کالم

جکڑن ۔۔۔۔۔ بالحق۔۔۔۔۔ عنایت عادل

جکڑن ۔۔۔۔۔ بالحق۔۔۔۔۔ عنایت عادل
لب لباب یہ ہے کہ۔۔
لیکن ٹھہرئیے، لب لباب سے پہلے پس منظر جاننا ضروری ہے۔۔
میرا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے کہ آپ اس مخصوص سیاسی قیادت کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے جمہوریت دشمنی کا طوق گلے میں لٹکا لیں۔میں کسی مطلق العنان عسکری حکومت کا پروردہ بھی نہیں کہ آپ دشنام طرازی کے مرتکب ہو کر غداری کی سند کے قابل سمجھ لئے جائیں، میں کسی قانونی گورکھ دھندے کی فائلوں کی مالا گلے میں ڈالے پاک پوتر نہیں ہوں کہ مجھ پر اعتراض اٹھا کر آپ کسی توہین کے مرتکب ٹھہرا دئیے جائیں۔ میرا سابقہ کسی قلم قبیلے سے بھی نہیں کہ میرے طرز عمل پر انگلی اٹھانا آپ کے لئے آزادی رائے پر قدغن لگانے کا الزام بن جائے۔ میں کسی سرکاری محکمے کی منصوبہ بندی کرتی چوٹی کی مساند کا بھی حصہ نہیں کہ مجھ سے سوال کرنا آپ کو کارسرکار میں مداخلت کی ڈگری دے جائے۔ میں کسی تاجر تنظیم، کسی فلاحی ادارے یا کسی سول سوسائٹی کے فعال افراد میں سے کوئی فرد بھی نہیں کہ مجھ سے سوال کرنا آپ کے خلاف سڑکوں پر کتبوں نعروں سے بھرپور احتجاج کی کال پر منتج ہو جائے۔
میں تو بس ایک سوچ ہوں، ایک نظام ہوں اور ایک چال ہوں جو درج بالا تمام اکائیوں سے مبرا، ان اکائیوں سے علیحدہ لیکن ان تمام اکائیوں کو اس مضبوطی سے جکڑے ہوئے ہوں کہ میری اس گرفت میں پھنسی یہ اکائیاں میرے وجود سے انکاری لیکن عملاََ میرے تابع ہو چکی ہیں۔ میری یہ جکڑاتنی غیر محسوس کہ ادراک کرنا بھی مشکل اور اتنی پر زور کہ منصوبہ بندیوں کے قابل خواص کی پھنسی پھنسی تاویلوں سے لے کر ان منصوبہ بندیوں کے ثمرات کے منتظرعوام کی چٹختی پسلیوں کی آوازتک میں محسوس کی جا سکتی ہے۔انتخابی تقریروں کی چلاہٹ سنئے، احتجاجی مظاہروں کی چیخوں پر غور کیجئے، آپ کو ہر دو طرح کی کرلاہٹ ،فضاوں کو چیرتی محسوس ہونے کے ساتھ ساتھ میری مکروہ، مگر فاتحانہ مسکراہٹ کے جلوے دکھاتی محسوس ہو گی۔میری یہ گرفت ایسی مضبوط کہ خواص میرے تابع ہو کر عوام کا استحصال کرتے چلے جائیں اور عوام میری اتباع میں انہی استحصالی خواص کی شان میں قصیدے گاتے چلیں جائیں۔
میری یہ جکڑ اس قدر تیر بہ حدف کہ قدرت نے کتنی ہی بار اپنی رحمت کے دروازے کھولتے ہوئے کھلی نشانیاں پیش کیں لیکن میری اس جکڑ نے جہاں آنکھوں پر پٹیاں ڈالنے کا سامان کئے رکھا وہیں عقول بھی قفل زدہ کرتی چلی آئی۔ ایک ایک رگ سے نچوڑے گئے ٹیکسوں سے بنے سرکاری ہسپتالوں کو میری منصوبہ بندی نے ایسا ناکارہ بنایا کہ اسی ہسپتال کے سامنے بیسیوں طبی پلازے دن دگنی رات چوگنی ترقیاں کرتے دکھائی دینے لگے۔ کسی کے ذہن میں سوال نہ اٹھا کہ وہی طبیب جو سرکاری ہسپتال میں ناکارہ تو نجی ہسپتال میں ہر قسم کی مہارت سے لبریز کیونکر ہو سکتا ہے۔۔۔؟؟
