"سپیشل ایڈیشن یوم وفات” حضرت سیدناابوبکرصدیقؓ
حافظ کریم اللہ چشتی
ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَافِی الْغَارِکے محورو مصداق
حضرت سیدناابوبکرصدیقؓ
ارشادباری تعالیٰ ہے۔اِلَّاتَنْصُرُوْہُ فَقَدْنَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْاَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَافِی الْغَارِاِذْیَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَافَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہ‘عَلَیْہِ وَاَیَّدَہ‘بِجُنُوْدِلَّمْ تَرَوْھَاوَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوالسُّفْلٰی وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَاوَاللّٰہ عَزِیْز’‘حَکِیْم’‘*
ترجمہ کنزالایمان:اگرتم محبوب کی مددنہ کروتوبیشک اللہ پاک نے ان کی مددفرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہرتشریف لے جاناہواصرف دو جان سے جب وہ دونوں غارمیں تھے جب اپنے یارسے غم نہ کھابے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے تواللہ تعالیٰ نے اس پراپناسکینہ اتارااوران فوجوں سے ان کی مددکی جوتم نے نہ دیکھیں اورکافروں کی بات نیچے ڈالی اللہ ہی کابول بالاہے اوراللہ غالب حکمت والاہے ۔(پارہ۱۰سورۃ التوبۃ آیت ۴۰)
آیت کریمہ کاشان نزول:یہ آیت کریمہ غزوہ تبوک کے موقعہ پرمسلمانوں کوجہادکی رغبت دینے کے لئے نازل ہوئی۔یہ غزوہ ماہ رجب 9 ہجری غزوہ طائف کے بعدواقع ہوا۔تبوک مدینہ منورہ سے 14میلکے فاصلہ پرشام کی جانب واقع ہے سرکاردوعالم ﷺنے یہ غزوہ بڑے اہتمام سے کیااس موقع پرقحط سالی مسلمانوں پرسخت تنگی تھی سخت گرمی کاموسم تھا۔اس غزوہ میں سیدناحضرت عثمان غنیؓ نے دس ہزارمجاہدوں کوسامان جہاددس ہزاراشرفیاں نوسواونٹ سوگھوڑے مع سامان دیئے اس غزوہ میں سیدناابوبکرصدیقؓ نے اپنے گھرکاسارامال اورسیدناعمرفاروقؓ نے آدھامال حاضرکیا۔
نام ونسب جامع الکمالات ،مجمع الفضائل ،اصدق الصادقین،سیدالمتقین،افضل البشربعدالانبیاء،محبوب حبیب خدا،صاحب صدق وصفا،خلیفہ اوّل،جانشین محبوب رب،امیرالمومنین،عاشق شہنشاہ بحروبرحضرت سیدناابوبکرصدیقؓ کی ولادت باسعادت کے بارے میں علامہ ابن حجرعسقلانیؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدناابوبکر صدیقؓ واقعہ فیل کے قریباََاڑھائی سال بعد۵۷۲ ء میں پیداہوئے۔ آپؓ کانام عبداللہ کنیت ابوبکراورالقاب صدیق وعتیق ہیں ۔آپؓکے والدماجدکانام حضرت عثمان جن کی کنیت ابوقحافہ ہے آپؓ کی والدہ ماجدہ کانام حضرت سلمیٰ بنت صخرؓ ہے جواپنی کنیت اُم الخیرسے مشہورہوئیںآپؓ کاشجرہ نسب یوں ہے ۔حضرت سیدنا عبداللہ (ابوبکرصدیقؓ) بن حضرت عثمان (ابوقحافہؓ) بن عامربن عمروبن کعب بن سعدبن تیم بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہربن مالک بن نضربن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزاربن معدبن عدنان ہیں ۔آپؓ کاشجرہ نسب معرہ بن کعب پرحضورﷺسے ملتاہے ۔آپؓ چار پشت کے صحابی ہیں والدین بھی خودبھی ساری اولادبھی ساری اولادکی اولادبھی صحابی جیسے حضرت یوسف علیہ السلام چارپشت کے نبی ،یہ آپؓ کی خصوصیت ہے ۔
