کالم

انوارحسین حقی کا کالم ’’ حدِ ادب ‘‘ ۔۔ کپتان کو جنون نمل شہر علم

حدِ ادب
انوار حسین حقی
کپتان کو جنون ۔۔نمل شہرِ علم
_______________
بیس دسمبر کو سالٹ رینج کے سب سے اونچے ’’ڈھک پہاڑ ‘‘ کی ڈھلوان اور نمل جھیل کے کنارے ایک نئی دنیا آباد تھی ۔ یہ نمل یونیورسٹی کا تیسرا سالانہ کانووکیشن تھا ۔شوکت خانم میموریل ٹرسٹ جیسے انسانی خدمت کے عظیم الشان منصوبے کے معمار عمران خان اعلان کر رہے تھے کہ ’۔ ۔۔۔’’نمل شہرِ علم ‘‘ میرا جنون ہے ۔۔۔۔۔ اس منصوبے کی ابتدائی لاگت کا تخمینہ ایک سو ارب روپئے لگایا گیا ہے اس وقت اس ادارے میں 90 فی صد طلبہ مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں جس میں سے 75 فی صد کا رتعلق ملک کے پسماندہ و درماندہ علاقوں سے ہوتا ہے ۔ نمل یونیورسٹی کے تیسرے کانووکیشن میں بریڈ فورڈ کی ڈگریاں حاصل کرنے والے طلباء میں وزیرستان جیسے پسماندہ ،رزمک جیسے دوردراز ، لاہور اور فیصل آباد جیسے ترقی یافتہ علاقوں کے طالب علم بھی شامل تھے ۔ اس موقع پر عمران خان اپنے اس فخر کا اظہار بھی کرتے نظر آئے کہ پہلے میرے ضلع میانوالی سے لوگ پڑھنے کے لیئے لاہور اور دیگر ترقی یافتہ علاقوں کا رُخ کیا کرتے تھے اور اب ترقی یافتہ علاقوں سے لوگ حصولِ علم کے لیئے میانوالی کا رُخ کر رہے ہیں ۔ مسرت و انبساط کے عالم میں عمران خان نے اس ادارے کے لیئے زمین فراہم کرنے والی سیلوبرادری کی خدمات کو سراہا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ نمل کے ادارے کے فرنٹ اور سڑک کے درمیان زمین کے حصول کے لیئے وہ اس زمین کے مالکان سیلوبرادری سے زمین حاصل کرکے اس نالج سٹی کے لیئے ایک بین الاقوامی معیار کا سٹیڈیم قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن سیلو برادری کے لوگ یہ زمین دینے سے انکاری ہیں انہوں نے انتہائی بے تکلفانہ انداز میں کہا کہ اگر سیلو برادری نے یہ زمین نہ دی تو تحریک انصاف کی حکومت کے آنے پر یہ زمین سیکشن فور کا نفاذ کرکے حکومت ایکوائر کر لے گی اور پھر شائد اس زمین کے قابضین کو کچھ نہ ملے ۔۔۔۔ ابھی کپتان کی تقریر جاری تھی کہ ریٹنگ کی دوڑ میں اپنی ساکھ کو تحفظات کے حوالے کر دینے والے الیکٹرونک میڈیا نے ایک طوفان کھڑا کر دیا ۔ اور معاملے کو اس انداز میں پیش کیا گویا عمران خان زبردستی سیلو برادری کی زمینوں پر قبضہ کرنے چاہتے ہیں ۔۔۔غور طلب بات یہ ہے کہ میڈیا نے حقائق جاننے کی بجائے یکطرفہ گولہ باری جاری رکھی اور نیا موضوع ملنے تک لکیر کو پیٹنے میں مصروف رہا ۔۔
عمران خان نے جس زمین کے حاصل کرنے کی بات کی ہے وہ 24 کنال تین مرلے کی جگہ ہے ۔ یہ ایک بے آباد بنجر او ر پتھریلی زمین ہے جس کے مالکان صرف اس وجہ سے اسے فروخت کرنے سے انکاری ہیں کہ شاید مستقبل میں ’’نمل شہرِ علم‘‘ کی وجہ سے انہیں اس کی زیادہ قیمت مل جائے ۔۔اس وقت نمل یونیورسٹی میں سیلو برادری کے ساتھ افراد نہ صرف مختلف ملازمتوں پر فائز ہیں بلکہ ان کے بچے بھی میرٹ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ جبکہ تعمیراتی کاموں میں بھی اس برادری کے لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیئے گئے ہیں ۔