کوئی یہ راز نہ پا سکا کہ ایک ایک ضلع میں سینکڑوں پرائمری، مڈل، ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکولوں، ان سکولوں میں لاکھوں کی تعداد میں اساتذہ کرام کی موجودگی اورلاکھوں ن، کروڑوں، اربوں اخراجات کے باوجود ضلع کی ایک ایک گلی میں آئے روز نجی سکولوں کی صورت کھلتی تعلیمی دکانوں کی بہتات بھلا کیسے سامنے آرہی ہے جبکہ سرکاری اساتذہ کی تنخواہیں اور مراعات بھی زیادہ، بعد از ملازمت پنشن کی بھی سہولت جبکہ طلباء و طالبات کے لئے فیس کا کوئی جھنجٹ اور ناں ہی آئے روز نت نئے بہانوں سے والدین کی جیبوں پر ڈاکہ زنی کی کوئی واردات؟؟
کسی کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہو پا رہا کہ وطن عزیز کے اکثریتی علاقوں میں زیر زمین میٹھا پانی موجزن ہے۔ اس پانی کو عوام تک پہنچانے کے لئے پبلک ہیلتھ کی صورت میں ایک مخصوص محکمہ موجود کہ جس میں چوٹی کے منصوبہ ساز ماہانہ بنیادوں پر بھاری بھرکم تنخواہیں و مراعات جبکہ بعد از ملازمت اسی ہئیت کی پنشن کی رقم لینے، اس محکمہ کے تحت ایک ایک ضلع میں پانی کی سینکڑوں سکیمیں جاری کرنے کی مد میں کروڑوں بلکہ اربوں روپے کے فنڈز حاصل کرنے کے باوجود، اسی ضلع کے شہری علاقوں میں بوتل بند پانی کی ریکارڈ فروخت ، جبکہ دیہی علاقوں میں نجس جانوروں اور مویشیوں کے ساتھ پانی پیتے اشرف المخلوقات خاموش۔۔۔
سوال کیونکر اٹھ سکتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے نہری نظام کی حامل، پانچ دریاوں کی سرزمین کہ جس کے پہاڑوں پر گلیشئر ز کی بہتات ہے وہاں پانی سے سستی ترین بجلی پیدا کرنے کے بجائے ، مہنگے ترین تیل سے بجلی پیدا کرنے کی مقدار سب سے زیادہ کیوں ہے۔مہنگے ترین کی اگلی منزل یہ کہ پڑوسی ملک میں جو آئی پی پیز پانچ روپے میں فی یونٹ فروخت کرکے خوش و خرم ہیں،ہمارے ہاں وہی بجلی پندرہ روپے فی یونٹ فروخت کرکے بھی آئے روز تڑیاں دیتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ اضافی0 1روپے ؟ اسکا جواب زندہ باد سے اور نہ زندہ جاوید سے پوچھنا ممکن۔۔۔(اس جملے پر معترض سورہ لہب بمع ترجمہ کے ملاحظہ فرمائیں)
چار درجن کی تعداد کو چھوتے بجلی کے منصوبوں میں سے کتنے فعال ہیں اور جو فعال ہیں ان میں سے کتنے اپنی ’’استطاعت ‘‘ کے مطابق اس وقت بجلی پیدا کر رہے ہیں یہ سوال بھی میری جکڑن نے منوں مٹی تلے دبا رکھا ہے۔غیر فعال منصوبوں کی تکنیکی یا فنی خرابیوں کی صورتحال کیا ہے اور انکی درستگی پر کتنے ٹگے خرچ ہونا ہیں ، یہ بھی کوئی پوچھنے کی استطاعت نہیں رکھتا کہ میری جکڑن ٹگوں کی مرمت سے چند دنوں کے اند ر اندر حاصل ہوتی آسودگی سے نہیں، اربوں کھربوں کی لاگت سے کئی کئی سال کی لال بتیوں سے مزین منصوبوں پر تالیاں پیٹنے کی اجازت دیتی ہے کہ بھلا کبھی مرمت پر بھی تختیاں لگا کرتی ہیں؟
