تاریخکالمیادیں اور یادگاریں

نیلوفر خان کا منفرد اور اچھُتا کالم ’’دی گریٹ راجپوتانہ‘‘

نیلاب
نیلوفر خان
’’دی گریٹ راجپوتانہ‘‘
_____________
راجپوتوں کا گڑھ عظیم و عالی شاہ راجپوتانہ جسے اب راجھستان کہا جاتاہے۔ راجھستان کا پرانا نام راجپوتانہ تھا جس کا مطلب ہے بادشاہوں کی سر زمین ۔ راجپوتانہ میں بے شمار بادشاہوں نے جنم لیا مگر اس خطے میں پیدا ہونے والے راجپوت بادشاہوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی ۔ یہ نام ہندو راجپوت راجاؤں کی نسبت سے صدیوں پہلے رکھا گیا۔ یہ اسراروں بھری سرزمین رقبے کے لحاظ سے انڈیا کی سب سے بڑی ریاست ہے جو کہ شمالی انڈیا پر پھیلی ہوئی ہے ۔راجپوت ہونے کی حیثیت سے راجپوتانہ کو مقدس گر دانتی ہوں ۔
میرا دل نہیں کہتا راجپوتانہ کو راجھستان کہنے کو اس لئے میں شاید راجھستان لفظ کم استعمال کروں گی۔ جے پور راجھستان کا دارلحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ راجھستان 33 اضلاع پر مشتمل ایک بڑی ریاست ہے جو آج بھی اپنے مکمل جاہ وجلال کے ساتھ انڈیا کے مغربی کنارے پر پھیلی راجپوتوں کی تاریخ کو حال سے جوڑے ہوئے ہے ۔ صحرائے تھر جسے Great Indian Desert کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ یہ ستلج اور دریائے سندھ سے جڑی وادی کے بارڈر کو پاکستان کے ساتھ مغربی جانب جوڑتا ہے ۔ راجپوتانہ کہیں پر ریت کی چمک اور کہیں Abu Parvat جیسے خوبصورت ہل اسٹیشن کی وجہ سے خوبصورتی کا زبردست شاہکار ہے ۔ ابوپروت ضلع Sirohiمیں واقع ہے ۔ ابور پروت کا پرانا نام Arbudaranchal ہے ۔ جو کہ ہندو متھالوجی کے مطابق Arbuda کے Nandi کی زندگی کو بچانے کی وجہ سے مشہور ہوا۔ راجپوتانہ کی ایک اور اہم چیز Delwara جین مندر ہیں ۔ یہ اس قدر خوبصورت اور عالی شان ہیں کہ انسان خود کو سحر زدہ محسوس کرنے لگتا ہے ۔ ابو پروت پر موجود یہ مندر گیارہویں سے تیرھویں صدی ( عیسویں ) کے درمیان Vastupal Tejpal نے بنوائے ۔ یہ دور سنگِ مرمر کے زبردست استعمال کے لئے بہت مشہور ہے۔ یہ پانچ لیجنڈری مندر اپنی خوبصورتی کا کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔ ان مندروں کی مکمل تاریخ اور ہندو دھرم میں ان کی مذہبی اہمیت کو ایک کالم میں بیان کرنا نامکمن ہے ۔ وادی سندھ کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے ان علاقوں پر مشتمل تھی۔ جو آج راجھتسان کا حصہ ہیں ۔ kalibangan جوکہ ضلع ہنومان گڑھ میں ہے ۔ صوبائی دارلحکومت تھا۔ دریائے سندھ کی تہذیب اب پاکستان کا حصہ ہے ۔ یہ مانا جاتا ہے کہ-35 405 قبل مسیح میں Saka حکمران تھے ۔ Meenas ، Dhils ، زیادہ راجپوت اور راجپروہتی خاندانوں نے راجھستان کی تہذیب و تمدن اور سرزمین کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا اور اس سلسلہ میں بے جا مشکلات کا سامنا بھی کیا۔ لاکھوں راجپوت جانبازوں نے اپنی سرزمین کی حفاظت کے لئے اپنی قیمتی جانوں کا دان دے دیا ۔ ایشیاء کا سب سے بڑا قلعہ چتر گڑھ بھی راجھستان میں واقع ہے ۔ اس خوبصورتی اس پورے خطے کو روشن کئے ہوئے ہیں ۔ گرجار پرتیہار سلطنت نے آٹھویں سے گیارہویں صدی میں عرب گھُس بیٹھیوں کی زبردست طریقے سے روک تھام کی ۔ R.C Majumder کہتا ہے اس بات کو عرب مورخ کھلے عام تسلیم کرتے ہیں کہ نانڈیا میں مسلمان اتنی جلدی قابض نہیں ہو سکے تھے جتنی جلدی دنیا کے باقی حصوں پر قابض ہو گئے تھے ۔ اس کی وجوہات میں ہندو راجاؤں خاص کر راجپوت راجاؤں کی زبردست مزاحمت تھی۔ راجپوتانہ کاایک اور اہم قلعہ مہران گڑھ جود پور میں واقع ہے جو راؤ جودا نے1459 ء میں تعمیر کروایا ۔ قدیم جنگجوؤں اور اس سرزمین کے محافظوں Meenas ، Gurjars ، Ahirs ، Bhils اور جاٹ تاریخ کے دھند لکوں میں گمہو گئے اس کی وجہ راجپوتوں کے معرکوں کو زیادہ پسند کیاجانا اور ان کی بہادری کے قصوں کو بے انتہا فروغ دینا تھا۔ اس طرح بعد کے راجپوت جنگجو نہ صرف زیادہ اہمیت اختیار کر گئے بلکہ ان ہی کی نسبت سے اس کطے کو راجپوتانہ کا نام بھی ملا۔
جدید راجھستان میں زیادہ تر راجپوتانہ کے علاقے شامل ہیں جن میں 19 شاہی ریاستیں ، دو چیف شپ اور برطانوی ضلع اجمیر۔مروارا ، مروار(جودپور) Dikaner ، میوار ( اودھے پور) ، الوار اور Dhundhar (جے پور ) بڑی راجپوت شاہی ریاستیں تھیں ۔ ان میں بھارت پور اور ڈھول پور جاٹ شاہی ریاستیں تھیں جبکہ ایک ریاست Tonkمسلمان نواب کے پا س تھی۔
راجپوت خاندان چھٹی صدی(CE ) میں اُبھر کر سامنے آئے ۔ راجپوتوں نے مسلمانوں کے حملوں اور اس علاقے میں مداخلت کے خلاف بہادرانہ مزاحمت کی ۔ اور یہاں کی تہذیب اور سرزمین کی حفاظت کی ۔ یہ راجپوت ہی تھے جنہوں نے عرب حکمرانوں سے پانچ سو سال تک اس سرزمین کو بچائے رکھا۔ راجپوتوں نے مغلوں کے خلاف سخت مزاحمت کی اور ان ہی کی وجہ سے مغلوں کو برصغیر پر قبضہ کرنے میں بہت وقت لگ گیا۔ گو کہ بعد میں مغلوں نے اپنی قابلیت اور Treachery کے مناسب ملاپ کے ذریعے شمالی انڈیا بشمول راجپوتانہ کو بھی اپنے قبضے میں کر لیا ۔ میوار دوسری سلطنتوں میں بیرونی حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔ مغل سلطنت کے بانی بابر کے خلاف رانا سنگھا کی Khanua جنگ بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ راجپوتانہ کی عظیم سرزمین میں پیدا ہوانے والے کس کس عظیم راجا کا تذکرہ کیا جائے سب ایک سے بڑھ ایک مہا یودھا ( جنگجو) تھے ۔ سمراٹ ہیم چندرا وکرم ادیتیا ایک عظیم ہندو شہنشاہ جسے انڈیا کی تاریخ میں ہیمو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ 1501 ء میں Machheriکے گاؤں جو کہ الوار ضلع میں واقع ہے میں پیدا ہوا ۔ سمپراٹ ہیمو 22 نے جنگیں افغان حملہ آوروں کے خلاف جیتیں پنجاب سے بنگال تک اور دو بار اکبر کی افواج کو آگرہ اور دلی میں ( 1556 ء ) زبردست شکست دی ۔ تخت دلی تک پہنچنے سے پہلے شمالی انڈیا میں ہندو راج قائم کیا ، 7 ۔ اکتوبر 1556 ء کو اکبر کو شکست دینے کے بعد اس کی پرانا قلعہ میں تاج پوشی ہوئی اگرچہ کم وقت کے لئے ۔ سمراٹ پانی پت کی دوسری جنگ میں مارا گیا ۔ مہا رانا پرتاب آف میوار نے 1576 ء میں اکبر کے خلاف ایک مشہور جنگ ہلدی گھاٹی لڑی اور زبردست مزاحمت کرتے ہوئے پہاڑی علاقے پر اپنا اثر جمایا ۔ اٹھارویں صدی میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد ارجپوتانہ مراٹھوں کے زیر اقتدار آگیا ۔ انیسویں صدی میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے مراٹھوں کو ٹھکانے لگایا مطلب اوقات پہ لا کر رکھا ۔ انیسویں صدی میں راجپوتوں نے اس قدیم مقولے ’’ دشمن کادشمن آپکا دوست ہوتاہے ‘‘ کا مفہوم سمجھا اور انگریزوں کاساتھ دیا ۔ اور یوںیہ ایک بار پھر سے پہلے اپنے وطن سے مغلوں اور اپنے پہ قابض مراٹھوں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ دشمن کے دشمن کو دوست بنانے میں ہی فائدہ تھا۔راجپوتانہ کئی بادشاہوں کا مسکن رہا ہے ۔ راجپوتانہ میں ان راجاؤں نے عظیم و عالی شان محل ،حویلیاں اور جین مندر تعمیرکروائے ۔ راجپوتانہ کا کلچر بہت وسیع اورآرٹسٹک ہے یہ قدیم انڈین تہذیب کا روشناس ہے ۔ یہاں کی لوک تہذیب جو گاؤں گاؤں اور ہر ریاست میں الگ الگ رنگوں میں رنگی ہے ، یہاں کے لوگ گیت ، کہانیاں ، روزمرہ کے رشتے ناطے ، پانی کے کنویں، تالاب ، مندروں کی گھنٹیاں ، مندروں ، محلوں ، حویلیوں اور قلعوں کی دیواروں پر بنی انمول تصاویر دنیا کے کسی اور خطے کو میسر نہیں راجھستانی ثقافت دنیا بھر میں بہت پسند کی جاتی ہے ۔ یہاں کے لوگوں کا لباس پہننے کا طریقہ ، رنگا رنگ کھانے ، گھومر ڈانس ، سارنگی کی آواز یہ سب چیزیں سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہیں۔ انڈیا میں جانے والے ہر سیاح کی خواہش ہوتی ہے وہ راجھستان کی سیر کرے ۔ بھارت ، پاکستان ، بنگلہ دیش، سری لنکا سمیت اور خطے کے دیگر ممالک کی حُب الوطنی کی عمر ابھی ستر سال بھی نہیں ہوئی ۔ بلاشبہ ہم راجپوتوں کا نظریہ حُب الوطنی بہت مختلف ہے ۔راجپوتوں کی حُب الوطنی صدیوں پر محیط ہے ۔راجپوتوں کی حُب الوطنی سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتی ۔بلا شُبہ صدیوں کی حُب الوطنی ستر سال کی حُب الوطنی سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔اور اس کا رنگ کبھی پھیکا نہیں پڑ سکتا ہے ۔

Back to top button