کمائی جولٹ گئی

تحریر : دعا قاضی
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس دور کے’سلطان’ سے کچھ بھول ھوئی ھے،، پتا نھی ساغر فقیر نے یے شعر کس’ مستی’ میں کھا جو ھر دور کے لئےاک سمبل بن گیا اک اشارھ بن گیا،، اس دور کی نھی ھر دور کی یے کھانی ھے جو بار بار رپیٹ ھوتی ھے بلکے ریکیپ ھوتی ھے وھی اسکرپٹ وھی کردار وھی رائیٹر بس چھرے بدل جاتے ھیں ،، ڈکٹیٹرضیاءکے زمانے میں نیوز چئنل ن تھے پر نیوز پیپر آتے تھے سفید کاغذ کی اک پلین اخبار صبح کو ھمیں ملتی تھی جو کالے لفظوں کی بجائے’کالے سینسر’ سے بھری ھوتی تھی جس میں اصل خبر اصل بات جو حکمران کی طبیعت پر گراں گزرتی تھی وھ غائب ھوتی تھی اور ھم بچپن میں سمجھ جاتے تھے کے’اصل خبر’ کیا ھوگی؟ آجکل بس اتنا ھوتا ھے خبر سنسر نھی ھوتی بلکےخبر ھی نھی ھوتی، لوگ لاپتا ھورھے ھیں پر نیوز چئنل کی منہ پر کالا نقاب ھے جو اس بات کا عکاس ھے کے بول کے لب آزاد نھی،لاپتا لوگوں کے وارث سالوں سے اپنے پیاروں کی تصویریں لئی قانون کی ‘اندھےدیوء’ کے سامنے بیٹھ کر بچے سے جوان اور جوان سے بوڑھے ھوگئے آنسو خشک ھوگئے اب تو شاید انکو اپنے پیاروں کی شکلیں بھی بھولنے لگی ھیں بس ھے تو اک دھندلی یاد،کچھ لوگوں کی لاشیں ملتی ھیں تو پھچانی نھی جاتی یا پوسٹ مارٹم رپورٹ میں’حقیقت’ نھی بتائی جاتی’ اگر خوشنصیبی سے کوئی بھولا بسراجان کی امان پاکر لوٹتا ھے تو وھ گونگا بھرا اندھا ضرور بن جاتا ھے’ زینب کی معصوم مسکراھٹ کو چھیننے والے نھی نوچنے والے واقعی میں میڈیا نے لوگوں کو جیسے’حنوط’ کردیاتھاپر میڈیا نے اس دردناک واقعے میں کچھ واقعات کو نگل بھی دیا جیسے کراچی کے ھردلعزیز بیباک فلسفے کے پروفسرحسن ظفرکی پراسرارموت نے جیسے اکبر بگٹی کی موت یاد دلادی جو اپنے عمر کے اس حصے میں مارے گئیے(معاف کریں مارا گیا)جھاں ‘طبعی موت’ کسی بھی وقت آسکتی تھی جن لوگوں نے ظفر کو نزدیک سے دیکھا وھ لوگ کھتے ھیں کے یے شخص عجیب مزاج رکھتا تھاوھ اس دور میں لوگوں کا ساتھ دیتے تھے جب انکو اپنا سایا بھی چھوڑجاتا جس میں بینظیر بھٹو مرتضا بھٹو بھی شامل تھے اور آجکل وھ اس پارٹی میں تھے جن پر آفت اس بات پر نازل ھورھی ھےکے وھ اس قائد کی وفاداری ن کریں جس کو کسی زمانے’ راستا’ کاٹنے والی کالی بلی بناگیا تھا،ظفر کواک استاد کی حیثیت میں اسکے شاگرد جدید دور کا سقراط کھتے تھے اب سقراط ھو اور زھر ن پئے یے ممکن ھی کھا؟ پر سقراط کو زھر پینے کی سزا کس نے دی یھی وھ ‘سوال’ھے جواسکے’طالب علموں’ کو ستاررھی ھے، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے لئی پولیس وھ چیزیں لیبارٹی کو مھیا نھی کرھی جس سے اب پتا چل سکے کے’ قتل’ ھوا ھے تشدد کا کوئی نشان نھی ( ھاں ایسے لوگ راستوں میں مارے جاتے ھیں اور تاریخ کا جبر یے ھے کے ایسی ھی لوگ ‘واجب القتل ‘ ٹھرائے جاتے ھیں ، جو لوگ ڈکٹیٹر کے ھاتھوں نھی مرتے ان کو’نام نھادجھموریت ‘ میں مارا جاتا ھے تو یے جھموری لوگ۔ موت سی خاموشی اپنا لیتے ھیں وھ لوگ جو 12 مئی کو کراچی میں کئی گئے قتل عام پر مکے لھراتے ھوئی قانون کے پکڑ میں ن آسکے جو سانحا بلدیا میں 200لوگوں کے جل جانے پر بول ن پائے جو کے پی کے مشال کے قتل پر انصاف نھی دے پائے جن کو عورتوں کے برھنا کرنے پر کچھ نھی کھا گیا اورتواور اس ملک کی دختر جو دختر مشرق بھی تھی لوگوں کے بیچ میں قتل کردیا گیا اور طالبان نے اس قتل کی زمیواری ن صرف قبول کی بلکے اک قاتل کے زندھ ھونے کا بھی بتادیا اب کون بتلائے کے ان مظلومین کےخون کا حساب کون دیگا کون لیگا؟ باقی ان لاشوں پر سیاست چمکاکر تاریخ بنانے والے یے بھی سوچ لیں تاریخ کے بھی دو پلڑے ھوتے جس میں ایک پلڑا اگر ماضی کامورخ لکھتا ھے تو فیصلا مسقبل کا مورخ کرتا ھےپراس ملک کی بدنصیبی ھے کے یھاں تاریخ بھی وھی لکھتے آئے ھیں جن کو تاریخ بگاڑنے کاحد درجے کاشوق ھوتاھے اب تو بس دیکھنا ھے کے آج کی تاریخ میں کون کون وضاحتیں دے کراپنے اپنے پیاروں کے قتل کو طبعی موت قرار دے اور لاپتائوں کو خود ب خودگئےتھے اور خود بخود آئےھیں کا کھ کر اپنی ‘جان’ کی امان پائے گیں ۰۰۰!