں:
منشی پریم چند ، جوؔ ش ملیح آبادی، نیاؔ ز فتح پوری، ڈاکٹر عابد حسین ، فراق ؔ گور کھپوری، قاضی عبد الغفار ، مجنوںؔ گورکھپوری، اور علی
عباس حسینی کے علاوہ نوجوان طبقے میں علی سردار جعفری ، جانثار اختر ، اسرار الحق مجاز ، حیا ت اللہ انصاری اور خواجہ احمد عباس کے نام قابل ذکر ہیں۔

ترقی پسند ادب کسی مخصوص خطے یا نسل کا نہیں بلکہ عوام کا ترجمان بنا ۔ ادب محض کاروبار دل کا نقیب اور تفریح طبع کا ذریعہ نہ رہا۔ بلکہ عوامی مسائل کے حل کا وسیلہ قرار پایا۔ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوا اور فرسودہ روایات کو چھوڑ کر جدت کا پر چار ک بنا۔ غرض ترقی پسندوں نے افسانہ، ناول تنقید اور اردو شاعری میں شہرہ آفاق تخلیقات پیش کر کے اردو زبان و ادب کی بے لوث خدمت انجام دی۔
’’ ہماری کسوٹی پر وہ ادب کَھر ااُترے گا ، جس میں تفکر ہو ، آزادی کا جذبہ ہو ، تعمیر کی روح ہو زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو۔ جو ہم میں حرکت ، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے۔ُ سلائے نہیں ، کیونکہ اب زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی۔‘‘ (منشی پریم چند)
انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کُل پاکستان کا نفرنس نو مبر 1949 ؁ ء کو لاہور میں منعقدہو ئی ۔اس وقت سیکرٹری جنرل پاکستان کے معروف شاعر اور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی تھے ۔
فیض احمدفیض نے اپنی ساری زندگی تر قی پسند ادب کے لئے و قف کردی 1954 ؁ میں حکومت نے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ اس ادبی انجمن پر پابندی لگادی ۔حالانکہ یہ خالصتاً ایک ادبی تنظیم تھی اور سیاست سے اس کا کوئی سروکار نہیں تھا ۔
؂ وہ بات سا رے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اس کو بڑی ناگوار گذری ہے ۔
انجمن کی سرگر میوں کا از سر نو آغاز 18فروری 1973ء کو ہوا ۔بد قسمتی سے 1977 ؁ء میں مارشل لا ء نافذ کردیا۔مارشل لا ء کے بعد انجمن کی سر گرمیاں جون 1985 ؁ء میں دوبارہ بحال ہو گئیں۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے اس کارواں کی قیادت سبنھالی ۔
مارچ 1986 ؁ء میں کراچی میں انجمن کی گو لڈ ن جو بلی دھوم دھام سے منائی گئی ۔جو اس کی پچاسو یں سالگرہ بھی تھی ۔
یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔2005 ؁ء میں سجاد ظہیر صدی تقریبات پور ی پاکستان میں منعقد ہو ئیں۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کی ۷۰و یں سالگرہ 21اپریل 2007 ؁ء کو ڈاکٹر انوار احمد کی زیر نگرانی ملتان میں منائی گئی ۔
2011 ؁ٗ ؁ء میں انجمن کی پلاٹینیم جو بلی (75سالہ ) اور فیض صدی تقریبات کا آغاز ہوا ۔جس کے چےئر مین مسلم شمیم صاحب اور سیکرٹری ڈاکٹرجمال نقوی تھے ۔
2012 ؁ء میں ترقی پسندقافلے کی صدائے باز گشت ڈیرہ اسماعیل خان میں سنائی دی جس کے بنیادی محرک قرطبہ یو نیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر یحیے احمد تھے ۔

