تاریخکالم

دبئی سے سکوتِ حیدر آباد دکن کے پس منظر میں جناب اعجاز شاہین کی فکر انگیز تحریر

اک فلسفہ ہے تیغ کا اور اک سکوت کا
سید اعجاز شاہین
خاندان آصفیہ کے پاس سات پشتوں کی کامیاب حکمرانی کا تجربہ،اور درخشاں تہذیب و ثقافت کی ڈھائی سو سالہ تاریخ تو تھی مگر ریاست کا جغرافیہ ایسا تھا کہ چاروں طرف مخالف قوت کا نرغہ تھا۔ یہ علاقہ ہر طرف سے land Locked تھا۔ اس صورتحال میں حیدرآباد کا ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے باقی رہنابعید از امکان تھا ۔ خیر خواہوں نے اعلی حضرت کو مشورہ دیا کہ کم ازکم ریاست کی مشرقی سرحد پر واقع مسولی پٹنم کی بندرگاہ ہی خرید لی جائے تاکہ بیرونی دنیا سے مواصلت اور رسد کا کوئی تو راستہ کھل جائے۔مگر دنیا کے اس امیر ترین شخص کی دور اندیشی اور بصیرت ملاحظہ فرمائیے کہ یہ تجویز نامنظور کردی گئی ۔ عمائدین سلطنت بھی غالبا اسی خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کے اعلی حضرت کی حکومت دائمی رہے گی۔ کبھی اس پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ چنانچہ راوی کو چاہئیے کہ بس چین ہی چین لکھتا رہے۔ عباسی خلیفہ مامون الرشیدکے دربارمیں ایک بوڑھے شاعر کو لایا گیا۔ خلیفہ نے اس سے کہا کچھ نصیحت کرو۔ کہا نصیحت تمھارے لیے یہ ہے کہ حکومت کرتے ہوئے ہمیشہ یہ خیال رہے کہ تمھارے ہاتھ میں یہ حکومت ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔مصاحبین بوڑھے کا مذاق اڑانے لگے کہ بڑے میاں کا شاید دماغ چل گیا ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ہمارے خلیفہ کی حکومت اتنی مضبوط ،اتنی وسیع ہے۔بھلا یہ کیسے کبھی ختم ہو سکتی ہے۔بوڑھے شاعر نے کہا” حکومت اگر کسی کے پاس ہمیشہ رہنے والی چیز ہوتی تو تمھارے پاس کیسے آسکتی تھی۔ یہ پہلے کسی اورکے پاس تھی، کسی اور سے تمھارے پاس آئی ہے، کل تمھارے پاس سے کسی اور کے پاس چلی جائے گی۔پچھلی صدی کے تیسرے عشرے سے یہی ریاست کے خلاف اندرونی اور بیرونی شورشیں یکے بعد دیگرے سر اٹھارہی تھی۔حیدرآباد میں پچھلے مہینے کی 21 تاریخ کو دہشت گردی کا واقعہ ہو تھا جس نے 17 جانیں لے لیں۔ مگر کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ حیدرآباد کی تاریخ میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ 6 دسمبر 1947 کو پیش آیا تھا۔جس کا ہدف اعلی حضرت تھے۔وہ باغ عام کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرکے موٹر میں اپنی کوٹھی کو واپس ہو رہے تھے کے راستے میں نارائن راو پوار نامی آریہ سماجی نے بم پھینکا ۔اعلی حضرت کو تو اللہ تعالی نے محفوظ رکھا مگر دوسرے پانچ آدمی دھماکے کی زد میں آگئے۔نارائن راو پوار ابھی ڈھائی سال پہلے فوت ہوا ہے۔ دہشت گردی کے کارنامے پراسے فاشسٹ ہندو تنظیموں نے بھگت سنگھ آف حیدرآباد کا خطاب دیا۔
