کالم

مسز جمشید خاکوانی کا کالم ” دکھوں کی انتہا پر ملتی ہے خوشی

دُکھوں کی انتہا پر ملتی ہے خوشی
والاس جانسن نامی ایک امریکی نوجوان نے اپنی زندگی کے حسین ترین ایام ایک ورکشاپ میں لکڑیاں چیرنے میں گذار دئیے اس کی جوانی کی بے مہار طاقت پُرمشقت اور سخت ترین کام کر کے کچھ زیادہ ہی تسکین پاتی تھی اور آرے پر لکڑیاں چیرتے چیرتے اُس کی زندگی کے چالیس سال گذر گئے ۔
یہ مشقت والا کام کرتے ہوئے والاس جانسن ہمیشہ اپنے آپ کو اس آرے کی مشین پر بہت اہم فرد محسوس کرتا تھا کہ ایک دن آرے کے مالک نے اُسے بلا کر ایک تشویشناک خبر دیتے ہوئے کہا ’’ میں تمہیں ابھی اور اسی وقت کام سے نکال رہا ہوں اور کل سے ادھر مت آنا ‘‘
والاس کے لیئے یہ خبر کسی مصیبت سے کم نہ تھی وہ وہاں سے نکل کر خالی ا لذہن اور پریشان حال سڑکوں پر نکل پڑا
یہ چیز اُسے سب سے زیادہ پریشان کر رہی تھی کہ وہ کس منہ سے جا کر اپنی بیوی کو بتائے گاکہ اُس کے پاس گھر کے گذارے کے لیے جو نوکری تھی وہ جاتی رہی تھی مگر ناچار شام کو لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اُسے گھر لوٹنا ہی پڑا والاس کی بیوی نے والاس کے برعکس نوکری چھوٹنے کی خبر نہایت تحمل سے سُنی اور والاس جانسن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا
’’ کیوں نہ ہم اپنے گھر کو رہن رکھ کر قرضہ اُٹھائیں اور تعمیرات کا کام شروع کر دیں۔‘‘ اور اُس نے واقعی ایسا ہی کیا، اپنے گھر کو رہن رکھ کر کچھ قرض اُٹھایا اور اس پیسے سے دو چھوٹے گھر بنائے۔ اس پہلے تعمیراتی کام میں اس کی اپنی محنت اور مشقت زیادہ شامل تھی وہ گھر اچھے پیسوں میں فروخت ہوئے۔۔۔ تو اس کا حوصلہ بڑھ گیا ۔اور پھر تو چھوٹے گھروں کے پروجیکٹ اس کی پہچان بن گئے اور اپنی محنت اور قسمت کے بل بوتے پر صرف پانچ سال کے مختصر عرصے میں ہی والاس ایک مشہور کروڑپتی والاس جانسن بن چکا تھا ۔ جس نے دنیا کے مشہور ترین ہوٹلوں کے سلسلے ہالی ڈے ان کی بنیاد رکھی ۔اس کے بعد تو یہ سلسلہ بڑھتا ہی گیا اور ہالی ڈے ان ہوٹل دنیا کے کونے کونے میں چھا گئے۔ یہ شخص اپنی ڈائری میں یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اگر آج مجھے معلوم ہو جائے کہ اس آرا ورکشاپ کا مالک جس نے مجھے کام سے نکالا تھا ، کہاں رہتا ہے تو میں جا کر دل کی گہرائیوں سے اس کا شکریہ ادا کروں، کیونکہ اس نے میرے لیے ایسی صورت حال پیدا کر کے بظاہر تو ایسی دردناک کیفیت پیدا کر دی تھی جس نے میرے ہوش وحواس ہی چھین لیے تھے مگر آج میں نے یہ جانا ہے کہ اگر اللہ نے مجھ پر ایک دروازہ بند کیا تھا تو اس کے بدلے ایک نیا راستہ بھی تو کھول دیا تھا جو کہ میرے اور میرے خاندان کے لیے زیادہ بہتر ثابت ہوا۔
جب کبھی بھی ناکامی کا سامنا ہو جائے تو اسے اپنا اختتام نہیں سمجھ لینا چاہیے بس زرا ہمت و حوصلے کے ساتھ زندگی کی عطا کردہ دوسری خوبیوں کے ساتھ سوچیں اور ایک نئی ابتدا کر لیں۔
یہ کہانی نہیں ایک سبق ہے شائد کوئی سوچے کہ اب ایسی انہونیاں کہاں ہوتی ہیں نہیں۔ صبر و تحمل اور محنت و لگن کبھی ضائع نہیں ہوتے یہ حال ہی کا واقعہ ہے ۔ باب بلوچ پاکستان سے آئے تو اس لیے تھے کہ وہ آئی ٹی کے شعبے میں قسمت آزمائی کریں گیاور اپنی منزل پا لیں گے لیکن انھیں اس فیلڈ میں ذہنی دباؤ کا سامنا تھا جس سے چھٹکارہ پانے کے لیے انھوں نے ایک ایسا شعبہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جس سے انھیں مالی فائدہ بھی پہنچے اور جو ذ ہنی کوفت کا باعث بھی نہ ہو پھلوں اور سبزیوں کا جو ذائقہ پاکستان میں ہے وہ کہیں اور نہیں بلاشبہ اس کی بڑی وجہ پاکستان کی ذرخیز مٹی ہے لیکن ایک اور وجہ یہ بھی ہے، وہ یہ کہ بیشتر مغربی ممالک میں زیادہ تر پھل اور سبز یاں دوسرے ممالک سے آتے ہیں جو یہاں پہنچنے کے بعد تازگی کھو دیتے ہیں جس سے ان کا ذائقہ متاثر ہوتا ہے بہت سے لوگ اس جانب توجہ نہیں دیتے اور کسی پاکستانی یا انڈین سٹور سے سبزیاں اور پھل خرید لیتے ہیں ۔