جناب عنایت عادل کا فکر انگیز کالم ’’بالحق‘‘۔۔۔۔ پی ٹی آئی کا داور یا داور کی پی ٹی آئی۔۔؟؟
پی ٹی آئی کا داور یا داور کی پی ٹی آئی۔۔؟؟
عنایت عادل
کراچی کے سابقہ ناظم اعلیٰ مصطفی کمال نے عین اس وقت پر دبنگ انٹری دی کہ جب ایک طرف ایم کیو ایم کو ایک مرتبہ پھر آپریشن کا سامنا ہونے کے ساتھ ساتھ حال ہی منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی ، کراچی میں بلدیاتی حکومت بنانے کے قابل ہو چکی تھی تو دوسری جانب متحدہ کے قائد الطاف حسین کی صحت کے حوالے سے سنسنی انگیز خبریں لمحہ بہ لمحہ موصول ہو رہی تھیں۔متحدہ قومی موومنٹ شاید اپنے قیام کے کچھ ہی عرصہ کے بعد سے الزامات کی زد میں رہتی چلی آ رہی ہے اور ان الزامات میں لسانی شدت پسندی کی بنیاد پر مخالفین کے خلاف ہتھیار استعمال کرنے سے لے کر بھتہ خوری اور اغواکاری تک کے سنگین الزامات ہمیشہ سے اس جماعت کا مجموعی چہرہ بگاڑتے چلے آ رہے ہیں۔اب کچھ عرصہ سے متحدہ پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے تعلقات اور یہاں تک کہ اس سے معاونت حاصل کرنے تک کے الزمات سامنے آ رہے ہیں جسکی وجہ سے کراچی ، حیدر آباد اور سکھر سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں مقبول اس جماعت کے خلاف آپریشن ایک بار پھر سے ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ماضی کے آپریشنز کے برعکس اس مرتبہ کیا جانے والے کراچی آپریشن کو گرچہ براہ راست ایم کیو ایم کی مخالفت سے موسوم نہیں کیا جا رہا تاہم اس آپریشن کے تحت ہونے والی کاروائیوں کے نتیجے میں اگر کرپشن کا کھرا سندھ حکومت پر براجمان پاکستان پیپلز پارٹی کے چوٹی کے راہنماؤں کی جانب اشارہ کئے رکھتا ہے توکراچی میں امن و آمان کی مسلسل دگرگوں صورتحال اور اس میں قتل مقاتلے، بھتہ خوری، جلاؤ گھیراؤ اور اس جیسے دیگر جرائم کی سرپرستی کی کڑیاں مبینہ طور پر ایم کیو ایم ہی سے جا کر ملتی دکھائی دیتی ہیں۔ماضی میں ایم کیو ایم کو اس قسم کے الزامات کا سامنا یا تو ریاست اور یا پھر مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے کیا جاتا رہا لیکن اب کی بار یہ الزمات، جو کہ مذید شدت کے ساتھ سامنے آئے ہیں ، کسی اور کی جانب سے نہیں، خود ایم کیو ایم کے اپنے ہی چوٹی کے راہنماؤں کی جانب سے عائد کئے جا رہے ہیں جو کہ ماضی بعید و قریب کے مقابلے میں حالیہ الزامات کو کہیں زیادہ تقویت دیتے محسوس ہو رہے ہیں۔مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں، جو کہ آئے روز ان کے ساتھ ہمنوائی کے لئے بڑھتے چلے جا رہے ہیں، کا یہ ’’اعترافی اقدام‘‘ کیوں سامنے آرہا ہے، کس کے اشارے پر ایسا کیا جا رہا ہے اور کراچی کے مستقبل پر ان اقدامات و اعلانات و اعترافات کا کیا اثر ہو گا ، یہ ایک الگ بحث ہے ۔ تاہم ایم کیو ایم جیسی منظم کہلائی جانے والی جماعت کے اندر سے اس طرح کی آواز اٹھنا ایم کیو ایم کی قیادت اور خاص طور پر ایم کیو کے حامیوں کے لئے ایک سوالیہ نشان ضرور ہے۔
