نامور شاعر اور ممتاز کالم نگار جناب اوصاف شیخ کا کالم ’’ دائرے ‘‘
دائرے
اوصاف شیخ
آج بھی پچھلے چند روز کے اخبارات دیکھے تو وفاقی اور پنجاب حکومت کے حکمرانوں کے وعدے اور دعوے پڑھنے کو ملے ۔ کہیں بیان ہے کہ جعلی ووٹوں کے دھندے میں ملوث مافیا کا خاتمہ کریں گے ایک اور دعویٰ کہ سرکاری اسکولوں میں غیر معیاری تعمیر برداشت نہیں کریں گے۔ کہیں فرماتے ہیں آئندہ ڈھائی سالوں میں جنوبی پنجاب کے دیہات کو پینے کا صاف پانی فراہم کریں گے۔ کتنے دعوے، کتنے وعدے کہیں سالوں سے ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم شکوہ کناں نظر آتے ہیں کہ جب ہم عوام کے مسائل حل کرنے کے قریب ہوتے ہیں تو اقتدار کی مدت ختم ہو جاتی ہے ۔ حالانکہ اس سے قبل دو مرتبہ وہ اپنے اقتدار کی مدت پوری نہیں کر سکتے اس شکوے میں شاید وہ اقتدار کی مدت پوری ہونے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ پنجاب میں تو وہ متعدد مرتبہ اپنی مدت پوری کر چکے لیکن ایک بھی بنیادی مسئلہ بتا دیں جو انہوں نے حل کیا ہو ۔ حل کرنا تو دور کی بات کسی بھی بنیادی مسئلہ پر کام ہی نہیں کیا گیا۔ تیسری مرتبہ وفاق اور چھٹی مرتبہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اقتدار کے مزے لینے والے حکمرانوں کے وعدوں اور دعووں کی فہرست بہت لمبی ہے۔
عوام کو حکمرانوں کے بڑے بڑے دعووں اور وعدوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ عوام بنیادی مسائل میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ وہ صرف نا کا حل چاہتے ہیں۔ پی پی پی کے دورِ حکومت میں مینارِ پاکستان کے سایہ تلے دفتری سجانے اور حکمرانوں پر بجلی نہ دینے کی وجہ سے دباؤ بڑھانے والے وزیر اعلیٰ نے اپنی الیکشن مہم میں کبھی 6ماہ اور کبھی دو سال میں ملک سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے دعوے کیے اور لوڈ شیڈنگ ختم نہ کر سکنے کی پاداش میں اپنا نام تک تبدیل کرنے کا دعویٰ کر دیا ۔ نہ لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی نہ ہی انہوں نے اپنا نام تبدیل کیا۔ ان کے بڑے بھائی وزیر اعظم پاکستان نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے چھوٹے بھائی کے دعووں کو ان کا جذباتی پن قرار دے دیا بلکہ پچھلے دنوں انہوں نے ایک تقرریر کے دوران یہ بھی کہا کہ الیکشن مہم کے دوران انہیں مشورہ دیا گیا کہ چھ مہینوں یا ایک ڈیڑھ سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کر لیں و میں نے انکار کر دیا اور کہا میں جھوٹ نہیں بولوں گا ان کا واضح اشارہ اپنے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کی طرف تھا۔۔۔۔۔ بات اگر جھوٹ نہ بولنے کی ہے تو گذشتہ ادوار سے اب تک ان کے بہت سے جھوٹ منظر عام پر آچکے ہیں۔ یہ الگ بات کہ عوام خود ہی دھوکہ کھانے کے عادی ہیں اور اسی پاداش میں ایسے حکمرانوں کی صورت میں عذاب بھی کہتے ہیں۔
یہ کشکول توڑنے کا دعویٰ کرنے والے اتنا قرض لے چکے ہیں کہ پاکستان کی گذشتہ تاریخ شرما گئی ہے اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلائیں گے ۔ اس سال کے آخر سے پہلے پاکستان نے آئی ایم ایف کو 50ارب ڈالر قرض واپس کرنا شاید یہ اس سے قبل بھاگنے کی کوشش کریں گے۔ یہ انتخابی مہم میں ملکی اداروں سے کرپشن ختم کرنے اور ان کو فعال کرنے کا دعویٰ کرنے والے اداروں کو ٹھیک کرنے میں ناکامی پر اداروں کو بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ صرف دعوے کرتے ہیں۔ وعدے کرتے ہیں۔ ان کو عوام کے بنیادی مسائل اور ضروریات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کبھی انہوں نے تعلیم کے لیے کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے آج پاکستان میں نجی تعلیمی ادارے مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔ جعلی دواؤں کا دھندہ روکنے کا دعویٰ کرنے والے دواؤں کی نسبتوں میں اتنا اضافہ کر رہے ہیں کہ علاج بھی عوام کی دسترس سے دور ہو چکا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار اتنی بر ی ہے کہ لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرنے اور اپنی کھال اتروانے پر مجبور ہیں۔ آج جعلی دواؤں کے خلاف محض بیان بازی کرنے والوں نے اتنے سال کے اقتدار بھی کبھی بھی جعلی دواؤں کے مافیا پر ہاتھ نہیں ڈالا تو اب کیا کریں گے۔
جس ملک میں بچے بھوک اور قحط سے مر رہے ہوں یہ اس ملک میں میٹرو اور اورنج ٹرین منصوبے بنا رہے ہیں۔ جہاں پینے کا صاف پانی میسر نہیں، جہاں غریب کو دو وقت کی روٹی نہیں ملتی، جہاں غریب کے بچے تعلیم سے محروم ہیں، جہاں غربت بے شرمی کی حد تک پہنچ چکی ہو وہاں عوام کے مسائل حؒ کرنے کے جھوٹے دعوے دار اربوں روپے کے غیر ضروری منصوبے بنا رہے ہیں اور اربوں روپے کھا رہے ہیں۔ سرکاری اداروں کی نج کاری کے لیے اتنا سنجیدہ ہے کہ سرکوں پر بندے مر رہے ہیں اور ان کے لہجے کی سختی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ جانے کس ملک دشمن سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے یہ آخری حد تک جانے کو تیار ہیں۔
دوسروں کے خلاف کاروائیاں کرنے والے ادارے نیب کی کارکردگی پر خوش ہونے والے نیب کا رخ اپنی جانب ہوتا دیکھ کر تڑپ اٹھے ہیں ۔ نیب سے ڈرنے والوں کے ہاتھ یقیناًصاف نہیں ہیں۔ توان سے عوام اپنے بنیادی مسائل کے حل کی توقع کیوں لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ صرف وعدے اور دعوے کرنے والے ہیں ایک بار نہیں باربار آزمایا جا چکا ہے۔