آپؓکے لقب صدیق کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب سرورکائنات ،فخرموجودات ،ابنیاء ورسل کے سردار،شافع روزجزاحضرت محمدمصطفیﷺ معراج کے بعدواپس آئے توآپﷺنے قریش مکہ کواپنی معراج سے آگاہ کیاتوانہوں نے آپﷺکی تکذیب کی قربان جاؤں سیدناابوبکرصدیقؓ پرجب آپؓ کو پتہ چلاتوآپؓنے فرمایامیں سرورکائنات فخرموجودات ﷺ کے معراج پرجانے کی تصدیق کرتاہوں چنانچہ حضورنبی کریمﷺنے آپ کی اس تصدیق کی وجہ سے آپؓ کوصدیق کا لقب عطاکیاامام نوویؒ سیدناحضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ سیدناحضرت ابوبکرصدیقؓ کالقب صدیق اس وجہ سے ہے کہ آپؓ ہمیشہ سچ بولاکرتے تھے آپؓ نے نبی کریمﷺکی نبوت کی تصدیق میں جلدی کی اورآپؓ سے کبھی کوئی لغزش نہیں ہوئی ۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓسے مروی ہے کہ ایک روزمیں اپنے حجرہ مبارک میں موجودتھی اورباہرصحن میں کچھ صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور نبی کریمﷺکے ہمراہ تشریف فرماتھے۔اس دوران حضرت سیدناابوبکرصدیقؓ تشریف لائے توحضورنبی کریمﷺنے فرمایاجولوگ کسی عتیق (آزاد) کو دیکھنا چاہیں وہ ابوبکرصدیقؓ کودیکھ لیں
حضرت ابوبکرصدیقؓ کی سیرت مبارکہ:آپؓکاتعلق قبیلہ قریش کے ایک قبیلہ بنوتیم سے تھا۔آپؓ کاشمارایک خوش اخلاق نیک سیرت اورایمان دارتاجروں میں ہوتاہے ۔ آپؓ دورجاہلیت میں بھی کبھی بتوں کے آگے سجدہ ریزنہ ہوئے ۔ آپؓ نے دورجاہلیت سے ہی اپنے اوپرشراب کوحرام قراردے دیاتھا۔ آپؓ نے کبھی بھی شراب کوہاتھ نہیں لگایاحتیٰ کہ آپؓ دورجاہلیت کی تمام معاشرتی برائیوں سے پاک رہے آپؓ پیشے کے لحاظ سے کپڑے کے تاجرتھے آقادوجہاں سرورکون مکان ﷺکے اعلان نبوت کے بعد آپﷺکی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے علاوہ اگرسب سے پہلے کسی نے آپﷺکی آوازپرلبیک کہاتووہ سیدناامیرالمومنین حضرت ابوبکرصدیقؓ کی ذات تھی۔حضرت زیدؓ اورحضرت علیؓ میں ایک کی حیثیت زرخرید غلام کی تھی تودوسرے کی حیثیت حضرت محمدمصطفی احمدمجتبیٰ ﷺکے چچازادیعنی ایک گھریلوفردکی تھی یہ دوصحابہ کرام علہیم الرضوان اسی موقع پرمشرف بہ اسلام ہوئے۔ ایسے موقع پرسیدناامیرالمومنین حضرت ابوبکرصدیقؓ کی والہانہ محبت اورقبول اسلام کی پہل کے بارے میں آپﷺکاارشادہی سب سے موزوں اور وقیع شہادت ہے امام سہیلیؒ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے جب سیدناابوبکرصدیقؓکو دعوت اسلام دی توآپؓنے بغیرکسی ترددکے اس دعوت کوقبول فرمالیا۔