’’نمل شہرِ علم‘‘Namal Knowlodge City کی کہانی میں افسانوی رنگ نمایاں ہے ۔ 2002 ء کے عام انتخابات میں میانوالی سے قومی اسمبلی کے رُکن بننے کے بعد عمران خان اپنے جانثار ساتھی ملک طارق رکھی کے ہمراہ ان بیابان کہساروں میں ایک ٹیکنکل کالج کے لیئے جگہ تلاش کر رہے تھے ۔ کپتان جیسے ہی اس علاقے میں پہنچے تو انہیں ان بلندوبالا کہساروں اور چاندنی کے عکس والی نمل جھیل کے درمیان اقبال ؒ کے شاہینوں کا مستقبل اُجالے بکھیرتا نظر آنے لگا ۔ عمران خان کو خیال آیا کہ یہاں ایک ’’شہرِ علم ‘‘ آباد ہونا چاہئے ۔۔یہی وہ لمحہ تھا جب عمران خان نے اس ویرانے میں علم کا شہر آباد کرنے کو اپنا نصب العین بنا لیا ۔
2005 ء میں عمران خان یونیورسٹی آف برطانیہ کے چانسلر منتخب ہوتے ہیں ۔ سات دسمبر2005 ء کو انہوں نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا تواس موقع پر یونیورسٹی کے وائس چانسلرمارک کلیری(Mark Cleary ) یہ کہتے سُنے گئے کہ ’’ عمران خان نے اپنے سٹائل اور طرزِ عمل سے دنیا کی نمایاں ترین شخصیات میں سے ایک کا درجہ پایا ہے۔عمران نوجوانوں کے لئے ایک رول ماڈل ہے۔او ر یہ مشرق و مغرب کے درمیان ایک پُل ثابت ہوں گے۔‘‘
یونیورسٹی آف بریڈ فورڈ برطانیہ 1996 ء میں قائم ہوئی اور یک مختصر عرصے میں اس تعلیمی ادارے نے دنیا بھر میں اپنی ساکھ اور اعتبار قائم کر لیا۔ وہ برطانیہ کی دوسری بڑی درسگاہ ہے جس کے فارغ التحصیل طلبہ کو روزگار کی فراہمی میں ترجیح دی جاتی ہے۔عمران خان بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے مجموعی طور پر پانچویں اور پہلے انٹرنیشنل منتخب چانسلرتھے اور وہ سب سے زیادہ عرصہ تک اس منصب پر فائز رہے۔
بریڈ فورڈ یونیورسٹی کا چانسلر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے اپنے پسماندہ اور درماندہ آبائی ضلع میانوالی کا رخ کیا ۔ پاکستان سے دو گنا بڑی عمر وا لا یہ ضلع اپنے لیڈروں کی بے حسی کی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں بہت پچھے رہ گیاہے۔عمران خان نے اس مٹی کے باسیوں کے شب و روز بدلنے کے بارے میں سوچا تو ذہن میں آیا کہ تعلیمی ادارے ہی قوموں کی دنیا بدلتے ہیں۔ علم کی روشنی سے ہی جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں۔انہوں نے اس خوبصورت مگر ویران اور بیابان جگہ پر ’’نمل کالج ‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ابتداء میں نمل کے علاقے کی سیلو برادری نے اس منصوبے کے لئے چالیس کنال اراضی بطور عطیہ کالج کے حوالے کی اس راضی پر ایک خوبصورت عمارت قائم ہے ۔ بعد ازاں نمل ایجوکیشن فاونڈیشن نے حکومتِ پنجاب سے دہہ شاملات کی آٹھ ہزاراراضی ڈیڑھ کروڑ روپئے کے عوض حاصل کی ۔ اس مقصد کے لئے علاقے کے لوگوں اورنمل ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا کہ یہ اراضی صرف اور صرف فلاحی مقاصد کے لیئے استعمال ہو گی ۔