لیکن اس نو آموز پاکستانی کاشتکار باب بلوچ نے کنیڈا میں دھوم مچا دی ہے ٹیلیوژن اخبارات اور ریڈیو پر باب بلوچ نامی اس تارک وطن کے انٹرویو پیش کیئے جا رہے ہیں جس نے کنیڈا میں بھنڈی اور میتھی کاشت کر کے سب کو حیران کر دیا ۔۔ تارکین وطن جب اپنا ملک چھوڑتے ہیں تو انہیں کئی چیزوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے کئی ایسے کام بھی کرنے پڑتے ہین جو پہلے نہیں کیئے ہوتے کبھی معاوضہ کم ملتا ہے تو کبھی ناپسندیدہ کام بھی کرنے پڑتے ہیں ، باب بلوچ اس معاملے میں خوش قسمت رہے کہ کنیڈا آنے کے بعد انہیں آئی ٹی کی فیلڈ میں ہی نوکری مل گئی لیکن انہوں نے ذہنی دباؤ سے چھٹکارہ پانے کے لیے اس کو چھوڑ کے زراعت کا پیشہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جس سے انھیں مالی فائدہ بھی پہنچے اور ذ ہنی کوفت بھی نہ ہو کینیڈاا کا شمار آب و ہوا اور زمین کی وجہ سے زرخیز ممالک میں کیا جاتا ہے یہاں بڑی تعداد میں لوگ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں لیکن اب آنے والے وقت میں اس شعبے میں کئی تبدیلیاں متوقع ہیں کیونکہ یہاں موجود کسانوں کی نصف تعداد 55 سے زیادہ عمر کو پہنچ چکی ہے جبکہ آیندہ دس برسوں میں یہ تمام کسان ریٹائر منٹ کی عمر کو پہنچ جائیں گے اگر اس جانب توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں کینیڈا کوزراعت کے شعبے میں افرادی قوت کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑے گا اس لیے نئے آنے والے تارکین وطن کو کاشتکاری کا شعبہ اختیار کرنے کی طرف رغبت دلائی جا رہی ہے یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں بے شمار فائدے ہیں پاکستان سے کینیڈا جانے والے امیگرینٹس اگر اس جانب سوچیں تو بہترین معاوضہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ باب بلوچ کو بھی ابتدا میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کے والدین کا خیال تھا وہ آئی ٹی کا شعبہ چھوڑ کے بے وقوفی کر رہے ہیں کیونکہ آئی ٹی میں ملازمتوں کے بے شمار مواقع ہیں لیکن انہوں نے اپنے مضبوط ارادے کو پایہء تکمیل تک پہنچایا اور کمپیوٹر ڈیسک چھوڑ کر کھلے میدان میں کاشتکاری کے لیے بھنڈی اور میتھی کا انتخاب کیا یہ دونوں سبزیاں جنوبی ایشیائی طبقے میں خاصی مقبول ہیں لیکن کینیڈا میں کاشت نہیں کی جاتیں بلوچ نے ابتدا میں چھوٹے پیمانے پر دو سبزیوں کی کاشت شروع کی لیکن جب انکی سبزیاں سٹور پر پہنچیں تو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئیں اور لوگوں نے اسے بہت سراہا چند ہی سالوں میں اب وہ کئی سبزیاں کاشت کر رہے ہیں
کینیڈا میں زراعت کی طرف نئے آنے والوں کے لیے حکومت کی طرف سے مالی معاونت اور دیگر امداد کے پروگرام بھی شروع کیے گئے ہیں۔۔یہاں پر ہمیں ایک لمحے کے لیے سوچنا پڑتا ہے کہ ہماری حکومتوں نے زراعت کی ترقی کے لیے کیا کیا بلکہ انہوں نے زراعت کو تباہ کرنے والا ہر حربہ استعمال کیا نہ پانی نہ بجلی مہنگی کھاد مہنگے سپرے جب بیچارہ کاشتکار گوناگوں مسائل سے نمٹ کر فصل منڈی میں لاتا ہے تو مناسب ریٹ نہیں ملتا ایک زرعی ملک کی یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے
اب تو خیر ہر شعبہ ہی تنزلی کا شکار ہے کیا زراعت کیا صنعت کچھ نہ بچانے کا عزم کر رکھا ہے باری باری آنے والوں نے ۔۔۔ لیکن مایوسی گناہ ہے ان دو واقعات سے ہی یہ سبق ملتا ہے کہ نیک نیتی اور لگن سے جو بھی کام کیا جائے اس کا صلہ ضرور ملتا ہے بس امید قائم رکھیں
کہ دکھوں کی انتہا پر مل جاتی ہے خوش

Back to top button