پہلی اردو سخن کانفرنس چوک اعظم
خالد ندیم شانی۔ عیسیٰ خیل
میانوالی سے روانہ ہوئے تو ہم چار تھے . میں، سمیع نوید، شاکر خان اور مظہر نیازی۔ دورانِ سفر ہر پندرہ منٹ بعد عمار یاسر کی کال آتی اور ہمیںسرشار کرتی۔ وہ پوچھتا ” کہاں پہنچے ہو یار؟”۔ حالانکہ وہ خود بھی ابھی راستے میں تھا ۔چوک اعظم میں رات ہو چلی تھی جب ہم وہاں طلوع ہوئے۔اردو سخن ڈاٹ کام کے آفس میں ندیم اختر، شبیر قریشی، عمار یاسرمگسی اور ناصر ملک کا والہانہ اور دلبرانہ استقبال دیدنی تھا۔ وہاں کچھ دیر بعد جبار واصف محترم اعتبار ساجد کے ہمراہ آ پہنچے ۔یہ جبار واصف سے میری پہلی اور اعتبار ساجد صاحب سے میری دوسری خوشگوار ملاقات تھی۔کچھ لمحے تو یہیں محفل جمی پھر اس قافلے کوعنایت ریسٹ ہاؤس چوک اعظم لے جایا گیا جہاں اعتبار ساجد صاحب اپنی یادوں کے باغیچے سے خوشبو کشید کر کے ہماری سماعتوں کو تا دیر معطر کرتے رہے۔کچھ دیربعد ڈسکہ سے امین شاد،شبیر بلو، نصیر احمد اور افتخار شاہد کا قافلہ بھی وہیں آ پہنچا ۔ان کے بعد محبوب صابر کےشہر سیالکوٹ سے شجاع شاذ بھی آ گئے۔عدم، طفیل ہوشیار پوری، فیض، فراز، عباس تابش، ناصر کاظمی، میر اور غالب ہمارے ساتھ رات گئے تک جاگتے رہے ۔جب سب نے آرام کا فیصلہ کیا تو شاکر خان، عمار یاسر، سمیع نوید، مظہر نیازی، شجاع شاذ، ناصر ملک اور میں الگ کمرے میں آ گئے۔ یہاں اس طوفان بدتمیزی کا آغاز ہوا جو ہم یاروں کا خاصہ ہے ۔عمار یاسر نے حسبِ روایت اساتذہ کے مصرعوں کی ایسی ایسی پیروڈیاں کیں کہ ویرانہ قہقہوں سے آباد ہو گیا ۔چائے اورلطائف کے بعد شاعری کا دور چلا ۔شاکر خان، عمار یاسر اور شجاع شاذ کی غزلوں نے سرشار کر دیا تو رات کے آخری پہر ہم سب نے مظہر نیازی بھائی سے ترنم کے ساتھ کلام کی فرمائش کی۔ شاعری اور سر ایک ساتھ محو رقص ہو گئے ۔
صبح ناشتے کی میز پر میں ڈر رہا تھا کہ ہماری رات کی ہڑبونگ پر اعتبار ساجد صاحب ضرور سرزنش کریں گے مگر انھوں نے کہا ” بھئی یہی تو زندگی ہے … مجھے بہت اچھا لگا ” تو میرا دل باغ باغ ہو گیا۔ بھرپور ناشتے کے بعد ہم سب کانفرنس کے لیے گورنمنٹ گرلز کالج چوک اعظم پہنچے تو لان میں بہت سے ادباء پہلے سے موجود تھے ۔ جناب اشو لال، افضل صفی، افضل چوہان، رضی الدین رضی ،ریاض راہی، سلیم اختر ندیم اور کچھ اجنبی دوست۔جنوری کی دھوپ اور اشو لال فقیر کی پر لطف گفتگو یکساں طور پر دلوں کو گرماتی رہی۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ اچانک گورنمنٹ گرلز کالج کے در و دیوار جھوم اٹھے۔ ہوا نے کان میں سرگوشی کی ” وہ دیکھو کون آیا ہے؟”
میں نے فورا” پلٹ کے دیکھا ۔ جناب حامد سراج کو لیے ناصر ملک ہماری طرف آ رہے تھے ۔لان ان کے بیٹھتے ہی رنگوں سے بھر گیا ۔میں نے محترم حامد سراج ایسا مکمل ادیب اور کوئی نہیں دیکھا ۔ ان کو پڑھنے والے انھیں لفظوں کا جادوگر سمجھتے ہیں لیکن ان سے ملنے والے ہی جانتے ہیں کہ ان کی شخصیت کا سحر کتنا قاتل ہے ۔
کانفرنس کا آغاز دس بجے کے بجائے بارہ بجےکلام پاک اور نعت رسولؐ سے ہوا۔کانفرنس کے چار سیشن تھے ۔ پہلا سیشن دو کتابوں کی رونمائی، جبار واصف کا مجموعہ کلام ” میری آنکھوں میں کتنا پانی ہے” اور صابر عطا کی کتاب ” باتیں ملاقاتیں ” کی تقاریب منعقد ہوئیں۔ دوسرا سیشن اردو سخن ایوارڈ کا تعارفی سیشن تھا ۔ تیسرا سیشن بچوں کے ادب پر مشتمل تھا جبکہ چوتھا سیشن محفل مشاعرہ کی صورت میں انعقاد پذیر ہونے والا تھا۔
کانفرنس روم کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ جبار واصف کی کتاب پر گفتگو شروع ہوئی تو میں اسٹیج بینر پر موجود تصاویرکو دیکھنے میں مگن ہو گیا کہ دیکھوں کہ کون کون نہیں آیا؟ پہلی نظر توقیر عباس پر پڑی ۔ میں نے اس سے کہا ” مجھے پتہ تھا تو نہیں آئےگا”۔ دوسری نظر عاطف مرزا پر پڑی۔ میں نے کہا ” مرزایار! تیرا تو مجھے ناصر ملک نے یقین دلایا تھا کہ وہ تو ضرور آئے گا۔” عاطف مرزا سے میں نے بہت سی باتیں کیں جو یہاں لکھوں تو آپ ہنسیں گے اور عاطف مرزا اپنی رجمنٹ لے کر مجھ پہ حملہ آور ہو جائے گا۔ خیر یار زندہ صحبت باقی۔۔۔ پہلے سیشن میں دو افراد نے قابل ذکر بات چیت کی .