حالات روز بروز مخدوش ہوتے جارہے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پوری دنیا کا منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا ۔شخصی حکومتیں جمہوریت یا نیم جمہوریت میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ مگر نوشتہِ دیوار پڑھنے کا کسی کو دماغ نہ تھا۔آخر وہ
مر حلہ بھی آگیا کہ انڈین یونین کی افواج نے چاروں طرف سے ریاست کا گھیراو کر لیا۔حیدرآباد کی افواج کی کمان ریاست کے آرمی چیف جنرل عیدروس کے ہاتھ میں تھی۔ یہ نااہل، نکما اوراعتماد شکن جنرل کوئی مزاحمت کرنا تو درکنار ، اسلحہ کی جو رسد پہنچی تھی اس نے ان کی پیٹیاں تک نہیں کھلوائیں۔مگر اعلی حضرت کو برابر جھوٹی رپورٹیں بھیجتا رہا کہ سب ٹھیک ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ جنرل عیدروس کی بیوی ایک یہودی عورت تھی۔مسلمانوں نے قاسم رضوی مرحوم کی زیر قیادت رضاکاروں کی شکل میں مجتمع ہو کر ضرور قربانیاں دیں۔مگر رضا کار کوئی تربیت یافتہ فوجی تو تھے نہیں۔ نہ ان کی کوئی مرکزی کمان تھی۔ ایک غیر مربوط،منتشر، نا آزمودہ کار بھیڑ تھی۔جس میں جوش اور جاں نثاری تو تھی مگر تربیت اور تنظیم کا فقدان تھا۔
میر سپاہ نا سزا لشکریاں شکستہ صف
آہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
رضاکاروں کے یہ غیر منظم جتھے بھلا ایک تربیت یافتہ، منظم ، پروفیشنل اور کیل کانٹے سے لیس فوج کا کیا مقابلہ کرتے۔بس رضا کاروں نے بہ جوش میں قربانیاں دیں اور کہانی ختم ہو گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست حیدرآباد کا سقوط ہوا اور وہ انڈین یونین میں ضم کر لی گئی۔وسائل کی ارزانی اور دولت کی فراوانی اور بہترین دماغوں کی ریاست میں موجودگی کے باوجود آصف سابع نواب میر عثمان علی خان مرحوم اپنی ریاست کو بچا نہ سکے۔ نہ وہ عسکری محاذ سے اس کا دفاع کرسکے نہ سیاسی اور سفارتی سطح پر۔ر یاست کی سرحدوں کی حفاظت خیر خیرات ،داد و دہش اور ِ علم و ادب کے دبستانوں سے نہیں بلکہ فوجی اور سیاسی طاقت سے کی جاتی ہے۔اعلی حضرت نواب میر عثمان علی خاں کے آبا و جد جہاں علم اور اہل علم کے قدردان تھے وہیں میدانِ حرب کے آزمودہ کار سپاہی بھی تھے۔انھوں نے طاقت کے ذریعہ ریاست حاصل کی اور طاقت کے ذریعہ اس کی حفاظت کی،طاقت کے ذریعہ اسے قابو میں رکھا۔ انہوں سے تلوار سے رفاقت رکھی اور تلوار نے ان کی پاسبانی کی۔
اک فلسفہ ہے تیغ کا اور اک سکوت کا
باقی جو ہے سو تار ہے بس عنکبوت کا
ریاست ٹوٹتے ہی دکن کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ہم نے اپنے بزرگوں سے اس پر آشوب دور کے ایسے ایسے خوفناک اور درد ناک قصے سنے ہیں کہ بیان سے باہر ہیں۔ایک بابری مسجد کا انہدام آج دنیا بھر میں مشہور ہے۔ پولیس ایکشن میں کئی مساجد ڈھادی گئیں، کئی ایک کو مندروں میں تبدیل کر لیا گیا۔ معروف صحافی اور بزم قلم کے ایک اہم ممبر اعجاز ذکاسیدصاحب نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ سقوط حیدرآباد کے بعد کے مسلم کش فساد میں جتنے مسلمان مارے گئے اتنے جمہوری ہندوستان کی تاریخ میں کسی اور فساد میں نہیں مارے گئے۔