کچھ اسی قسم کی صورتحال گزشتہ دنوں ہمیں ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی نظر آئی جس میں پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں کی گئیں کہ پی ٹی آئی کے حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑانے کا باعث بن گئیں۔ڈیرہ کم ٹانک سے منتخب ہو نے والے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی داور خان کنڈی کی جانب سے منعقد کی جانے والی پریس کانفرنس بھی مصطفی کمال جیسے اقدامات کا پرتو لئے ہوئے تھی جس میں داور خان کنڈی نے کسی اور جماعت پر نہیں بلکہ خود اپنی ہی جماعت پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔گو کہ داور خان کنڈی اور مصطفی کمال کے الزمات میں زمین آسمان کا فرق ضرور تھا اور دوسرے اپنی جماعت چھوڑنے کے بعد اور جماعت میں رہتے ہوئے قیادت پر تنقید کا فرق بھی واضح ہے لیکن ان دونوں ہی قسم کی پریس کانفرنسوں سے ایک بات واضح ہو تی ہے کہ جمہوری کہلائی جانے والی جماعتوں میں مروجہ جبر کی قیادت اب کسی بھی جماعت میں زیادہ عرصے تک پنپ نہیں سکے گی۔ پانچ انتخابات میں مسلسل شکست سے دوچار ہونے والے انجینئر داور خان کنڈی، اپنی آبائی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو خیر باد کہتے، تبدیلی کا جھنڈا ہاتھ میں اٹھائے ٹانک کم ڈیرہ کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے پچیس کے ضمنی انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔اولین بار قومی اسمبلی میں داخل ہونے والے اس نوجوان نے اسمبلی فلور پر کئی ایک تابڑ توڑ تقریریں بھی کیں جنہیں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔لیکن اس کے بعد داور خان کنڈی کو اپنے حلقہ انتخاب سے کافی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور اس تنقید کی وجہ ان کی وہ ناقص کارکردگی تھی کہ جو وہ اپنے اانتخاب سے لے کر تا دم تحریر سامنے لے آئے ہیں۔عوام کی جانب سے ان کی قیادت سے مایوسی اور علاقے کی ترقی میں تساہل کے الزامات سہنے والے داور خان کنڈی نے ، بقول انکے‘‘ حتی المقدور کوشش کی کہ وہ وفاقی حکومت سے اپنے حلقہ کے حقوق حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ صوبہ میں قائم اپنی ہی جماعت کی حکومت سے بھی معاونت حاصل کر سکیں لیکن جہاں وہ اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی ایک کمزور جماعت کے رکن کی حیثیت سے اپنے مطالبات منوانے میں ناکام رہے وہیں خود انکی اپنی جماعت کی جانب سے بھی انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ڈھائی سال سے زائد عرصہ میں مایوسیاں جمع کرتے اور اپنی ان مایوسیوں کو جوں کا توں اپنے حلقہ کے عوام تک پہنچاتے داور خان کنڈی نے آخر کار میڈیا کا سہار ا لینے کی کوشش کر ڈالی۔داور خان کنڈی نے اپنی اس پریس کانفرنس کے دوران اپنی ہی جماعت کی صوبائی حکومت،وزیر اعلیٰ،صوبائی وزراء اور خاص طور پر ڈیرہ و ٹانک سے منتخب ارکان صوبائی اسمبلی پر کیا کیا الزامات لگائے وہ تمام تر قارئین کی نظروں سے گزر چکے ہیں۔لیکن اب دیکھنا یہ چاہئے کہ داور خان کنڈی کا یہ اقدام خود انکی شخصیت، انکے حلقہ انتخاب اور ان کی ’’حالیہ‘‘ سیاسی جماعت کے لئے کس اہمیت کا حامل ہو گا۔اس ضمن میں وقت کا انتخاب اسی طرح اہمیت لئے ہوئے ہے کہ جس کا ذکر ہم نے مضمون کے اوائل میں مصطفی کمال کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنس کے حوالے سے کیا۔