کالم

انوار حسین حقی کا کالم ’’ حدِ ادب ‘‘’’ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ ‘‘

انوار حسین حقی کا کالم ’’ حدِ ادب ‘‘
حدِ ادب
انوار حسین حقی
’’ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ ‘‘
____________
ہمارا معاصر پنجابی ادب کسی بڑے ادبی معجزے کو ظہور میں لانے کے کتنے امکانات رکھتا ہے۔یا یہ کہ ہمارا جدیدپنجابی ادب ہماری عصری تہذیب اور معاشرتی اقدار کی صحیح نمائندگی کر رہا ہے یا نہیں۔۔ اس بحث کو چھیڑے بغیر اس وقت دیکھنا صرف یہ ہے کہ آج کل پنجابی ادب کے حوالے سے سرکاری یا غیر سرکاری طور پر جو کتابیں منظر عام پر آ رہی ہیں۔ان میں سے کتنی ایسی ہیں جو ادب کے معیار اور اور تقاضوں پر پورا اُتر رہی ہیں۔
اسی خیال کو ہم نواء بنا کر پنجابی ادب کی نو جوان شاعرہ، کالم نگارہ اور کہانی نویس ڈاکٹرشاہدہ دلاور شاہ کی مختلف کتابوں کے کاغذوں کی تہوں میں گوندھے ہوئے لفظوں کو پڑھا تو موجودہ معاشرتی گھٹن اور مادہ پرستی کے دور کی تاریکی میں ڈاکٹرشاہدہ دلاور شاہ اپنی سوچوں کے سالار جگنوؤں کی ٹمٹماہٹ سے روشنی کے سو سامان مہیا کرتی نظر آتی ہے۔اس کی سوچ اور شعور کے اجالے اُسے اُجلے سویروں کی بشارت دے کر اس کی جرائت اور حوصلے کو تازیانہ لگاتے ہیں۔مجھے محسوس ہوا ہے کہ اس کی شاعری اور نثر کا موضوع انسان اور اس کا لازوال حُسن ہے۔اسی کے تخلیقی بیان کے لئے وہ مختلف تراکیب تخلیق کرتی ہے۔۔
ابتداء میں میں نے شاہدہ کو شاعر، نقاد،کہانی نویس اور کالم نگارہ کے چوکٹھے میں محدود کرنے کی کوشش کی لیکن اچانک مجھے ’’ مٹھی میں آگ‘‘ کی تپش محسوس ہوئی ۔ یہ اردو افسانوں کی کتاب ہے جس کی مصنفہ بھی ڈاکٹرشاہدہ دلاور شاہ ہے۔ان کے افسانوں میں زندگی کا رنگ اور ترنگ اپنے بھر پور تائثر کے ساتھ موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر سلیم اختر کو کہنا پڑا کہ ’’ ایک محقق تنقید نگار ، شاعرہ اور کالم نگارہ کے طور پر جانی پہچانی جانے والی قلم کارہ ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کو جب میں نے ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے پڑھا تو مجھے حیرت ہوئی کہ اردو افسانوں کی اپنی پہلی کتاب میں انہوں نے ہماریگردو پیش میں بکھری ہوئی معاشرتی تلخیوں اور شیریں حقیقتوں کے کتنے نئے اور انوکھے پہلو دریافت کئے ہیں’’مٹھی میں آگ‘‘ کہنے کو تو صرف دس افسانوں کا مجموعہ ہے لیکن اس میں ہمیں معاشرے کے سینکڑوں سلگتے ہوئے گوشے بے نقاب نظر آتے ہیں‘‘۔ مٹھی میں آگ،مہاماتر،سومن کا تالا،لائبریری کی کتاب،میں ہوں بھی اور نہیں بھی،برسات کی ایک رات،مہرے، وقت کے ہاتھ لگام،ساتواں در کھلنے کا سماں،قسمت پڑی، چیلنج، پڑھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اختر شمار نے شاہدہ دلاور شاہ کو ایک حساس اور جینون لکھاری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’شاہدہ نے اظہار کے کئی وسیلوں میں اپنی شناخت کا سفر طے کیا ہے۔