باوجود اس کے کہ کانگریس جیسی ” سیکولر” جماعت اس وقت حکمراں تھی ۔باوجود اس کے کہ سفیر امن رسول السلام پنڈت جواہر لال نہرو ملک کے وزیر اعظم تھے ، باوجود اس کے کہ امام الہند مولانا ابولکلام آزاد خویشِ خسرواں میں شامل تھے۔(مولانا کی ایک تصویرکی بہت تعریف کی گئی ، جس میں وہ پنڈت جی اور گاندھی جی کے ساتھ راز و نیاز میں مصروف ہیں۔اس تصویر کو میں نے جب بھی دیکھا خندہ زیرلب کے ساتھ دیکھا۔
سقوط حیدرآباد کا سانحہ ایک پوری نسل کے لا شعورمیں سرائیت کر گیا۔ ہر طرف شکست خوردگی اور ناامیدی کے مہیب بادل چھائے ہویتھے ۔جو کل تک حکمران تھے راتوں رات محکوم،مغلوب اور معتوب بن گئے۔ اس نسل کے نزدیک یہ سانحہ ایک عہد کا خاتمہ اور دوسرے عہد کا آغاز تھا۔عمروں اور تاریخوں کا تعین کرنے کے لیے یوں کہنے کا رواج چل پڑاکہ فلاں شخص ا یکشن کے اتنے سال پہلے پیدا ہوا، یا فلاں کا انتقال ا یکشن کے اتنے سال بعد ہوا۔ مسلمانان دکن کو اس صدمہ سے نکلنے میں بہت دیر لگی۔ یوں ریاست حیدرآباد کے حکمرانوں کی کمزورحکمت عملیوں کا خمیازہ حکمرانوں کو ہی نہیں بے چاری مسلم رعایا کو بھی بھگتنا پڑا۔اب تک بھگت رہی ہے۔آج بھی مسلمانوں کو یوں دیکھا جاتا ہے گویا یہ رضا کار نہ سہی رضاکاروں کی باقیات تو ہیں۔
تاریخ کے سرسری مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حکومتوں کا زوال اس وقت شروع ہو جاتا ہے جب تلوار پر ان گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے۔بابر ایک معمولی سی جمعیت لے کر ماوراالنہر سے منزلیں مارتا ہوا ہندوستان پہنچا۔یہاں اپنی فوج سے کئی گنا بڑی فوج سے اس کا سامنا ہوا۔ ابراہیم لودھی کی اتنی بڑی فوج کو مقابلے پر دیکھ کرخود اس کے سرداروں کے حوصلے پست ہونے لگے۔مگر بابر نے ان کا حوصلہ بڑھایا۔ پھر کیا ہوا؟ عزم ،استقلال اور دلیری کے ساتھ ساتھ بہترین عسکری و سیاسی حکمت عملی نے کشور ہندوستان کے دروازے کئی صدیوں تک کے لیے مغلوں کے لیئے کھول دیے تھے۔ شاہ جہاں تک آتے آتے مغلیہ ہندوستان روح زمین کا سب سے دولتمند اور خوشحال ملک بن چکا تھا۔ اس عہد میں حال یہ تھا اقصادی عالم کا تمام قوموں کی سب سے بڑی آرزو یہ ہوتی کہ کسی طرح ہندوستان پہنچ جائیں تو زندگی بن جائے۔ بے چارے کولمبس کے ساتھ جو پیش آیا ہم سب جانتے ہیں۔ غریب کو تو جانا تھا ہندوستان۔مگر لے جانے والوں نے اس کے ساتھ دھوکا کیا اور امریکہ کی زمین پر لے جا کرپٹخا کہ چلو اترو یہی ہے تمھارا ہندوستان۔ میاں کولمبس خوشی سے پھولے نہیں سمائے ، اپنے خوابوں کے "ہندوستان” کی سیر کرنے اور وہاں کے سرخ ہندوستانیوں کاا نٹرویو کرنے میں مشغول ہو گئے- ۔ خیر یہ توایک جملہ معترضہ آگیا۔ ذکر چل رہا تھا عہد شاہجہانی کا۔حد سے بڑھی ہوئی عیش و آسائش کی زندگی قوموں کو تن آسان اور آرام پسند بنا کر تلوار سے ان کا رشتہ کمزور کردیتی ہے۔ اس وقت کے حالات جیسے کچھ تھے ان کی روشنی میں تو شاہجہاں کے ساتھ ہی مغلیہ حکومت کا خاتمہ ہو جانا تھااگر اس کی اولاد میں اورنگزیب عالمگیر جیسا سخت کوش اور مہم جو نہ ہوتا۔اورنگزیب نے حالات پر کامیابی سے قابو پا لیا۔لیکن خاندان تیموریہ میں پھر کوئی اورنگ زیب جیسا صاحب سیف و قلم نہیں آسکا۔ سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر( بادشاہوں کی تاریخ میں یہی ایک بادشاہ ہے جس کانام ہمیشہ اس کے تخلص کے ساتھ آتا ہے) کو فرنگی گرفتار کرکے جہاز میں رنگون لے جارہے تھے۔صبح کا وقت ، بڑی خوشگوار اور خنک فضا۔ بہادر شاہ ظفر ایک شاعر بھی تھااور ظاہر ہے کہ جمالیاتی حس بھی رکھتا تھا۔، اس کیف آگیں منظر کو دیکھ کر اپنے خادم سے ارشاد فرمایا،ایک بڑے عرصے کے بعد ایسی صبح دیکھ رہا ہوں۔خادم نے عرض کیا حضور ظل سبحانی! اگر آپ کو ہر روز اٹھ کر ایسی صبح دیکھنے کی توفیق ہوتی تو آج یہ منحوس صبح دیکھنے کی نوبت نہ آتی۔ ظل سبحانی ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئے۔
بنوعباسیہ کو بھی اقتدار بیٹھے بٹھائے نہیں ملا تھا۔اپنے حریفوں کے ساتھ ان کے معرکوں کی لمبی تاریخ ہے۔ مگر ان پر ایک دور ایسا آیا کہ خلیفہ نے موصل کے گورنر کو حکم دیا میرے محل کے لیے گانے والوں کا ایک نیا طائفہ بھیجو۔پرانے سے میرا دل سیر ہو گیا ہے۔ خلیفہ کے حکم کی تعمیل ہوئی۔شہر کے ایک دروازے سے گویوں اور سازندوں کا طائفہ داخل ہوا اور دوسرے دروازے سے تاتاریوں کا ٹڈی دل لشکر۔آنے والے دنوں میں عروس البلاد بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی،ساڑھے چار لاکھ مسلمان تہ تیغ کر دیے گئے۔ الف لیلوی ثقافت سے معمورشہر کے کوچے و خیابان تاتاریوں کے خوف کے شکنجے میں جکڑ دیے گئے۔ بغداد کے عظیم الشان کتب خانوں کی بیش قیمت کتابوں سے دریائے دجلہ کو پاٹ دیا گیا۔ ایک جگمگاتا ہوا تمدن تھا کہ تاتاری شہسواروں کے گھوڑوں کے ٹاپووں تلے دیکھتے ہی دیکھتے روند ڈالا گیا۔ وحشی اور اجڈ تاتا ریوں نے ثابت کردیا کہ فتح و شکست کے فیصلے فلسفیانہ مو شگافیوں سے نہیں تلوار سے ہوتے ہیں۔
اس طرح دنیا میں کتنی بادشاہتیں آئیں اور کتنی چلی گئیں۔ فراعنہ مصر، سلاطینِ روما، وکسرائے فارس۔ سب کی سلطنتیں اپنی آب و تاب دکھا کر معدوم ہو گئیں۔
آ تجھ کو بتاوں میں تقدیرِ امم کیا ہے شمشیر و سناں اول طاوس و رباب آخر
ہمیشگی اور دوام توبیشک صرف اللہ کی بادشاہت کو ہے مگر قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر اس سے زیادہ مختصر مکمل، اور حقیقی تبصرہ کیا ہو سکتا ہے جو شاعر مشرق علیہ الرحمہ اس شعر میں کر گئے ہیں۔
حاشیہ:اعلی حضرت میر عثمان علی خاں پر ایک بار پھر گرینیڈ بھینکا گیا تھا۔مجرم کونڈا لکشمن کو گرفتار کر کے پیش کیا گیا۔مگر اعلی حضرت نے اسے معاف کردیا اور خلاصی دے دی۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ایک شفیق باپ اپنے نا خلف بیٹے کو درگزر کرتا ہے۔ لیکن اسی حیدرآباد میں آج بلا کسی ثبوت کے معصوم افراد کو دہشت گردی کے الزام میں پکڑ کس طرح تنگ کیا جاتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔

Back to top button