کالم

مجھے ناز ہے کہ تو میرا انتخاب ہے

مجھے ناز ہے کہ تو میرا انتخاب ہے

دسمبر2016ء کے آخر میں عمران خان نے پاکستان کے تیسرے کینسر ہسپتال کا کراچی میں افتتاح کردیا۔بلکہ اس کا افتتاح بھی روایت کے مطابق کینسر کے مرض میں مبتلا ایک بچے سے اُس نے کروایا۔سب سے پہلے لاہور میں بننے والے شوکت خانم ہسپتال کا افتتاح بھی کینسر کے مریض بچے سے ہی اُس نے کروایا تھا۔تب وہ سیاست میں نہیں ایا تھا۔2015ء میں پشاور میں دوسرے کینسر ہسپتال کا اُ س نے اعلان کیا۔خیال یہی تھا کہ اُس کا افتتاح وہ خود ہی کرے گا۔کیونکہ اب وہ سیاست میں ہے۔ ہماری سیاست میں فلاح انسانیت کاچھوٹے سے چھوٹا کارنامہ بھی کوئی سیاستدان کرے تواُس کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کا افتتاح خود کرے۔عمران خان کو واقعی سیاست نہیں آتی۔اُس کے سیاسی کردار اور رویے پر یقیناًتنقید کی گنجائش موجود ہے۔مگر اُس کے انسانی کارناموں پراس کے بدترین دشمن بھی انگلی نہیں اُٹھا سکتے۔سوائے اُن کم ظرفوں کے جن کا خیال تھا کہ آئندہ کوئی وزیراعلیٰ یا حکمران وغیرہ شوکت خانم کیلئے سرکاری طور پر زمین فراہم نہیں کرے گا۔ عمران خان ایسے منصوبے کا تصور تک نہیں کرسکے گا۔اُس کے سیاسی دشمنوں کواُس پر تنقید کیلئے کچھ نہ ملا۔احسان جتلانے لگے’’شوکت خانم کیلئے زمین انہوں نے فراہم کی تھی۔‘‘جیسے یہ اُن کی ’’ذاتی زمین‘‘ تھی۔اس دور میں سرکاری زمین پلاٹوں کی صورت میں مسلم لیگی کارکنوں اور افسروں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹی جارہی تھی۔جس کے سیاسی فوائد آج تک وہ اُٹھا رہے ہیں۔اُنہیں تکلیف اس بات کی ہے کہ ایک انتہائی نیک مقصد کینسر ہسپتال کیلئے جانے والی زمین کے سیاسی فوائد وہ کیوں نہیں اُٹھا سکے۔ ویسے یہ اُن کی سیاست نہیں فطرت ہے ۔معمولی سا احسان کسی پر کرکے ہمیشہ دِل و دماغ میں رکھ کر بیٹھے رہتے ہیں۔ اور وقتاً فوقتاً جتلاتے بھی رہتے ہیں۔ جاوید ہاشمی تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو اپنے حواریوں سے کہلوادیا۔ ’’وہ جب جیل میں تھے کھانا شریف برادران کے گھر سے جاتا تھا۔‘‘۔۔۔یعنی کھانا شریف برادران کے گھر سے نہ جاتا تو وہ بھوکے مرجاتے۔اب ایسے ہی وہ سوچتے ہوں گے لاہور میں عمران خان کو کینسر ہسپتال کیلئے سرکاری زمین وہ نہ دیتے تو ہسپتال قائم ہی نہ ہوتا۔پھر سیاسی مقاصد کیلئے اپنے حواریوں کے ذریعے شوکت خانم ہسپتال کو بدنام کرنے کی پوری کوشش بھی انہوں نے کی،جس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔البتہ عمران خان کو اُس صبر کے صلے میں مزید دو ہسپتال قائم کرنے کی اللہ نے توفیق دے دی۔ا ب شوکت خانم کینسر ہسپتال کوئٹہ میں بھی بنے گا۔سیاسی طور پر ممکن ہے کچھ لوگ اُس پر اعتبار نہ کرتے ہوں۔ مگر انسانی خدمات کے حوالے سے اُس پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔جب بھی اندرون و بیرون ملک لوگوں سے اُس نے مدد مانگی،دِل کھول کر اُنہوں نے مدد کی۔شوکت خانم کینسر ہسپتال کیلئے امیروں کے ساتھ ساتھ’’فقیروں‘‘ کو بھی چندہ دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔پاکستان کاشمار دنیا کے سب سے زیادہ چیریٹی کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔لوگوں کو بس کسی پر یہ یقین ہونا چاہئے وہ اُن کے مال کا صحیح استعمال کرے گا۔پھر سب کچھ اس پر نچھاوڑ کرنے پر وہ تیار ہوجاتے ہیں۔عبدالستار ایدھی بھی ایسے ہی ایک شخص تھے جن پر لوگ اندھا اعتماد کرتے تھے۔ایسے ہی شخصیات کے بارے میں بلھے شاہؒ نے کہا ہوا ہے۔ ’’بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں،گورپیا کوئی ہور‘‘۔۔۔موت انسان کو آتی ہے اُس کے کارناموں کو نہیں۔ہمارے موجودہ حکمران سیاسی طور پر عمران خان مقابلہ کرنے کیلئے ہر جائز ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں۔کاش اُس کی انسانی خدمات کا مقابلہ کرنے کی کوئی کوشش بھی وہ کریں۔ملک میں ایک آدھا کینسر ہسپتال بنانے کی توفیق انہیں بھی ہوجائے۔