داور خان کنڈی کی جانب سے کی جانیو الی یہ پریس کانفرنس اس وقت سامنے آئی کہ جب پی ٹی آئی کے قائدین اور کارکنان اپنے تمام تر کام کاج چھوڑ کر انٹرا پارٹی الیکشن کی جوڑ توڑ میں لگے ہوئے ہیں۔اندرون جماعت ان انتخابات کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے سٹی ون کے حلقہ سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی علی امین خان گنڈہ پور ، پارٹی کی صوبائی صدارت کے عشق میں اپنی اہم ترین وزارت سے ہاتھ دھونے کو تیار ہو چکے ہیں۔اب اس نوعیت کے سیاسی ماحول میں کہ جب پارٹی کے کسی اہم عہدہ کی اہمیت ، وزارتوں تک سے زیادہ تصور کی جا رہی ہو، ایک ایسے قومی اسمبلی کے رکن کو اپنی سیاسی ساکھ کو قائم دائم رکھنے کا کیونکر خیال نہ ہو گا کہ جو تین سال کے قریب کی مدت میں عوام کو صرف مایوسیاں ہی دے سکا ہو۔حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دوران ٹانک پی ٹی آئی کے صدر یوب بھٹنی کے ساتھ داور کے اختلافات بھی اس ضمن میں ایک اہم نکتہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔داور خان کنڈی جیسے پی ٹی آئی کے ہر راہنما کی یہ خواہش ہو گی کہ وہ متوقع انٹرا پارٹی الیکشن میں اگر خود کسی عہدے پر براجمان نہ بھی ہو سکے تو کم از کم ان عہدہ جات پر وہی شخص متمکن ہو کہ جو اس کا ہم خیال یا دوسرے الفاظ میں اسکے مفادات کا تحفظ(باہمی ) طور پر کر سکے۔اندرون جماعت اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کا یہ مرحلہ بھی داور کنڈی کو ایک دھماکے دار کانفرنس کرنے کے اقدام کی وجہ کہلایا جا سکتا ہے کہ اب اپنے ہی کارکنان سے ووٹ لینے کی خاطر پھر سے ’’میدان‘‘ میں اترنے کا وقت سر پر آن پہنچا ہے۔اور داور خان کنڈی تہی دست یہ معرکہ سرانجام دینے کی مجبور ی کی بدولت ایک ایسا دستاویزی ہتھیار حاصل کر سکتے ہیں کہ جس کے ذریعے وہ حلقہ کے عوام اور کارکنان کو اخبار لہرا لہرا کر بتا سکیں کہ وہ اہل بھی ہیں، اہل در د بھی اور اہل جرات بھی ۔
داور خان کنڈی کی یہ پریس کانفرنس مٹھی سے پھسلتی اس ریت کے زیاں کا بھی شاخسانہ قرار دی جاسکتی ہے کہ جو تین سال کا عرصہ گزار چکی اور آئینی لحاظ سے پھر مٹھی بھرنے کا مرحلہ بس دو سال کے فاصلے پر ہے۔ مخالفین پر نشتر زنی کا روائتی سیاسی ہتھیار اب کی بار اپنوں پر بجلیاں گرانے کا سہاگہ لئے عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کو کھچا چلا آیا ہے۔داور خان کنڈی کی جانب سے صوبائی حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کے منشور سے روگردانی کا ارتکاب البتہ ایک ایسا نکتہ ہے کہ جس پر پارٹی قیادت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ’’ضرورت کی بنیاد پر ‘‘ ترقیاتی منصوبے سامنے لائے گی جو کہ بلدیاتی نمائندوں کی جانب سے تشکیل دئیے جائیں گے۔ اول تو بلدیاتی نظام ہی دوسال کے بعد متعارف کروایا گیا جبکہ بلدیاتی انتخابات کے بعد منتخب نمائندوں کو اختیارات و فنڈز کی منتقلی میں بھی نصف سال سے زائد کا عرصہ ضائع کر دیا گیا جبکہ اب تک سامنے آنے والے ترقیاتی منصوبے، عوام کی ضرورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ارکان صوبائی اسمبلی اور یا پھر حکومتی جماعت کے عہدیداران و کارکنان کی ’’ضروریات‘‘ کو مد نظر رکھ کر سامنے آرہے ہیں اور ضرورت سے مراد جہاں مالی مفاد حاصل کرنا ہے وہیں سیاسی مفاد کی ضرورت بھی اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے دوران ایک دم سے تیز رفتاری کے ریکارڈ توڑتے ترقیاتی منصوبے اور پھر ان انتخابات کے بعد اس قسم کے منصوبوں کا منظر سے غائب ہونے کی صورت میں دی جا سکتی ہے۔