جناب رائو احمد سجاد بابر، جناب ناصر ملک اور جناب اعتبار ساجد نے جبار واصف کی کتاب پر سیر حاصل گفتگو کی اور یہ ساری گفتگو نستعلیق اردو اور خلوص سے بھری ہوئی تھی۔ جناب عمران میر اور جناب منور بلوچ نے صابر عطا کی کتاب پر بھرپور مقالہ پیش کیا ۔ مقالہ جات کے بعد کتابوں کی باقاعدہ رونمائی کی گئی۔دوسرا سیشن اردو سخن ایوارڈ کا تعارفی سیشن تھا جس میں ڈسکہ کے اولیں انعام یافتہ شاعر امین شاد نے اردو سخن ایوارڈ کا تعارف پیش کیا اور ڈاکٹر اسلم جمشید پوری اور امجد جاوید کو ایوارڈ کے حصول کی مبارک باد پیش کی۔ تیسرا سیشن شروع ہی ہوا تھا کہ مجھے موبائل پر میسج موصول ہوا "یار! پیچھے مڑ کر بھی دیکھ لیا کرو۔” فون نمبر توقیر عباس کا تھا۔ میں نے جھٹ سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو توقیر آخری نشست پر اپنی اونی ٹوپی میں لپٹا بیٹھا تھا ۔ میں فورا” اٹھ کر اس کے پاس گیا اور ساتھ ہی سمیع نوید، شاکر خان، مظہر نیازی اور عمار یاسر کو پیغام بھجوایا کہ باہر آ جاؤ توقیر عباس صاحب تشریف لا چکے ہیں۔ہم سب اٹھ کر باہر آ گئے ۔توقیر ہمارا بہت بیبا دوست ہے۔اس کی شخصیت کو اگر ایک فقرے میں بیان کرنا ہو کہ کون توقیر عباس ؟تو میں کہوں گا ” مستقل مسکراہٹ ضرب مستقل بہار برابر ہے توقیر عباس۔”
گرلز کالج کے ایک کلاس روم میں ہم دوستوں نے تب تک گپیں ہانکیں ،سیلفیاں بنائیں جب تک ہمیں یہ خبر نہ ہو گئی کہ کانفرنس میں چائے کا وقفہ ہو گیا ہے ۔ چائے ، سموسے، بسکٹ، مٹھائی، ناصر ملک، ندیم اختر اور شبیر قریشی صاحب کے ڈھیر سارے خلوص سے ہماری تواضع کی گئی ۔اب باری تھی جناب حامد سراج کے صدارتی خطبے کی جس کا ہمیں شدت سے انتظار تھا۔
حامد سراج صاحب نے بولنا شروع کیا تو کانفرنس میں موجود ہر فرد ہمہ تن گوش تھا ۔لفظوں کی ایک آبشار تھی جس نے سبھی کو بھگو دیا۔ موجودہ پاکستانی حالات اور ہماری ذمہ داری پر ان کی مدلل گفتگو جب تمام ہوئی تو سبھی کی آنکھوں میں پانی تھا۔
چوتھا اور آخری سیشن مشاعرے کا تھا ۔پہلی اردو سخن کانفرنس کا یہ پہلا غیر روایتی مشاعرہ تھا جس میں مقامی شعراء کو بعد میں اور مہمانوں کو پہلے دعوت کلام دی گئی کہ جس مہمان کو جانے کی جلدی ہو اسے پریشانی نہ ہو۔مشاعرے کی نظامت معروف صحافی اور شاعر صابر عطا کے حصے میں آئی اور صدارت محترم اعتبار ساجد نے فرمائی ۔رضی الدین رضی، ریاض راہی، اشو لال فقیر، منور بلوچ، افضل چوہان، رانا محمد افضل ، جبار واصف و دیگر ممتاز شاعر اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔ مشاعرے میں تمام شعراء نے خوبصورت کلام پیش کیا اور خوب داد سمیٹی۔ساڑھے پانچ بجے یہ مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا اور ہم لوگ ناصر ملک ، ندیم اختر اور شبیر اختر قریشی کی محبتوں اورخلوص سے سرشار اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔
اس کامیاب اور یادگار کانفرنس کے انعقاد پر ناصر ملک، ندیم اختر اور شبیر قریشی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