شاعری اور کالم نگاری کے بعد اب کہانی کار کی حیثیت سے بھی وہ اپنے قارئین کا اعتبار حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔اپنی کہانیوں میں انہوں نے اپنے ارد گرد کی تلخیوں کے رنگ صفحہ قرطاس پر بکھیر دئے ہیں۔گویا سماج کی رنگا رنگی اور جیتی جاگتی صورتیں ان کی کہانیوں کے نین
نقش ہیں۔ چند سالوں کے دوران ہی شاہدہ دلاور شاہ نے ادبی میدان میں بلند مقام حاصل کر لیا ہے۔ادب قبیلہ میں ایک عرصے بعد اردو اور پنجابی دنوں زبانوں میں یکساں طور پر بھر پور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال (لکھاری) کے طور پر سامنے آئی ہے جو ادبی حلقوں میں اعتمادِ ذات کے ساتھ اپنے قدم جمانے میں کامیاب ٹھہری ہے‘‘
شاہدہ کے ادبی فن پاروں اور خیالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ یقین مستحکم ہوتا ہے کہ اس نے اپنی محبت کو ایک بڑی کمٹمنٹ کا درجہ دیا ہوا ہے۔اس کی محبت ایک تکون میں بند ہے۔۔۔ اس کی محبت انسان کے ساتھ۔۔۔۔۔ مٹی کے ساتھ ۔۔۔ اور ایک بڑے آدرش کے ساتھ ہے۔اس کی شاعری کی کتاب ’’ گواچی شام ‘‘ پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تلخیوں کو قرینے دینے کا ہنر جانتی ہے۔یہ بات میرے یقین کا حصہ بن چکی ہے کہ شاہدہ دلاور شاہ محبت کو انفرادی نہیں کائناتی رویہ تصور کرتی ہے۔کائنات کو سنجیدگی کا مظہر سمجھتے ہوئے وہ اپنی محبت کو بھی ایک ایسا سنجیدہ عمل بناتی ہے جس کی بنیاد میں ہمیشہ دکھ کی ہلکی ہلکی آنچ ہلکورے لیتی ہے۔ اگر شاہدہ نے اپنی ریاضت جاری رکھی تو اس کی شاعری کی بنت مزید خوبصورت، کومل ،نازک اورملائم ہو جائے گی۔شاہدہ کی مختصر پنجابی نظموں کی کتاب ’’ میں تے عشق‘‘ ایک منفرد کتاب ہے۔کہنے اور دیکھنے میں یہ نظمیں مختصر ہیں لیکن اپنے موضوع کا مکمل احاطہ کر تی ہیں۔اس کتاب کے مطالعہ کے دوران جا بجا ندرتِ خیال کے شگوفے پھوٹتے نظر آتے ہیں۔ نعتِ رسول ﷺ سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے ایک بات جو میرے لئے نہ صرف انتہائی خوشگوار حیرت کا باعث ہے بلکہ میرے دل میں شاہدہ کے لئے موجود احترام کے جذبات کے لئے مہمیز کا کام بھی دیتی ہے وہ شاہدہ کی حضور ﷺ سے بے پایاں محبت اور عقیدت وہ کے انوکھے رنگ اور آہنگ ہیں جو ان کی ادبی زندگی کی کہکشاں کو منور اور درخشاں کئے ہوئے ہیں۔
اگرکہانی کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو وہ کہانی لکھتے ہوئے اس شعور سے بھی آگاہ نظر آتی ہے کہ کہانی کا وجود اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان ۔قصے اور کہانیاں ہر قوم اور خطے میں ملتی ہیں۔کہانی تہذیب اور تمدن کی نہ صرف آبیاری کرتی ہے۔بلکہ کہانی کار اپنے دور کا نقیب بھی ہوتا ہے۔یہ ایک رواں سلسلہ ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک زمین پر انسان کا وجود قائم ہے۔