پی ٹی آئی کا منشور اقربا پروری، مالی بد عنوانی اور محکمہ جات کے ریفارم کے خوابوں سے مزین ملتا ہے لیکن صوبائی حکومت کے قیام کے اولین دنوں میں کافی حد تک بہتری آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر وہی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے کہ جو ’’تبدیلی‘‘ پر طعنہ زن جماعتوں کے ادوار کا گویا ’طرہ امتیاز‘‘ رہی ہے۔داور خان کنڈی کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان سے منتخب تین صوبائی ارکان اسمبلی کی جماعتی وفاداریوں کا سوال جہاں زمینی حقائق کے تناظر میں مبنی بر حق محسوس ہوتا ہے وہیں خود پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت پر بھی سوالیہ نشان لگاتا دکھائی دیتا ہے کہ جو خود کو دیگر جماعتوں سے منفرد لیڈر کہلانے پر نازاں ہونے کے باوجود ڈیرہ اسماعیل خان کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان یا امیدواران کے لئے خالصتاََ ’’اپنے‘‘ راہنما ہی تخلیق نہیں کر پائی اور ان ’’غیر وں‘‘ میں خود داور خان کنڈی بھی شامل ہیں۔داور خان نے البتہ پی ٹی آئی کے منشور میں موجود موروثی سیاست سے چھٹکارا دلانے کے نکتے کو چھیڑنے کی زحمت گوارا نہ کی اسکی وجہ یقیناََ ضلع ٹانک کی نظامت پر براجمان انکے چھوٹے بھائی مصطفی کنڈی ہی ہو سکتے ہیں۔داور خان کنڈی پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت و حکومت پر تو خوب برستے دکھائی دئیے لیکن پارٹی کی مرکزی قیادت اور خاص طور پر چیئرمین عمران خان کی مدح سرائی بھی انکی جانب سے خوب کی گئی جس سے انکے پی ٹی آئی کو داغ مفارقت دینے اور کسی اور جماعت میں شمولیت کے افسانوں پر اوس ضرور پڑتی ہے تاہم پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صاف شفاف مرکزی قیادت کی موجودگی میں گدلی صوبائی قیادت و حکومت کے مبینہ لچھن کس لائسنس کے تحت پروان چڑھ رہے ہیں اور اس حقیقت پسند مرکزی قیادت کی موجودگی میں داور خان کنڈی اپنے پھپھولے میڈیا کے توسط سے عوام تک پہنچانے پر کیوں مجبور ہوئے؟
ایم کیو ایم کی طرح پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی اب اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ مخالفین کی جانب سے اٹھائی جانے والی انگلیوں اور اپنے ہی ہم نوالہ و ہم پیالہ شخصیات کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات میں فرق ہوا کرتا ہے۔جوابی ہرزہ رسائی کے بجائے اگر اصلاح احوال کا طریقہ اپنا لیا جائے تو نہ ہی مصطفی کمال کسی کے مبینہ اشاروں پر ناچتا دکھائی دے اور نا ہی کوئی داور خان کنڈی اپنی تین سالہ نا اہلی کو اپنی بے بسی کا نام دے کر عوام کی ہمدردیوں کے حصول کا زینہ بنانے پر بضد نظر آئے۔عوام کا کیا ہے۔۔ وہ تو اپنے لیڈروں کی لچھے دار باتوں پر ہی یقین کرتی چلی آ رہی ہے۔ جو لیڈر جتنا لچھے دار۔۔اتنا ہی مقبول۔۔ چاہے مجبور ہی کیوں نہ ہو۔