ا

نجمن ترقی پسند مصنفین ڈیرہ اسماعیل خان
ڈیرہ اسماعیل خان کی بہت بڑی متحرک ادبی شخصیت اور پشتو کے انقلابی شاعر ،معروف قانون دان جناب ثنا ء اللہ شمیم گنڈہ پور صاحب اپنے دوستوں ارشاد حسین شاہ ،حفیظ اللہ گیلانی مو سی کلیم دو تانی، یو نس چغتہ،جاوید شاہ شیر ازی ،محمد ہد ایت قریشی اور ڈیرہ کے معروف شاعر تسلیم فیروز صاحب 18نو مبر 2012 ؁ء کو اعجاز آباد مریالی میں ڈاکٹر یحیےٰ ؤاحمد صاحب کی تحریک و ایما پر اکٹھے ہو ئے ۔
کا فی غو رو خو ص اور بحث مباحثے کے بعد تمام شر کا ء نے ڈیرہ اسماعیل خان میں انجمن کے قیام پر رضا مند ی ظاہر کردی ۔
7دسمبر 2012 ؁ء کو اس مقصد کے لئے بلا ئے گئے اجلا س میں انجمن کی تنظیم سازی کا پہلا قد م رکھنے کے لئے ایک عبو ری کو نسل تشکیل دے دی گئی ۔جس میں جمہو ری روح کے تقاضو ں کے مطابق اور ار اکین کی رائے کے مو افق درج ذیل کا بینہ کی منظوری دی گئی ۔