ذاتی طور پر نہ سہی سرکاری طور پر ہی ہوجائے۔پھر شوکت خانم ہسپتال کی طرح اُسے چلانے کی توفیق بھی ہوجائے۔اصل میں انسانی صحت اُن کی ذاتی ترجیحات میں شامل ہے نہ سرکاری ترجیحات میں۔ کیونکہ ہسپتال وغیرہ بنانے سے جیبیں اُتنی گرم نہیں ہوتیں جتنی سڑکیں اور پُل وغیرہ بنانے سے ہوتی ہیں۔سرکاری ہسپتالوں کی جو حالت ہے سب کو پتہ ہے اور جو ایک آدھ ذاتی ہسپتال اُنہوں نے بنایا وہ بھی کئی’’بیماریوں‘‘ کا شکار ہے۔اور پچھلے دنوں گردوں کی فروخت کا سیکنڈل منظر پرآیاجس میں شریف میڈیکل کمپلیکس کا عملہ اور ڈاکٹرثبوتوں کے ساتھ ملوث ہیں۔برطانیہ میں 7 کروڑ کی آبادی کیلئے بیس کینسر ہسپتال ہیں۔اور پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بیس اکیس کروڑ کی آبادی اور اُس میں تیزی سے بڑھتے ہوئے کینسر کے مرض کیلئے سرکاری طور پر کوئی ایک قابل ذکر ہسپتال نہیں ہے۔اور باقی بیماریوں کیلئے جو ہسپتال ہیں اُن کی حالت کا انداہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکمران اپنی قبض تک کا علاج باہر سے کروانے جاتے ہیں۔کوئی ایک ہسپتال اب تک وہ ایسا نہیں بناسکے جہاں اپنا علاج اس یقین اور اعتماد کے ساتھ وہ کرواسکیں کہ وہ مکمل طور صحت یاب ہوجائیں گے۔
افسوس اپنی تیس پینتیس سالہ حکومتی کارکردگی کا حساب دینے کیلئے وہ تیار نہیں اور کے پی کے میں عمران خان سے اس کی تین ساڑھے تین سالہ حکومتی کارکردگی کا حساب لینے کیلئے لوگوں اور میڈیا کو وہ اُکساتے رہتے ہیں۔۔۔پانامہ حکمرانوں کے احسانوں اور ڈر کے بوجھ تلے بُری طرح دبے ہوئے اُن کے ’’خاص پالتو چمچے‘‘جب عمران کی انسانی خدمات پر بھونکتے ہیں تو پھر بہت افسوس لگتا ہے۔۔۔ یہ درست ہے کہ شوکت خانم ہسپتال عوام کے مالی تعاون سے ہی بنے ہیں۔ عمران خان کی مالی کنٹری بیوشن اُن میں زیادہ نہیں ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُس کے بجائے ایسے کسی نیک مقصد کیلئے کوئی اور عوام سے مالی تعاون کی اپیل کرے تو کیا اُس پر لوگ اتنا اعتماد کریں گے جتنا کہ وہ عمران خان پر کرتے ہیں۔اور کرتے ہی چلے جارہے ہیں۔میری اپنی ہمشیرہ کا بریسٹ کینسر کا علاج وہاں سے ہواہے۔اب وہاں علاج کے بعد وہ مکمل طور پر صحت یاب(الحمد اللہ) ہوچکی ہیں۔میں نے اپنی آنکھوں سے جو سسٹم وہاں دیکھا۔بلاشبہ وہ ایک عالمی معیار کا سسٹم ہے۔شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹروں کا مریضوں سے محبت بھر ے سلوک سے مریضوں میں جو تھوڑا بہت اس بیماری کا ڈر ہوتا ہے وہ بھی جاتا رہتا ہے۔زندگی موت یقیناًاللہ کے اختیار اور ہاتھ میں ہے مگر ڈاکٹروں کا رویہ اپنے مریضوں کے ساتھ اچھا ہو،یا کسی مریض کو ڈاکٹروں کے بارے میں یہ اطمینان ہو کہ وہ اُس کا علاج کرنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔تو وہ پھر ہر طرح کے ڈر اور خوف سے آزاد ہوجاتا ہے۔جس کے نتیجے میں اپنی بیماری سے نبٹنے کیلئے ایسی قوت اُس کے اندر نفسیاتی طور پر پیدا ہوجاتی ہے جو جلد اور مکمل صحت یابی تک اُسے لے جاتی ہے۔۔۔ عمران خان جب سیاست میں آیا تو اس بات کا ڈر تھاکہ کہیں شوکت خانم اس کی سیاست کی نذر نہ ہوجائے۔پھر جس قسم کی سیاست اس نے ،یا اِدھر اُدھر سے اُس کی جامعت میں شامل ہونے والے’’لوگوں‘‘نے اُس سے کروائی،یہ ڈر بھی تھا اُس کے اثرات شوکت خانم ہسپتال پر نہ پڑ جائیں۔جس کے نتیجے میں انسانی خدمت کے اس عظیم الشان مرکز پر لوگوں کا اعتماد کم نہ ہوجائے۔اللہ کا شکر ہے لوگوں کے اعتماد میں رتی بھر کمی نہیں آئی،بلکہ کئی گنا اضافہ ہواہے۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ پشاور میں شوکت خانم ہسپتال کے بعد اب کراچی میں بننے جارہا ہے۔۔۔کبھی کبھی یہ سوچ دل میں آتی ہے کہ کاش عمران خان سیاسی کی غلاظت کی بجائے انسانی خدمت پر توجہ دیتا۔مگر پھر یہ سوچ آتی ہے کہ اگر وہ سیاست میں نہ ہوتاتو موجودہ حکمرانوں کو تھوڑی بہت لوگوں کی خدمت کرنے کی جو توفیق اُس کے سیاسی ڈر کی وجہ سے ملی جاتی ہے وہ بھی نہ ملتی!!

Back to top button