کھیلن کو مانگے چاند
تحریر : عابد ایوب اعوان
میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیا کو شاباشی کہ پاکستانی سیاست کو عام آدمی کی پہنچ تک ایسے پہنچا دیا ہے کہ اب کوئی بھی سیاسی معاملہ ہو تو ہر خاص و عام کی بحث کا مرکز بن جاتا ہے۔ جو باتیں پہلے صرف ڈرائنگ روم کا حصہ ہوا کرتی تھیں اور چند لوگ اپنا کھیل کھیل کر اپنے مفاد کے مطابق فیصلے کر کے باقی عوام کو ڈگڈگی بنا کر نچاتے تھے اب ویسا ممکن نہیں رہا۔ میڈیا کی بدولت اب تو وطن عزیز کی سیاست گھر گھر کے بیڈ روم کا حصہ بن چکی ہے بلکہ سوشل میڈیا کی وجہ سے تو اب کوئی بات ڈھکی چھپی رہ ہی نہیں سکتی۔ رات کے اندھیروں میں ہونے والی چہ مگوئیاں اور سرگوشیاں اب صبح ہوتے ہی سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوتی ہیں۔ اب تو چاہے کوئی سیاستدان ہو جج یا جرنیل ہو، ٹی وی اسکرین پر بیٹھا بھاشن دیتا ہوا صحافی ہو یا کوئی اور مشہور و معروف شخصیت ہو کسی کی بھی ذاتی زندگی میں رونما ہونے والی بات بھی لمحوں میں عام لوگوں کی زبان اور بحث میں شامل ہو جاتی ہے۔ خیر چھوڑیں سب باتوں کو آجکل تو ملک کے ایوان بالا میں ہونے والے تازہ تازہ انتخابات کے ہی چار سو بڑے چرچے ہیں کہ کسطرح سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے گھوڑے دوڑا کر پیسوں کی بوریوں کے منہ کھول کر ہارس ٹریڈنگ کی۔ ن لیگ ہو پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف ہو سب نے اپنا اپنا حصہ خوب بٹورا۔ وطن عزیز میں پائی جانیوالی ہر سیاسی جماعت کا مقصد اقتدار کی غلام گردشوں میں جا کر بیٹھنا ہی ہے۔ ہر سیاسی جماعت جمہوریت کا ڈھنڈورا تو خوب پیٹتی ہے مگر بدقسمتی سے ہر سیاسی جماعت کا طرزعمل اس حقیقت کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہے کہ وہ جمہوریت کے اصل راستے پر گامزن ہے۔ راستہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری انکی منزل اقتدار کی ہوس ہی ہے۔ حالیہ سینیٹ کے انتخابات کو ہی دیکھ لیں کسطرح ان سیاسی جماعتوں نے سینیٹ میں اپنے اپنے امیدواروں کو جتوا کر سینیٹ میں اپنی نشستوں کی تعداد ذیادہ سے ذیادہ بڑھانے کے لیئے ہر حربہ استعمال کیا۔ تحریک انصاف نے پنجاب میں چوہدری سرور کو سینیٹر منتخب کروانے کے لیئے اپنے اصل امیدواروں سے ذیادہ ووٹ حاصل کیئے تو کے پی کے میں پیپلز پارٹی نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر سینیٹر منتخب کروا لیئے۔ پنجاب میں اپنی پارٹی سے وفاداری کا حلف لینے کے باوجود ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے کچھ ارکان اسمبلی کے ووٹ اپنی جماعت کی بجائے کسی اور کے بیلٹ پر ٹھپے لگ کر پڑے تو سندھ میں ایم کیو ایم کے امیدوار کیوں کسی سے پیچھے رہتے۔ سیاست کے اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ کے پی کے کے وزیر اعلی پرویز خٹک کے دست بازو شاہ محمد نے بھی تو پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا جس کو پرویز خٹک نے مردان میں تحریک انصاف کی باقی ڈویژنل اور مقامی قیادت کو نظر انداز کر کے ہر فیصلے کا اختیار سونپ کر بااختیار کیا ہوا تھا۔
اسٹیٹس کو اور اقتدار کے ہمک پر آزمائی ہوئی دو سیاسی جماعتیں ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یا پھر کپتان کے بکاو کھلاڑیوں پر مشتمل تحریک انصاف ہو سب کا مقصد اور کھیل پاور پالیٹکس ہی ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اقتدار کے لیئے ماضی میں بھی ایکدوسرے کو سپورٹ کرتی آئی ہیں اور اب مستقبل میں بھی ایکدوسرے کا ہاتھ تھامنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کریں گی۔ اب تو زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے والے ن لیگ کے صدر بھی بن چکے ہیں مگر پھر پھی اقتدار ایسا نشہ ہے کہ انسان اپنی زبان اور الفاظ کا پاس رکھے بغیر اقتدار کے لیئے سڑکوں پر گھسیٹنے والوں کو گلے بھی لگا لیتا ہے اور بوقت ضرورت پاوں بھی پکڑ لینے میں عار محسوس نہیں ہوتی کیونکہ مقصد اقتدار کی ہمک پر براجمان ہو کے بیٹھنا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات مکمل ہونے کے بعد اب اگلے مرحلے میں سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں پر بھی ان دونوں مذکورہ سیاسی جماعتوں کے مابین بات بن سکتی ہے۔ ویسے زرداری صاحب سیاست کے گرو مانے جاتے ہیں اور سینیٹ میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنا حصہ لینے کے بعد انکی اگلی سیاسی چال سینیٹ میں اپنا چیئرمین دوبارہ منتخب کرانے کی ہی ہے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد والی پیپلز پارٹی کو زرداری نے دوبارہ اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اگلے انتخابات میں پیپلز پارٹی اپنا اچھا خاصہ حصہ لینے کی پوزیشن میں ہوگی۔ زرداری صاحب کی سیاسی دانشمندی کو دیکھتے ہوئے اس بات میں کوئی بعید نہیں کہ زرداری صاحب کی کہی ہوئی بات درست ہو جائے کہ 2018 کے انتخابات کے بعد انکی مرضی کا ہی وزیراعظم بنے گا۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ سینیٹ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی ہی وہ جماعت ہے جس کے ہر رکن اسمبلی نے اپنی پارٹی کے سینیٹ کے امیدوار کو ہی ووٹ ڈالا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے منتخب ہونے والی سینیٹر کرشنا کوہلی مبارکباد کی مستحق ہیں جن کو پیپلز پارٹی نے سینیٹر منتخب کروا کر ایک اچھی مثال قائم کی ۔ تحریک انصاف کو کپتان کے بکاو کھلاڑیوں پر مشتمل جماعت اسلیئے کہا کہ "کپتان اچھا ھو تو کھلاڑی نہیں بکتے”
کچھ یاد آیا یہ کس نے کہا تھا ؟
اب ہم کیا کہہ سکتے ھیں؟
خود ہی فیصلہ کر لیں۔ کپتان کے سیاسی بیانیے کے مطابق اگر لیڈر کرپٹ اور بکنے والا نہ ہو تو نیچے والے خود ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ بنی گالہ میں پریشانی اور غصے کے عالم میں بیٹھ کر کپتان اپنے کھلاڑیوں کی سینیٹ انتخابات میں بکنے کی رپورٹ کا صرف جائزہ ہی لیتے رہیں گے یا انکو ٹھیک کرنے کا کوئی بندوبست بھی کر پائیں گے۔ کپتان کو تو اپنے کھلاڑیوں سے شکوہ بھی نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ جب کپتان خود ہی اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو ووٹ ڈالنے کی بجائے بنی گالہ کے محل میں بیٹھ کر اپنی ذات کے غرور اور تکبر میں مبتلا ہو کر بیٹھا رہے اور اپنے کھلاڑیوں کو ووٹ ڈالنے جانے کو اپنی توہین سمجھتا ہو تو پھر کھلاڑی بک بھی جائیں تو شکوہ کیسا شکایت کیسی ؟ کپتان کو پیپلز پارٹی کی روبینہ قائم خوانی سے سیاست سیکھنی چاہیئے جس نے اپنے جواں سالہ بیٹے کے لاشے کو گھر میں چھوڑ کر اپنی پارٹی سے وابستگی اور کمٹمنٹ کو نبھاتے ہوئے اسمبلی میں جا کر ووٹ ڈال کر اپنا فرض ادا کیا۔ خیر کپتان تو اس سے پہلے بھی اسلام آباد میں اپنے ایک دھرنے کے دوران بنی گالہ سے نیچے نہیں اترا تھا اور بیچارے کھلاڑی اپنے کپتان کی آمد کا انتظار ہی کرتے رہے جس کا گلہ کپتان کے ہم خیال اور سیاسی ساتھی شیخ رشید نے بھی برملا کیا۔ کپتان اس سے پہلے اپنے وزارت عظمی کے امیدوار کو ووٹ ڈالنے بھی نہیں گئے تھے اگرچہ کہ کپتان نے وزارت عظمی کا امیدوار بھی تحریک انصاف کی بجائے شیخ رشید کو ہی منتخب کیا تھا۔ کپتان جب خود وزیر اعظم کا خواب اپنی آنکھوں میں سجا کر بیٹھا ہو تو ایسے میں چاہے ووٹ اپنے ہی منتخب کردہ امیدوار کو ہی دینا ہو مگر اپنی ذات کے غرور کو کیسے توڑا جا سکتا ہے جب کہ اس امیدوار بیچارے کی ہار بھی یقینی ہو۔ اب تو بس یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند۔