کالم

پاکستان صحافیوں کے لیئے خطر ناک کیوں ۔؟ تحریر ملک قیصر اقبال ٹھیٹھیہ کا ایک منٹ

ایک منٹ
تحریر ملک قیصر اقبال ٹھیٹھیہ
پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک کیوں ؟
سچ بولنا ،لکھنا آج سے نہیں صدیوں پہلے سے ہی بہت بڑا جرم تصور کیا جاتا تھا اور پھر آج کی دنیا میں تو یہ کام مشکل ترین اور خطرناک بن گیا ۔آپ کی ٹی وی سکرینوں تک بریکنگ نیوز پہنچانے اور اخبارات کے صفحات تک معاشی سیکنڈل پہنچانے والے کئی صحافیوں کو ماضی کی کہانی بنا دیا گیا ۔حال ہی میں بلوچستان میں نہ صرف صحافیوں بلکہ ان کے بچوں کو چن چن کر مارا گیا ۔کراچی میں زبان بند نہ کرنے والے کئی صحافیوں کی زندگی کو موت میں بدل دیا گیا ۔سوات میں حقیقی رپورٹنگ کرنے کے جرم میں صحافیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا تو شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو انتہائی بربریت سے قتل کیا گیا ۔لیکن اب تو ظلم کی انتہا ہو گئی کہ اسلام آبا دکے انتہائی محفوظ علاقے میں حامد میر جیسے لوگوں کو نشانہ بنانے کی سازش کی گئی ۔حامد میر نے حالیہ دنوں میں ملالہ یوسف زئی کے واقعہ پر کھل کے بات کی ،انہوں نے بلوچستان کی صورتحال اورلاپتہ افراد بارے جو موئقف اختیار کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔انہیں ماضی میں بھی دھمکیاں دی گئیں کبھی ریاستی اداروں کی جانب سے اور کبھی طالبان کی جانب سے لیکن کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اسلام آباد کے اس محفوظ علاقے میں دن دہاڑے کار میں بم نصب کر دیا جائے ۔حامد میر نے حال ہی میں ایک پسٹل کا لائسنس لیا تو لائسنس دینے والوں نے کہا کہ اس پسٹل کا کیا فائدہ آپ کے دشمنوں کے پاس اس سے گئی گنا بڑے ہتھیار ہیں ۔تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ۔ اس سلسلے میں حکومت تمام تر وسائل کے باوجود بے بس اور لاچار نظر آتی ہے ۔
ماضی قریب میں ولی خان بابر،موسٰی خان خیل،سلیم شہزاد۔ مشتاق خان، عبدالحق بلوچ،عبدالقادر ہاجزئی،رزا ق گل،مکرم خان عاطف،جاوید نصیر رند،فیصل قریشی،شفیع اللہ خان،اسفند یار خان،نصراللہ خان آفریدی،پرویز خان ،عبدالوہاب،مصی خان،اعجاز رئیسانی،اعجاز الحق،غلام رسول،عظمت علی بنگش،ملک عارف،جان اللہ ہاشم زادہ،طاہر اعوان،محمد عمرا ن ،رحمت اللہ عابد،محمد ابراہیم ، سراج الدین ا ور دیگر کئی صحافیوں کی نہ ختم ہونے والی لسٹ ہے جن کو بے دردی سے قتل کیا گیا ۔
صوبہ بلوچستان کے صحافیوں نے کہا ہے کہ صوبہ میں کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ہمارے ساتھیوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے ۔خضدار میں پریس کلب کو تالا لگا دیا گیا ہے۔2008ء سے قبل بلوچستان میں صرف ایک صحافی قتل ہوا لیکن بعد میں ٹارگٹ کلنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہے ۔بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری حماد اللہ نے موجودہ حکومت کے دور کو صحافیوں کے لیے زیادہ خطرناک قراردیا ہے ۔بلوچستان میں قتل ہونے والے تمام صحافیوں کے قتل کی تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ دو درجن سے زائد صحافیوں کے قتل کے بعد ان کے گھر والے دربدر ہیں ۔
پاکستان صحافیوں کے لیے کیوں اس قدر خطرناک ہے اس بات کا جائزہ لیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں ۔پاکستان میں قانون کی عمل داری نہیں ہے ،صحافیوں کے تحفظ کا کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے ,جو قوانین ہیں انہیں بھی پامال کیا جاتا رہا ہے۔پہلے پہل تو حکومتی اور ریاستی ادارے ہی صحافیوں کو عملی تشدد کا نشانہ بناتے تھے لیکن اب غیر حکومتی طاقت ور گروپس،سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ بھی اپنی مرضی کے احکامات نہ ماننے پر صحافیوں کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ ان کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے ،میڈیا مالکان اس حوالے سے کوئی عملی اقدام نہیں کر پا رہے کہ وہ اپنے ورکرز کو کیسے تحفظ فراہم کریں ۔ حکومتی سطح پر کوئی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں کی گئی کہ فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جائے یا انہیں اور ان کے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔حفاظتی اقدامات کے لیے صحافیوں کو عملی تربیت فراہم نہیں کی جا رہی ۔صحافتی تنظیمیں پی ایف یو جے اور سی پی جے اپنے طور پر حفاظتی اقدامات بارے آگاہی پروگرام تو کراتے ہیں لیکن دیہاتی اور شورش زدہ علاقوں تک شاید ان کی پہنچ بھی نہیں ہے ۔صحافیوں کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات کا سلسلہ آج سے کئی سال پہلے شروع ہوا جو آج تک تھما نہیں ۔ملکی مفاد کی مناسب تشریح نہ ہونے کی بنا پر کئی صحافیوں کو غیر ملکی ایجنٹ تک کہا جاتا رہا ہے ۔
صحافیوں کے خلاف کی جانے والی کاروائیاں گو کہ ہر دور میں رہیں لیکن موجودہ جمہوری حکومت کے دور میں بڑی تعداد میں صحافیوں کی ہلاکتیں افسوس ناک ہیں ۔حکومتی اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے والے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے امتحان ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ،انشورنس،علاج معالجے اوربچوں کی تعلیم کے لیے کیا قانونی بل اپنی اپنی اسمبلی میں پیش کرتے ہیں ۔میڈیا مالکان کارکن صحافیوں کی حفاظت کے لیے کیا ہنگامی اقدامات کرتے ہیں ۔صحافتی تنظیموں کے عہدیداران کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں کیونکہ اب مذمت ۔قرارداد مذمت سے بات بہت آگے نکل گئی ہے ۔صحافیوں کے خون سے گلیاں اور بازار لال ہیں ۔خون کی یہ لالگی لاوا بن کر پھٹ پڑی توکچھ نہیں بچے گا۔اب پاکستان کو صحافیوں کے لیے پر امن بنانے کے لیے ہر ایک کو اپنے حصے کی قربانی دینا ہوگی کیونکہ صحافی تو اپنے حصے سے زائد کی قربانی دے چکے ہیں ۔

03006089969
[email protected]

Back to top button