ادب خواہ کسی زبان یا معاشرے کا ہو اس میں کہانی کا اپنا ایک مقام ہے ۔پنجابی ادب میں امرتا پریتم، نسرین انجم بھٹی،افضل توصیف،فرخندہ لودھی،رشیدہ سلیم سیمیں، رفعت،کہکشاں ملک، خالدہ ملک اور پروین ملک جیسے معتبر نام کہانی کے حوالے سے اپنی روشنی بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ان ناموں ڈاکٹرشاہدہ دلاور شاہ کے نام کاایک خوبصورت اور توانا اضافہ ہوا ہے۔شاہدہ دلاور شاہ نے بہت کم عمری اور انتہائی کم عرصے میں پنجابی ادب میں اپنے لئے نمایاں جگہ بنائی ہے۔
شاہدہ دلاور شاہ اپنی کہانیوں کی اوٹ سے متنوع موضوعات کی جاندار کہانیوں کی لکھاری کے طور پر جھانکتی نظر آتی ہیں۔۔انکی کتاب ’’ تڑکے گھڑے دا پانی‘‘ کے مطالعے کے دوران انکی کہانیاں ’’ ویلے ہتھ لگا ماں‘‘ ’’ قسمت پڑی‘‘ ’’لائبریری دی کتاب‘‘ ’’سگویں رات‘‘ کتھے اے تیرا پیار‘‘ سمیت تمام کہانیوں میں حقیقت کا عکس اس گہرے تاثر کے ساتھ موجود ہے کہ کہیں بھی خیالی یا قیاس ہونے کا شائبہ نہیں ہوتا۔پنجابی ادب میں شاہدہ کا جس انداز میں خیر مقدم کیا گیا ہے وہ اس کے روشن تر ین مستقبل کی نوید ہے۔2006 ء میں شاہدہ کو ان کے اخباری کالموں کے مجموعے ’’ ریت پریت‘‘ پر بہترین کالم نگار ہ کا ایوارڈ اور اُسی سال رضیہ فرخ
بہترین سٹوری رائٹر کا ایوارڈ ملنا ان کے لئے بہت بڑے اعزاز اور ان کے قارئین کے لئے بڑے فخر کی بات ہے۔
پنجابی ادب کے آسمان پر انکی اسی اُڑان کو دیکھتے ہوئے ’’ راجہ رسالو ‘‘ کو بجا طور پر یہ کہنا پڑا ہے کہ ’’ شاہدہ دلاور شاہ کی علمی و ادبی کاوشیں دیکھتے ہوئے کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ پنجابی زبان یتیم ہو گئی ہے۔جب تک شاہدہ دلاور شاہ جیسی شخصیات پیدا ہوتی رہیں گی اس وقت تک پنجابی زبان کو زوال نہیں آ سکتا۔ ‘‘
شاہدہ دلاور شاہ دیگر پنجابی لکھاریوں سے اس لحاظ سے بھی منفرد ہیں کہ وہ’’ گر مکھی‘‘ میں بھی لکھتی ہیں۔ انکی کہانیوں کی کتاب ’’ تِڑکے گھڑے دا پانی ‘‘ اور پنجابی کی مختصر نظموں کا ’’ گر مکھی ‘‘ میں ترجمہ بھی انہی کتابوں میں شامل ہے۔ جو اہلِ ادب کے لئے بہت خوشگواری کا باعث بنتا ہے۔
میں کوئی محقق، نقاد یا ادبی تجزیہ نگار نہیں ہو ں اور نہ ہی تنقید و تنقیص میرا منصب اور چیڑ پھاڑ میرا مشغلہ ہے ۔میرے لئے تو یہ احساس بہت معتبر ہے کہ شاہِ دوسرا کی عقیدتوں سے سر شارڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ گہری سنجیدگی، گہرے تفکر اور گہرے عرفان کی شاعرہ ہے۔ وہ اپنے کالموں میں لفظوں سے حوصلوں کی پرورش کرتی ہے۔۔۔۔ اور کہانیوں میں دل کی آگ سے دئیے روشن کرتی ہے۔حبس زدہ خزاں کو ٹھنڈی آہوں سے بہاروں میں تبدیل کرنے کے ہنر سے آشناء ہے۔۔ اور وہ یہ فن بھی جانتی ہے کہ اندھیروں میں قوسِ قزح کو کیسے ابھارا جاتا ہے۔۔۔
***

Back to top button