ایک سو سے زائد شوگر ملوں کے حامل ملک میں بجلی کا بحران، نیوکلیائی ریاست میں بجلی کا بحران، دامن میں لاکھوں ٹن کوئلہ رکھتی دھرتی پر بجلی کا بحران، اسی دھرتی کے سینے پر لہکتی ہواؤں کے درجنوں مقامات کی مملکت میں بجلی کا بحران، سال کے بار ہ مہینے چٹختی دھوپ کے مزے لوٹتی سرزمین پر بجلی کا بحران۔۔مگر سوال کون اٹھائے کہ یہاں رینٹل پاور کے منصوبوں کو بحران کا حل بتا کر مال بنانا عوامی خدمت تو ان منصوبوں کو چیلنج کرنے والے خود ان منصوبوں میں حصہ دار بن کر سامنے آتے رہے ۔ یہاں نوشہرہ کو ڈوبنے سے بچانے کے دعویدار 2010میں نوشہرہ کو ڈوبتا اور سندھ کی خشک سالی سے خوفزدہ تھر کو پیاس سے مسلسل سسکتا دیکھ کر بھی آنکھوں پر پڑی پٹیاں اور ذہنوں پر پڑے قفل نہ ہٹا پائے۔
تین سو زائد چھوٹے ڈیموں کے وعدے کرتے بزعم خود منصفین بھی چار سال میں چند سو کلو واٹ کی چرخیاں گھما سکے لیکن سوال نہ پہلے کبھی اٹھا اور نہ اٹھ سکتا ہے کہ میری جکڑن ہی ایسی ہے۔
ابھی میری جکڑن نے تازہ تازہ بجٹ اتارا ہے۔۔۔ بیس کروڑ کے بازو مروڑ کر ایک ایک سانس سے ٹیکس نچوڑنے کے عمل کو مزید تیز کرنے کی واشگاف تقریر پر ڈیسک پیٹے گئے ہیں۔ ہفتوں مہینوں نہیں، دنوں بلکہ لمحوں کے حساب سے تھپڑ کھاتے بیس کروڑ میں سے کوئی سوال نہیں اٹھائے گا کہ امسال نچوڑے جانے والے ٹیکس کا کتنا حصہ لانچوں کے ذریعے، کتنا خوبرو حسیناوں کے ذریعے، کتنا قطری شہزادوں کی آڑ میں ، کتنا کولمبو کے کسینوں کے ذریعے کون سے محل، کون سے فلیٹس ،کون سے کارخانے اور کون سی کمپنیاں قائم کرنے میں صرف ہو گا؟
دس ہزار ارب سالانہ کی خرد برد جھیلتی یہ قوم سوال اٹھائے بھی تو کیسے کہ میری جکڑن یہاں پانامہ کے ثبوتوں کو لنگڑانے ، سوئس بنکوں کے حوالوں کو لٹکانے، خیبر بنک کے فسانوں کو جھٹلانے، بنی گالہ کے آستانوں کو بہلانے اور انصافی سپیکر کے اثاثوں کو بچانے کے لئے ،ان تمام سے مستفید ہوتے سورماؤں سے زیادہ ان سورماؤں کے اندھے عشق میں مبتلا انہی کروڑوں اشرف المخلوقات کو استعمال کرتی ہے کہ جنہیں یہی راہزن، راہنماؤں کا روپ دھارتے ہوئے، اشرف المخلوقات کے بجائے تالیاں پیٹتے، نعرے لگاتے اور ووٹ ڈالتے کیڑے بنائے رکھنے کی دہائیوں پر مشتمل تاریخ رکھتے ہیں۔وہی کیڑے جو اپنے ہی خون پسینے کی کمائی کو ہڑپ کرتے، قانونی گورکھ دھندے اور استثنیٰ کے جھمیلوں میں سے نمودار ہو کر وکٹری کے نشان بناتے ان سورماؤں کو کبھی سونے کا تاج پہناتے ہیں تو کبھی اقتدار کا تاج تھما دیتے ہیں۔
لب لباب کیا ہے؟
خود نکالنا چاہیں تو آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ آپ کیڑے نہیں، اشرف المخلوقات ہو اور اگر مجھ سے پوچھیں گے تو میں اپنی جکڑن کی اکڑن میں ایک ہی جملہ کہوں گا کہ ’’ بھگتو۔۔ جیسے کہ بھگتتے چلے آ رہے ہو، بے حسی سے کہیں آگے اکڑن میں جکڑی یہ منزل مبارک‘‘۔

Back to top button