ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے
تحریر : عابد ایوب اعوان
حضرت علی رضی اللہ عنہہ کا قول ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی دولت کے انبار دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ کہیں نہ کہیں ضرور گڑبڑ ہوئی۔ شریف خاندان کی دولت و متاع کو دیکھا جائے اور شریف خاندان پر لگے کرپشن کے الزامات کے بارے سوچا جائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہہ کا یہ قول فورا دماغ کی سوچوں کے دریچوں میں گھومنا شروع ہو جاتا ہے۔ پانامہ کیس کا تفصیلی فیصلہ ماضی کے ایک مشہور زمانہ ناول گارڈفادر کی ان سطور سے شروع ہوتا ہے کہ ہر کامیابی کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانامہ کیس کے بینچ میں شامل 5 جج صاحبان نے فیصلے کا آغاز ہی جس انداز میں کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان 5 جج صاحبان نے شریف خاندان کو مجرم سمجھ لیا ہے اور پورا تفصیلی فیصلہ بغور پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جرم کا تعین جج صاحبان نے کر لیا ہے اب بس جرم کو ثابت کرنے کیلیئے جن ثبوت کی ضرورت ہے جن کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہے انکا کھوج لگانے کیلیئے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو تمام تر تحقیقات کر کے رپورٹ اس بینچ کے سامنے رکھے گی جس کے بعد ہی پانامہ کا کھیل مکمل ہو گاا اور فیصلہ یہی بینچ سنانے کیلیئے ایک بار پھر بڑی عدالت میں میدان لگائے گا۔ تفصیلی فیصلے کا مکمل مطالعہ کیا جائے تو آخر پر یہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد یہ بینچ اپنا آئینی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے جو کہ آئین کے آرٹیکل 184 کے مطابق ہے کہ اگر ضروری سمجھا گیا تو وزیراعظم کو قومی اسمبلی کی نشست سے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے اور وزیر اعظم اور انکے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کو پیش ہونے کا حکم بھی دیا سکتا ہے۔ پانامہ کیس کیلیئے کمیشن نہیں بنا بلکہ سپریم کورٹ کے اس 5 رکنی بینچ کے نیچے ہی ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل ہوئی ہے جس کا مقصد تحقیقات کر کے رپورٹ سپریم کورٹ کے اسی بینچ کے سامنے پیش کرنی ہے۔ ابھی تو پانامہ کیس کا فیصلہ آنا باقی ہے جو اس تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد یہی سپریم کورٹ کا بینچ سنائے گا۔ 60 روز کا وقت دیا ہے سپریم کورٹ کے بینچ نے اس تحقیقاتی ٹیم کو جو ہر 15 دن کے بعد کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائیگی۔ سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلے کی سب سے اہم بات کہ وزیراعظم اس تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو گا کہ ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز وزیر اعظم کسی افسر کے سامنے پیش ہو کر اپنی صفائی پیش کریں گے۔ وزیر اعظم کے لیئے وہ کیسے لمحات یوں گے جب گریڈ 19 کے افسران ان سے پوچھ گچھ کر رہے ہوں گے۔ دنیا میں جتنے بھی بڑے لوگ گزرے ہیں سب نے اپنی عزت کو ہی باقی تمام چیزوں پر مقدم سمجھا۔ تاریخ میں پہلی بار ملک کے وزیر اعظم کے خلاف تحقیقات کیلیئے جے آئی ٹی تشکیل ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے کچھ رہنماوں نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ انہیں جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے تک مستعفی ہو کر کسی سینیئر رہنما کو وزیر اعظم کا عہدہ سونپ دینا چاہیئے۔ ویسے وزیر اعظم کے استعفی دینے کی صورت میں حکومت تو مسلم لیگ ن کی ہی ہو گی اور جے آئی ٹی کی تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے مگر وزیراعظم کے پاس یہ موقعہ ضرور ہے کہ وہ مستعفی ہو کر اپنے آپ کو جے آئی ٹی کے سامنے تحقیقات کیلیئے پیش کر دیں اور اپنے اوپر لگے الزامات کو دھو کر دوبارہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالیں تو نواز شریف ہمیشہ کے لیئے قوم کے ہیرو بن جائیں گے اور تاریخ انہیں ان کے اس اقدام کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھے گی۔ اقتدار تو آنے جانے کی چیز ہے اور اس سے پہلے بھی نواز شریف دو مرتبہ وزیراعظم کے عہدے پر رہ چکے ہیں۔ نواز شریف کو تاریخ میں بڑا بن کر زندہ رہنا چاہیئے نہ کہ اقتدار سے ہی چمٹے رہ کر بے عزت ہونا چاہیئے۔ عزت بہرحال بڑے لوگوں کے لیئے ہمیشہ مقدم ہی رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے لیئے اس فیصلے سے وقتی جان بخشی تو ضرور ہو گئی ہے کیونکہ وزیر اعظم نااہل نہیں ہوئے مگر مسلم لیگ ن کیلیئے ابھی پریشانی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی آگے جا کر اسی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد وزیر اعظم نااہل بھی ہو سکتے ہیں۔ 20 اپریل کا فیصلہ آنے کے بعد وقتی طور پر نااہلی سے بچ جانے پر مسلم لیگ ن کی طرف سے کھائی گئی مٹھائی اپنی کڑواہٹ کا ذائقہ ضرور دیگی جب مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادوں سے چوروں کی طرح پوچھ گچھ ہو گی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایک کھرے اور سچے آدمی ہیں انہوں نے ایک نیوز کانفرنس میں یہ تسلیم کیا ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ ابھی زیر سماعت ہی ہے۔
ماضی میں بھی ایک 18 اپریل 1993 گزرا ہے جب اس وقت کے صدر اسحق خان نے ایک صدارتی حکم سنا کر وزیر اعظم نواز شریف کو گھر بھیج دیا تھا مگر پھر اسی عدالت نے ہی چھہ ہفتوں کے بعد انہیں دوبارہ بحال کر دیا تھا۔ تب بھی نواز شریف کے خلاف کرپشن کے ہی الزامات تھے جن کو بنیاد بنا کر صدر اسحق خان نے اسمبلیاں تحلیل کر کے نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔اس وقت نواز شریف پہلی بار وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو عدالت اپنے اوپر مسلم لیگ ن کیطرف سے کیئے گئے حملے کے باوجود مسلم لیگ ن پر ہمیشہ سے مہربان ہی رہی ہے ورنہ اسی عدالت نے پیپلز پارٹی کے دو سابقہ ادوار میں دونوں وزرائے اعظم کے خلاف فیصلہ سنا کر انہیں دو مرتبہ گھر بھیجا۔ ایک بار یوسف رضا گیلانی کو اور ایک بار محترمہ بے نظیر بھٹو کو۔ بے نظیر بھٹو پر بھی کرپشن کے الزامات تھے جس پر انہیں بھی اسمبلیاں تحلیل کر کے صدر اسحق خان کے صدارتی حکم سے ہی وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا اور عدالت نے بھی انکے خلاف فیصلہ سنا کر انکی برطرفی کے صدارتی حکم کو صحیح قرار دیا تھا جبکہ نواز شریف کو بحال کر دیا تھا کہ محض کرپشن پر منتخب وزیر اعظم کی نااہلی نہی بنتی۔
پانامہ کیس کے 20 اپریل کے فیصلے میں دو جج صاحبان جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار نے وزیراعظم کے خلاف نااہلی کا فیصلہ سنا دیا ہے جبکہ بینچ میں باقی تین جج صاحبان جسٹس عظمت جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید تحقیقات کرنے اور وزیراعظم اور انکے بچوں کو صفائی پیش کرنے اور اپنے اوپر لگے الزامات کو جھوٹ ثابت کرنے کا ایک موقعہ دیا ہے تاکہ کل یہ کہنے کی کوئی صورت باقی نہ رہ جائے کہ عدالت نے موقعہ فراہم نہیں کیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے تو یہاں تک بھی کہا کہ وزیراعظم کو اپیل کرنے کا حق بھی ملناچاہیئے۔ سابق جسٹس سپریم کورٹ افتخار چوہدری کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن بھی وزیر اعظم کی نااہلی کے حق میں رائے رکھتے تھے مگر انہوں نے اپنی رائے مزید تحقیقات تک محفوظ کر لی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ سخت موقف رکھنے والے جج ہیں جو کہ سابق جسٹس سجاد علی شاہ کے داماد ہیں۔ سجاد علی شاہ نے ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے فیصلے میں جسٹس آصف سعید بھی شامل تھے۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تفتیش اور پوچھ گچھ مکمل ہونے کے بعد رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی جائیگی اور اس رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے پانامہ کیس کا بینچ اپنا فیصلہ سنائیگا۔ تب چھوٹی عید کی آمد آمد ہو گی اور پوری قوم کی نظریں ایک بار پھر بڑی عدالت کی جانب ہوں گی اور فیصلے کے بعد کسی کی عید کی خوشیاں دوبالا ہو سکتی ہیں اور کسی کی 20 اپریل کو کھائی گئی مٹھائی اپنی کڑواہٹ کا اثر دے کر انکی عید کی خوشیوں کو ماند بھی کر سکتی ہے۔ خیر فیصلہ جو بھی آئے پیارے وطن پاکستان کے حق میں ہو اور حقیقی معنوں میں ایک تاریخی فیصلہ ہی ثابت ہو۔ احمد ندیم قاسمی مرحوم کے دعائیہ اشعار پیارے وطن پاکستان کے نام
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہء4 زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو