جناب عنایت عادل کا کالم ’’ بالحق ‘‘ ۔۔۔ محفوظ غیر محفوظ
بالحق ۔۔۔۔ عنایت عادل
محفوظ غیر محفو٭۔۔۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ماضی قریب میں ملک کا ایک مضبوط ادارہ تصور کیا جاتا تھا اور اس شعبے کے رموز سمجھنے والے ماہرین کے خیال میں اگر یہ ادارہ اسی نہج پر چلتا رہتا تو کچھ بعید نہیں تھا کہ ماضی میں سعودی اور امارات کی ہوائی کمپنیوں کو اوج کمال تک پہنچانے میں جس طرح پی آئی نے ایک اہم کردرار ادا کیا، اسی قسم کے کردار کی بنیاد پر کئی ایک دیگر ہوائی کمپنیوں کو بھی سہارا مل سکتا تھا۔لیکن، جس طرح گزشتہ کچھ سالوں میں ملکی سطح کے دیگر سرکاری اداروں کو (قصداََ) زوال کی راہ دکھائی گئی ہے اسی قسم کی صورتحال پی آئی اے جیسے اہم ادارے کو بھی لاحق ہے۔کہا جا رہا ہے کہ قومی ایئر لائن کے اس بحران کی وجہ اس ادارے میں کی جانے والی حد سے زیادہ اضافی بھرتیاں ہیں۔یہ اس بحران کی وجوہات کا یک ادنیٰ سا حصہ ضرور کہاجا سکتا ہے لیکن میری رائے میں یہ بحران کی واحد وجہ ہرگز نہیں ہے۔ہاں ان بھرتیوں کے سلسلے میں اہلیت کے بجائے سفارش یا لکشمی کی چمک کا ہمارے ہاں بنا دیا جانے والا معیار البتہ رفتہ رفتہ حالیہ بحران کا راستہ ہموار کرنے کا موجب ضرور رہا ہو گا۔اگر میرا یہ خیال درست ہے تو حالیہ وسابقہ حکومتوں کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کے ان تمام اہلکاران کو اگر نہیں تو کم ازکم ایک کثیر تعداد کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہئے کہ جن کی نااہلیوں کی وجہ سے ملکی سطح کا یہ اہم ترین ادارہ آج ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔لیکن ، یہ اس داستاں کا تمام حاصل ہر گز نہیں ہے۔ہمیں ان تاریخی حقائق پر بھی نظر ضرور دوڑانی چاہئے کہ جو گزشتہ کئی برسوں کے دوران پی آئی اے کے ساتھ منسوب رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی، جو کہ ان دنو ں وزارت پٹرولیم کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں اور ان کا پٹرول کے بحران کا الزام عوام اور میڈیا پر ڈالنے کا تاریخی جملہ بھی قارئین کی اذہان میں محفوظ ہو گا، کسی دور میں پی آئی اے کے کرتا دھرتا رہ چکے ہیں۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کے طیارے کو جب فضا میں معلق کیا گیا تو ان دنوں پی آئی اے کا اقتدار انہی شاہد خاقان عباسی ہی کے پاس تھا۔90کی دہائی کے آخری کچھ برس پی آئی اے کی کارکردگی میں کسی بریکنگ نیوز کو سامنے نہ لا سکنے والے شاہد خاقان عباسی ، جنکے والد خاقان عباسی جنرل ضیاء کی کابینہ کابطور وزیر پیداوارحصہ بھی رہے ہیں، نے شاید پی آئی اے سے حاصل ہونے والے تجربے کی بنیاد پر 2003میں ایک نجی ہوائی کمپنی کی داغ بیل ڈالی تو اوائل میں لیز پر تین طیارے اس نجی کمپنی کے لئے حاصل کئے۔ اس وقت اسی کمپنی کے پاس آٹھ جدید ترین جہاز ہیں جبکہ اگلے مہینے اسے مذید چار جہاز میسر ہو جائیں گے۔اس کے مقابلے میں پی آئی اے جو دراصل پاکستان کے وجود سے بھی پہلے کی کمپنی ہے اور جو قائد اعظم محمد علی جناح کی کاوشوں اور آدم جی داؤد اور مرزا احمد اسفہانی جیسی کاروباری شخصیات کے مالی تعاون سے تقسیم کے بعد مہاجرین کی منتقلی سے ہوتی ہوئی 1955میں Orient Airlines سے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن میں تبدیل ہوئی، اسکے اس طویل پیشہ ورانہ سفر کے بعد اس وقت اس کے طیاروں کی تعداد 38بتائی جا رہی ہے۔یعنی ایک نجی قومی اور تاریخی ہوائی کمپنی ہمارے ہاں 60سال میں 38طیاروں کی حامل ہے لیکن ایک نجی کمپنی اس وقت تقریباََ12طیاروں کی حامل ہو چکی ہے۔ دونوں ہوائی کمپنیوں کی ترقی کا میعار اگر طیاروں کی خریداری کو سمجھ لیا جائے تو ہمیں دونوں کمپنیوں کی جانب سے طیاروں کی سالانہ خرید کا جائزہ لینا ہو گا۔مذکورہ اعداد و شمار کے مطابق پی آئی اے اپنے قیام سے لے کر تا دم تحریر(اس میں وہ عرصہ شامل نہیں ہے کہ جس میں یہ کمپنی اورینٹ کے نام سے خدمات انجام دے رہی تھی) 0.63جہاز فی برس حاصل کر رہی ہے۔جبکہ اس کے مقابلے میں مذکورہ نجی کمپنی ہر سال اپنے فلیٹ میں ایک جہاز کا اضافہ کر رہی ہے جو کہ قومی ایئر لائن سے تقریباََ دوگنا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چند ہی برس میں ایک نجی کمپنی اس قدر سرعت کے ساتھ ترقیوں کی منازل طے کر سکتی ہے تو ایک سرکاری ہوائی کمپنی نصف صدی سے بھی کہیں زیادہ عرصہ گزر چکنے کے باوجود یہ ترقی کیوں نہیں کر سکتی؟ جبکہ اسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہو اور سرکاری وسائل بھی اسے ان وسائل سے کہیں زیادہ حاصل ہوں کہ جو ایک نجی کمپنی کو حاصل ہو ہی نہیں سکتے۔اور خاص طور پر اس نجی کمپنی کا مالک یا کرتا دھرتا وہی شخص رہا ہو کہ جس نے اس کاروبار کا تجربہ اسی ڈوبتی سرکاری ہوائی کمپنی ہی سے حاصل کیا ہو۔پی آئی اے سے شاہد خاقان عباسی کی ہوائی کمپنی کا خاص طور پر موازنہ کرنا بھی دراصل اسی واحد نکتے کی بنیاد پر ہے۔اسکی واحد وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ ہے ہماری وہ سنجیدگی اور وہ لگن کہ جو ہمیں اپنے ذاتی مفاد کی مد میں اپنی انتہائیوں پر متاثر ہوتی ہے لیکن جب ہمیں اسی قسم کی خدمات سرکاری سطح پر تفویض کئے جائیں تویہ سنجیدگی اور یہ لگن ہم سے کوسوں دور ہوئی جاتی ہے جس کا نتیجہ وہی نکل سکتا ہے کہ جو ان دنوں آپ کو پی آئی اے، واپڈا، سٹیل ملز، تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کے ساتھ ساتھ ان تمام میدانوں میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے کہ جس کا موازنہ اسی ہی قسم کے نجی شعبہ جات سے ممکن ہو۔اسی ملک میں فولاد کے نجی کارخانے تو ترقی کرتے کرتے مختصر عرصے میں کئی کئی بچے جنتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ملک کی سٹیل ملز بد ترین بحران کا شکار بن کر سامنے آ جاتی ہے۔اسی ملک میں رینٹل پاورز اور آئی پی پی پیز کے وارے نیارے نظر آتے ہیں لیکن واپڈا اور کے ای ایس ای مجموعی طور پر صرف توانائی کے بحران کے ہی نہیں، شدید مالی مشکلات کے بھی شکار نظر آتے ہیں اور آئے روز خبر سامنے آتی ہے کہ ان اداروں کے ذمہ مختلف قسم کے واجبات ادا کرنے کے لئے سرمایہ موجود نہیں۔اسی ملک میں نجی تعلیمی اداروں کا معیار تو بین الاقوامی سطح پر مقابلہ نظر آتا ہے لیکن سرکاری سکولوں میں ٹاٹ او ر چاک تک کا رونا تو اعلیٰ تعلیمی اداروں کو مالی لحاظ سے بھکاری کی سی حیثیت ملتی دکھائی دیتی ہے۔اسی ملک میں صحت کا شعبہ نجی سطح پر بہترین علاج معالجہ کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن سرکاری ہسپتالوں میں مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دیتے ہیں لیکن انہیں معالج کی خدمات تو دور کی بات چند سکوں کا سرنج یا چند روپوں کی دوائی میسر نہیں آتی۔اسی حوالے سے اگر مذید بات کی جائے تو اسی ملک میں کینسر جیسے مرض کے مہنگے علاج کے لئے شوکت خانم جیسے نجی ہسپتالوں کی تعداد بڑھتی دکھائی دیتی ہے لیکن اسی شوکت خانم کے بانی عمران خان کی اپنی جماعت کی صوبائی حکومت کے تحت آنے والے سرکاری ہسپتالوں کو تین سال گزر جانے کے باوجود ’’تبدیلی‘‘ کی بھنک تک نہیں پڑنے دی جاتی۔ان دنوں تاویل دی جا رہی ہے کہ جو قومی ادارے نقصان کا شکار ہوں تو انہیں نجکاری کے ذریعے نجی شعبہ میں دیا جانا ہی واحد حل ہے۔ یعنی 20کروڑ عوام کے ملک پر حکمرانی کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہمارے حکمران، ان کاروباری شخصیات یا کمپنیوں کو اہلیت کے لحاظ سے خود سے برتر اور خود کو ان کے مقابلے میں کم تر خیال کرتے ہیں کہ جن کے حوالے یہ قومی ادارے کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور ہی نہیں، ریاستی طاقت بھی استعمال کی جا رہی ہے؟۔ معاف کیجئے گا یہ معاملہ اہلیت یا صلاحیت کا نہیں، نیت اور اہمیت کا ہے۔ نیت درست کیجئے، قومی اداروں کو اپنے ذاتی کاروبار کی طرح کی اہمیت دیجئے اور پھر دیکھئے ناں ہی یہ ادارے بحران کا اور نا ہی انکے اہلکار گولیوں گالیوں کے شکا رہونگے ۔۔ مگر کیا کیجئے کہ نیتوں اور اہمیتوں کے جملہ حقوق صرف ذاتی ، خاندانی اور سیاسی مفادات کے لئے محفوظ ہیں اور قومی وملکی مفادات غیر محفو٭۔۔۔