کالم

خُرم رضا بلوچ کی تحریر "” کچھ شرم ہوتی ہے حیا ہوتی ہے "

…*** کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے …******
سابق صدر پرویز
…*** کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے …****** سابق صدر پرویز مشرف 11اگست 1943 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور اکتوبر 1998 کو چیف آف آرمی سٹاف بنے. ایک سال بعد12 اکتوبر 1999 کو مسلم لیگ ن کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالی.30 اپریل 2013 کو ملک میں ایک متنازعہ ریفرنڈم کرایا. جولائی 2007 میں لال مسجد کی کاروائی کی. پانچ اکتوبر 2007 کو پرویز مشرف کی طرف سے سابق وزراءاعظم بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف پر تمام لگائے گئے چارجز سے محفوظ بناتے ہوئے انھیں ملک میں واپس آنے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی دعوت دی.3 نومبر 2007 کو ایمرجینسی لگائی اور چیف جسٹس آف پاکستان کو معزول کیا.18 فروری کو پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت میں آئی. پرویز مشرف نے 18 اگست 2008 کو صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا.اپریل 2009 میں ملک سے چلے گئے اور واپس نہ کا کا اعلان کیا لیکن 24 مارچ2013 کو خودساختہ جلا وطنی ختم کرکے انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش پر ملک میں واپس آئے. 20 اگست 2013 کو بےنظیر قتل کیس میں ان پر فرد جرم کی گئی . اور اس کے بعد موجودہ حکومت کی طرف سے آئین شکنی کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا. سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے بارہ جون 2014 کو سندھ ہائی کورٹ میں نام ای سی ایل سے نکالے جانے کی درخواست پر عدالت کی طرف سے فیصلہ پرویز مشرف کے حق میں دیتے ہوئے نام ای سی ایل سے ہٹانے کا حکم دیا لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا جس پر عدالت عظمٰی نے 16 مارچ 2016 کو سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالے جانے کے فیصلے کی توثیق کی. عدالتی فیصلہ آنے کے بعد سابق صد پرویز مشرف کی طرف سے کراچی ایئرپورٹ کے ذریعے ملک سے باہر جانے کے لیے بکنگ کی گئی لیکن ایف آئی حکام متحرک ہو گئے اور بغیر قانونی اجازت کے ملک سے باہر جانے میں رکاوٹ ڈالنے کا عندیہ دیا جس پر پرویز مشرف کے وکیل کی طرف سے ایک تحریری درخواست وزارت داخلہ کو دی گئی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے میں رکاوٹ ڈالنا غیرقانونی ہے اور اس قسم کی رکاوٹ کو توہین عدالت قرار دیا جائے گا. پرویز مشرف کے وکیل کی تحریری درخواست پر اپنے آقاؤں سے مشاورت کے بعد بالآخر وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پریس کانفرنس کے ذریعے پرویز مشرف کو علاج کی غرض سے ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کے فیصلے کا اعلان کیا. دریں اثناء سیکشن آفیسر ای سی ایل ڈاکٹر وقار منصور کی طرف سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے ذریعے ایئرپورٹ حکام کو پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکال دیے جانے کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا . سابق صدر پرویز مشرف 18 مارچ 2016 کو علی الصبح 3.55 پر کراچی ایئرپورٹ سے ایمریٹس Pk-611 سیٹ نمبر 11j سے دبئی کے لیے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے روانہ ہوگئے اور دبئی پہنچنے پر خصوصی سیڑھیاں لگا یر پرویز مشرف کو اتارا گیا اس موقع پر چند ورکرز اور رفقاء استقبال کے لیے پہنچے ہوئے تھے. سابق صدر پرویز مشرف کو آئین شکنی کے مقدمے میں قائم خصوصی عدالت میں جسٹس مظہر عالم کاکا خیل کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے 31 مارچ کو پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے جس میں ان سے لگائے گئے الزامات پر جواب طلب کیا گیا ہے. اس سے پہلے بھی پرویز مشرف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کے لیے قائم خصوصی عدالت میں صرف ایک مرتبہ پیش ہوئے ہیں۔ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کیا جا رہا اور پرویز مشرف کو ان کے وکلاء کی طرف سے تین سے چار ہفتوں میں واپس آنے کی یقین دہانی پر علاج کی غرض سے جانے کی اجازت دی گئی ہے. وزیر داخلہ چوہدری نثار نے مذکورہ فیصلہ کے اعلان کے موقع پر ہواس باختہ ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ممکنہ ردعمل سامنے آنے سے قبل ہی اسی پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی پر پرویزمشرف کو گارڈ آف آنر دینے اوربے نظیر بھٹو کے قتل میں نامزر ہونے کے با وجود باہر جانے کی اجازت دینے کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا. پرویز مشرف کے ملک سے جانے کے بعد سیاسی حلقوں کی طرف سے مختلف نوعیت کے ردعمل آ رہے ہیں. پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئیٹ کیا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے مشرف کو ورزی اتارنے پر مجبور کیا جبکہ آصف علی زرداری نے انھیں صدارتی ہاؤس سے نکالا لیکن ن لیگ نے کیا کیا؟؟ پءپلز پارٹی کی دیگر قیادت پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کو نوازشریف پرویزمشرف این آر او قرار دیا جا رہا ہے جبکہ مسلم لیگ ن پر ہمیشہ تنقید کرنے والے عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے موجودہ حکومت کے اس فیصلے کو ایک اچھا فیصلہ قرار دیا ہے. میڈیا پر مختلف جماعتوں کی قیادت کی طرف سے مختلف مؤقف سامنے آرہا ہے جس ہر پرویز مشرف کے وکیل کی طرف سے میڈیا پر بیان جاری ہوا ہے کہ پرویز مشرف کی علاج کی غرض سے ملک سے باہر جانے کو قانونی جنگ کے نتیجے میں ملنے والا انصاف قرار دیا ہے اور ای سی ایل سے نام نکالنے کے اس حکومت کے فیصلے کو ان کی قانونی مجبوری قرار دیا ہے.سابق صدر پرویزمشرف کے ملک سے چلے جانے کے بعد یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ کی 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم منتخب ہونے کے پہلے ہی روز میاں محمد نوازشریف نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کی کاروائی کرنے کے عزم کا اظہار کیا جبکہ احسن اقبال کی طرف سے مشرف کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی صورت میں سیاست سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا گیا.خواجہ آصف, خواجہ سعد رفیق سمیت شریف خاندان کے دیگر رفیقوں کی طرف سے پرویز مشرف کو غدار قرار دیئے جانے اور سخت سزا دینے کے اعلانات کا کیا ہوا ، آئین شکنی کے مقدمے سمیت دیگر مقدمات کی سماعت میں حکومت کی طرف سے عدم دلچسپی اور ایڈوکیٹ جنرل کی طرف سے سماعت میں صرف حاضری کی حد تک دلچسپی کے بعد یہ کہنے والے حق بجانب ہیں کہ پرویز مشرف کو کلین چٹ دینے کے لیے یہ ڈرامہ رچایا گیا ہے..سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر سابق چیف آف آرمی کے خلاف کاروائی کی جرأت و استقامت نہیں تھی تو شریف خاندان اور ان کے رفیقوں کی فوج ظفر موج کی طرف سے بلند و بانگ دعوے کیوں کیے گئے۔ انرجی بحران کے خاتمے کے دعووں کا پول کھلنے کے بعد اب آئین کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنے کی ڈرامہ بازی کرنے والوں کی طرف سے پرویز مشرف پر آئین شکنی کے مقدمے میں کلین چٹ دینے کے عمل پر اگر مسلم لیگ ن کے مخالفین اور پاکستان کی عوام کہے کہ ” کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے” تو حق بجانب ہو گی.مشرف 11اگست 1943 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور اکتوبر 1998 کو چیف آف آرمی سٹاف بنے. ایک سال بعد12 اکتوبر 1999 کو مسلم لیگ ن کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالی.30 اپریل 2013 کو ملک میں ایک متنازعہ ریفرنڈم کرایا. جولائی 2007 میں لال مسجد کی کاروائی کی. پانچ اکتوبر 2007 کو پرویز مشرف کی طرف سے سابق وزراءاعظم بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف پر تمام لگائے گئے چارجز سے محفوظ بناتے ہوئے انھیں ملک میں واپس آنے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی دعوت دی.3 نومبر 2007 کو ایمرجینسی لگائی اور چیف جسٹس آف پاکستان کو معزول کیا.18 فروری کو پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت میں آئی. پرویز مشرف نے 18 اگست 2008 کو صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا.اپریل 2009 میں ملک سے چلے گئے اور واپس نہ کا کا اعلان کیا لیکن 24 مارچ2013 کو خودساختہ جلا وطنی ختم کرکے انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش پر ملک میں واپس آئے. 20 اگست 2013 کو بےنظیر قتل کیس میں ان پر فرد جرم کی گئی . اور اس کے بعد موجودہ حکومت کی طرف سے آئین شکنی کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا. سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے بارہ جون 2014 کو سندھ ہائی کورٹ میں نام ای سی ایل سے نکالے جانے کی درخواست پر عدالت کی طرف سے فیصلہ پرویز مشرف کے حق میں دیتے ہوئے نام ای سی ایل سے ہٹانے کا حکم دیا لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا جس پر عدالت عظمٰی نے 16 مارچ 2016 کو سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالے جانے کے فیصلے کی توثیق کی. عدالتی فیصلہ آنے کے بعد سابق صد پرویز مشرف کی طرف سے کراچی ایئرپورٹ کے ذریعے ملک سے باہر جانے کے لیے بکنگ کی گئی لیکن ایف آئی حکام متحرک ہو گئے اور بغیر قانونی اجازت کے ملک سے باہر جانے میں رکاوٹ ڈالنے کا عندیہ دیا جس پر پرویز مشرف کے وکیل کی طرف سے ایک تحریری درخواست وزارت داخلہ کو دی گئی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے میں رکاوٹ ڈالنا غیرقانونی ہے اور اس قسم کی رکاوٹ کو توہین عدالت قرار دیا جائے