سر پرست ثنا ء اللہ شمیم گنڈ ہ پور
صد ر سید ر ارشاد حسین شاہ
جنرل سیکرٹری حفیظ اللہ گیلانی
جائنٹ سیکر ٹری مو سیٰ کلیم دو تانی
پر یس سیکر ٹری ابو المغطم ترابی
فنانس سیکر ٹری محمد یو نس چغتہ
23دستمبر 2012 ؁ء کو انجمن کا پہلا با قا عدہ اجلا س منقعدہو ا ۔جس میں ارشاد حسین شاہ کے افسانہ ما ہر نفسیا ت ،پر تنقیدی رائے دی گئی اور بشیر احمد بلو ر صاحب کے ایصال ثو اب کے لئے دعا کی گئی۔پہلے اجلا س میں کا بینہ کے علاوہ خو شحال نا ظر ،فا روق عادل ،
طا ہر شیر ازی ،سعید اختر سیال اور عنا یت عادل و غیر ہ نے بھی شرکت کی ۔اس کے بعد انجمن کے پند رہ روز ہ اجلاس یو ناٹیڈ بک سنٹرپر با قاعد گی سے منعقد ہو تے رہے ۔
چند چید ہ چیدہ اجلاسات درج ذیل ہیں
20اگست 2013 ؁ء : مو ضو ع : حفیظ اللہ گیلا نی کی اردو سرا ئیکی شاعری اور ان کا ناول ’’نتِ کُر لاوے کو نج ‘‘
15ستمبر 2013 ؁ء سعید احمداخترکی ادبی خدمات
مقالہ : مو سیٰ کلیم دو تانی
27اکتوبر 2013 ؁ء ضلعی مشا عرہ
24نو مبر 2013 ؁ء علی سر دار جعفر ی کا نفرنس ،ڈسٹر کٹ کو نسل ہال ڈیر ہ اسماعیل خان میں ہو ئی ۔جس میں مر کزی عہد ید اروں شعر و ادب کے شا ئقین اور عوام نے بھر پور شرکت کی ،
مر کزی جنرل سیکرٹر ی سلیم راز، مرکز ی فنانس سیکرٹری ڈاکٹر جمال نقوی ،سند ھ سے ڈاکٹر مظہر حید ر ،پنجاب سے پر و فیسر رشید مصباح و
مقصو د خالق ، پشاور سے حسام حُر ،اسلام آباد سے ڈاکٹر یحیے احمد شریک ہو ئے ۔یہ ایک یاد گار ادبی کانفرنس تھی۔جس میں کمشنر ڈیرہ ڈوثیر ن مشتاق احمد جدون نے خصوصی شرکت کی اور ہماری ادبی و ثقافتی کو ششوں کو سراہا ۔
اسی طرح سال 2014 ؁ء میں بھی انجمن کے بھر پور اجلاسات باقاعدگی سے منعقد ہوتے رہے ۔
سال 2015 ؁ء کا رکر دگی
ا) مو رخہ 10جنوری معروف محقق مو سی کلیم دوتانی کی نثری کا وش ’’ ادب اور معاشرہ ‘‘ کی تقر یب پذیر ائی۔مفتی محموؤ د لائبریر ی نز د ہائی کو ر ٹ صد ارت : تسلیم فیر و ز ۔مہمان خصو صی ۔شاہد بخاری
۲) 14جنوری : جواں مرگ شاعر نو ر احمد ناز کی یاد میں تقریب ایس پی او کے ہال میں۔ادبی خدمات کا تذکرہ ۔ایصا ل ثواب کی خاطر فاتحہ خوانی کی گئی۔
۳) 16جنوری : حفیظ اللہ گیلانی کی رہائش گاہ پر اہل قلم کا اجتماع ہوا
راولپنڈی نیشنل کالج آف آرٹس کے ڈائر یکٹر ڈاکٹرعمر ند یم تارڑ کی خصو صی شرکت اور پر مغز گفتگوشامل تھی ۔حفیظ جالندھری اور احمد فراز ؔ کی ادبی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ۔
۴) 19جنوری : محفل مشاعرہ ۔نوجوان شاعر عبادت حسین کے گھر پرنظامت۔ڈاکٹر اخلاق احمد اعوان ۔صد ارت ۔ارشاد حسین شاہ ،مہمان خصوصی ،خور شید ربانی ۔
۵) 25جنوری : سرائیکی شاعر عبد الطیف اعوان کی کتاب ’’ مٹھڑ ے سنحن ‘‘کی تقریب پذیرائی ۔صد ارت ۔ثنا ء اللہ شمیم گنڈہ پور سردی کے با وجود ماہ جنوری میں پانچ تقریبات ایک مثال ہیں
14فر وری : آواز فو رم کے دفتر میں اجلاس ۔ارشاد حسین شاہ کا ترقی پسند ادب اس کی تاریخی اہمیت اور نظریاتی ضرورت پر لیکچر
محمد لطیف بک سیلرکے ادبی ڈیرہ پر انجمن کے مستقل اراکین کاغیر رسمی اجلاس جہاں آخر پر ڈاکٹر اخلاق احمد اعوان نے معروف شاعر مبارک شاہ کا کلام بڑے ہی دل نشیں لہجے میں پیش کیا ۔
11مارچ : کل پاکستان آوازِ امن مشاعرہ ۔
عوام کی بھر پور شرکت۔خواتین اور بچوں نے رات گئے تک اپنی ثقافتی روایات کو پھر سے زندہ کردیا ۔
قو می شعراء میں سلمان گیلانی اور زاہد فخر ی کی خصو صی شرکت ہوئی ۔
یہ مشاعرہ ضلعی انتظامیہ،D.P.Oڈیرہ جناب صادق حسین بلوچ اور احساس و النٹےئر ز کے عنایت عادل کے خصو صی تعاون سے منعقد کیا گیا ۔
22مارچ : شاعر ،ادیب ،محقق اور نقاد طارق ہاشمی کی دو کتابوں ’’اردو نظم اور معاصرانسان ‘‘اور جد ید نظم کی تیسری جہت ‘‘ کی تقریب پذیرائی ۔ایس پی او کے دفتر میں منعقد ہوئی ۔(مقالہ جات : خوشحا ل ناظر ۔مو سیٰ کلیم و وتانی )
صدارت : سینئیر شاعر اور قر طبہ یو نیو ر سٹی کے پر و فیسر ریاض مجید صاحب اور نظامت پر و فیسر محمد علی بخاری کی تھی ۔پشاور سے فاروق جان آزاد او ر نئیر سرحدی کی خصو صی شرکت
6اپر یل : تین ادبی تنظیمو ں کا مشتر کہ اجلاس ۔پر یس کلب ڈیرہ کی تالا بندی اور اہل ادب سے عد م تعاون پر احتجاج ۔
18اپر یل : یونا ئٹیڈ بک سنٹر کے گو شۂ ادب میں جمشید نایاب پر بنو ں کے پر وفیسر فہد جمال کے لکھے گئے ۔ایم ۔فل کے تحقیقی مقالے پر بات چیت کی گئی ۔
21اپر یل : انجمن ترقی پسند مصنفین کے مر کزی صدر جناب سلیم رازؔ کے ساتھ ایس پی او آفس میں ایک شام کا اہتمام ان کی ادبی و تنظیمی خدمات پر سیر حاصل گفتگو اور سوالات کئے گئے.
3مئی : اردو انگریزی کے نامور لکھاری ،ناول نگار اور افسانہ نگا ر حمزہ حسن شیخ کے افسانوی مجمو عہ ’’کا غذ‘‘ کی تقریب پذیر ائی ۔ دی نالج ہوم کے ہال میں ہوئی صدارت : ثنا ء اللہ شمیم گنڈہ پور مقالہ نگار ۔ارشاد حسین ۔مو سیٰ ؤکلیم دو تانی ۔خوشحال ناظر تھے۔

Back to top button