جن دنوں عمران خان نے ’’ شہرِ علم ‘‘ بسانے کی بات کی تو ملک پر جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی تھی۔پنجاب کے چوہدری اور ان جیسے کئی سیاستدان اس کے ہاتھ اور پاؤں بنے ہوئے تھے۔ عمران خان جنرل پرویز مشرف اور اس کے حواریوں کے سخت ترین مخالف تھے۔ پرویز مشرف کی حکومت نے عمران خان کو زچ کرنے کی خواہشِ ناتمام لئے اُن ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ ڈالنے کی کوششیں شروع کر دیں جو عمران خان نے اپنی مدد آپ کے تحت مختلف ملکی اور غیر ملکی اداروں کے ذریعے اپنے حلقہ انتخاب کی حالت بدلنے کے لئے شروع کئے ہوئے تھے۔مرکزی اور صوبائی حکومت کے کارندے اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے رات دن عمران خان کے ترقیاتی منصوبوں کی چھان بین میں ایک کردیا۔ لیکن وہ سب کے سب کسی حکومتی امداد کے بغیر شروع کئے گئے ان منصوبوں اور پروجیکٹوں کے حوالے سے کوئی بے قاعدگی یا بد عنوانی نہیں تلاش کر پائے۔حکومتی شرلک ہومز کی تمام کارروائیاں سلیم گل خان کے سینے میں دفن ہیں ۔
اس تعلیمی ادارے کے قیام میں صاحبِ ثروت افراد نے دل کھول کر عمران خان کا ہاتھ بٹایا’’ اہلِ دل ‘‘ کے بے مثال تعاون نے عمران خان کے جذبے کے لئے مہمیز کا کام کیا۔ اب خطے کی قسمت بدلنے لگی ہے۔ نمل جھیل کے کنارے قائم نمل یونیورسٹی اپنے قابلِ فخر ڈین ملک جہاں خان کی سر کردگی میں اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔اس ادارے کی فکیلٹی کے بارہ ممبران پی ایچ ڈی ہیں جن کا ذکر عمران خان اپنی ہر تقریرمیں فخر کے ساتھ کرتے ہیں ۔
عمران خان ’’شہر علم ‘‘ کے قیام کی کٹھن جد و جہد میں مصروف ہیں۔ بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے وفود ان کے عزم کی ہمنوائی کا اعادہ کرنے کے لئے میانوالی کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ ملک اور بیرون ملک سے بڑی تعداد میں ڈونرز بھی آتے رہتے ہیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اس’’ شخص ‘‘ پر قدرت کی کمال مہر بانی ہے کہ لوگ لاکھوں کروڑوں روپئے بے دھڑک ہو کر اس کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔کسی کے دل میں ایک لمحے کے لئے بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ان کی دی ہوئی رقم ضائع ہوگی یا خورد برد ہو جائے گی۔اگر ہمارے تمام لیڈر عمران خان سے ایمانداری کا سبق سیکھ لیں اور سیاست کو خدمت کا ذریعہ بنا لیں تو یقین جانیے کہ قیادت کا فقدان اور زندہ قائدین کا قبرستان چمنستان میں بدل جائے گا۔ضلع میانوالی کے باسیوں کو نوید ہو کہ انہیں قیادت کا جوہر قابل میسر آگیا ہے ان کے شہر کو ’’ شہر یار‘‘ مل گیا ہے۔ اب کوئی ان کے شہر ’’ میاں والی‘‘ کے بارے میں یہ نہیں کہ سکے گا یہ ایک ایسی بستی ہے جس کا نہ کوئی ’’ میاں ‘‘ ہے اور نہ کوئی ’’ والی‘‘ اور اب ہمیشہ کے لئے ’’ میاں والی ‘‘ کے بارے میں سدا سہاگن کا تائثر ابھرتا رہے گا۔

Back to top button