گا. پرویز مشرف کے وکیل کی تحریری درخواست پر اپنے آقاؤں سے مشاورت کے بعد بالآخر وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پریس کانفرنس کے ذریعے پرویز مشرف کو علاج کی غرض سے ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کے فیصلے کا اعلان کیا. دریں اثناء سیکشن آفیسر ای سی ایل ڈاکٹر وقار منصور کی طرف سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے ذریعے ایئرپورٹ حکام کو پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکال دیے جانے کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا . سابق صدر پرویز مشرف 18 مارچ 2016 کو علی الصبح 3.55 پر کراچی ایئرپورٹ سے ایمریٹس Pk-611 سیٹ نمبر 11j سے دبئی کے لیے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے روانہ ہوگئے اور دبئی پہنچنے پر خصوصی سیڑھیاں لگا یر پرویز مشرف کو اتارا گیا اس موقع پر چند ورکرز اور رفقاء استقبال کے لیے پہنچے ہوئے تھے. سابق صدر پرویز مشرف کو آئین شکنی کے مقدمے میں قائم خصوصی عدالت میں جسٹس مظہر عالم کاکا خیل کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے 31 مارچ کو پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے جس میں ان سے لگائے گئے الزامات پر جواب طلب کیا گیا ہے. اس سے پہلے بھی پرویز مشرف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کے لیے قائم خصوصی عدالت میں صرف ایک مرتبہ پیش ہوئے ہیں۔ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کیا جا رہا اور پرویز مشرف کو ان کے وکلاء کی طرف سے تین سے چار ہفتوں میں واپس آنے کی یقین دہانی پر علاج کی غرض سے جانے کی اجازت دی گئی ہے. وزیر داخلہ چوہدری نثار نے مذکورہ فیصلہ کے اعلان کے موقع پر ہواس باختہ ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ممکنہ ردعمل سامنے آنے سے قبل ہی اسی پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی پر پرویزمشرف کو گارڈ آف آنر دینے اوربے نظیر بھٹو کے قتل میں نامزر ہونے کے با وجود باہر جانے کی اجازت دینے کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا. پرویز مشرف کے ملک سے جانے کے بعد سیاسی حلقوں کی طرف سے مختلف نوعیت کے ردعمل آ رہے ہیں. پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئیٹ کیا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے مشرف کو ورزی اتارنے پر مجبور کیا جبکہ آصف علی زرداری نے انھیں صدارتی ہاؤس سے نکالا لیکن ن لیگ نے کیا کیا؟؟ پءپلز پارٹی کی دیگر قیادت پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کو نوازشریف پرویزمشرف این آر او قرار دیا جا رہا ہے جبکہ مسلم لیگ ن پر ہمیشہ تنقید کرنے والے عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے موجودہ حکومت کے اس فیصلے کو ایک اچھا فیصلہ قرار دیا ہے. میڈیا پر مختلف جماعتوں کی قیادت کی طرف سے مختلف مؤقف سامنے آرہا ہے جس ہر پرویز مشرف کے وکیل کی طرف سے میڈیا پر بیان جاری ہوا ہے کہ پرویز مشرف کی علاج کی غرض سے ملک سے باہر جانے کو قانونی جنگ کے نتیجے میں ملنے والا انصاف قرار دیا ہے اور ای سی ایل سے نام نکالنے کے اس حکومت کے فیصلے کو ان کی قانونی مجبوری قرار دیا ہے.سابق صدر پرویزمشرف کے ملک سے چلے جانے کے بعد یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ کی 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم منتخب ہونے کے پہلے ہی روز میاں محمد نوازشریف نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کی کاروائی کرنے کے عزم کا اظہار کیا جبکہ احسن اقبال کی طرف سے مشرف کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی صورت میں سیاست سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا گیا.خواجہ آصف, خواجہ سعد رفیق سمیت شریف خاندان کے دیگر رفیقوں کی طرف سے پرویز مشرف کو غدار قرار دیئے جانے اور سخت سزا دینے کے اعلانات کا کیا ہوا ، آئین شکنی کے مقدمے سمیت دیگر مقدمات کی سماعت میں حکومت کی طرف سے عدم دلچسپی اور ایڈوکیٹ جنرل کی طرف سے سماعت میں صرف حاضری کی حد تک دلچسپی کے بعد یہ کہنے والے حق بجانب ہیں کہ پرویز مشرف کو کلین چٹ دینے کے لیے یہ ڈرامہ رچایا گیا ہے..سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر سابق چیف آف آرمی کے خلاف کاروائی کی جرأت و استقامت نہیں تھی تو شریف خاندان اور ان کے رفیقوں کی فوج ظفر موج کی طرف سے بلند و بانگ دعوے کیوں کیے گئے۔ انرجی بحران کے خاتمے کے دعووں کا پول کھلنے کے بعد اب آئین کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنے کی ڈرامہ بازی کرنے والوں کی طرف سے پرویز مشرف پر آئین شکنی کے مقدمے میں کلین چٹ دینے کے عمل پر اگر مسلم لیگ ن کے مخالفین اور پاکستان کی عوام کہے کہ ” کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے” تو حق بجانب ہو گی.

Back to top button