آپؓ نے اسلام قبول کرنے سے پہلے خواب میں چانددیکھاجومکہ مکرمہ کی طرف نازل ہوا اورہرگھرمیں علیحدہ علیحدہ داخل ہواوہ چاندجس گھرمیں بھی داخل ہواوہ گھرنورسے چمک اٹھاپھروہ چاندمیرے گھر میں داخل ہوااورمیری گودمیں جمع ہوگیاآپؓ نے جب اس خواب کی تعبیرچنداہل کتاب سے معلوم کی تو انہوں نے بتایاکہ جس نبی کاانتظارتھااس کی آمدہوچکی ہے اور تم اس نبی کے دامن سے وابستہ ہوگے اور تمام لوگوں سے زیادہ سعادت مندہوں گے مؤرخین نے ابتداء میں اسلام قبول کرنے والوں کی تقسیم کی ہے بچوں میں سے سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ غلاموں میں سے حضرت زیدؓ عورتوں میں سیدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ اورعام جوانوں میں سیدناحضرت ابوبکر صدیقؓ سب سے پہلے اسلام لائے ۔ایک موقع پرآپﷺنے ارشاد فرمایا کہ جب میں نے علیؓ کواسلام پیش کیاتوانہوں نے فرمایامیں اپنے والدسے پوچھ کربتاؤں گا۔ انہوں نے اپنے والد ابوطالب سے پوچھاتوابوطالب نے کہامیں نہ تواسے روکتاہوں اورنہ اسے قبول کرنے کاکہتاہوں چنانچہ حضرت علیؓ نے اگلے دن آقاﷺ کا کلمہ پڑھ لیا۔جس روزسیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ ایمان لائے تواس روزآپؓ کے پاس چالیس ہزاردرہم تھے آپؓ نے وہ سب کے سب آپﷺپرخرچ کردیئے۔ آپؓ کی صحابیت قطعی ایمانی قرآنی ہے لہذااس کاانکارکفرہے۔ آپؓ کادرجہ حضورﷺکے بعدسب سے بڑاہے کہ انہیں رب نے آقاﷺکاثانی فرمایا ہے حضورﷺکے بعدخلافت سیدناابوبکر صدیقؓ کے لئے ہے رب تعالیٰ انہیں دوسرابناچکاہے پھرانہیں تیسرایاچوتھا کرنے والاکون ہے وہ توقبرمیں بھی دوسرے ہیں حشرمیں بھی دوسرے ہوں گے ۔ آپؓ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سب سے زیادہ عالم اورذکی تھے ۔جب کسی مسئلے کے متعلق صحابہ کرام علہیم الرضوان میں اختلاف رائے ہوتاتووہ مسئلہ سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ کے سامنے پیش کیاجاتاآپؓ اس پرجوحکم لگاتے وہ عین ثواب ہوتا۔ آپؓکو قرآن پاک کاعلم بہت زیادہ تھا اسی وجہ سے آپﷺنے آپؓ کو نمازمیں امام بنایا۔آپؓکوسنت مبارکہ کاعلم کامل تھا۔اسی وجہ صحابہ کرام علیہم الرضوان مسائل سنت میں آپؓ سے رجوع فرماتے آپؓ کاحافظہ بہت قوی تھاآپؓ نہایت ذکی الطبع تھے ۔آپؓ کودورخلافت میں جب کوئی معاملہ پیش آتاتوآپؓ قرآن مجیدفرقان حمید میں اس مسئلے کوتلاش کرتے اگر قرآن مجیدفرقان حمیدمیں نہ ملتاتوآپﷺکے قول وفعل کے مطابق فیصلہ کرتے اگرایساقول وفعل کوئی نہ معلوم ہوتاتوباہرنکل کر لوگوں سے دریافت فرماتے۔ کہ تم میں کسی نے اس متعلق کوئی حدیث سنی ہے ؟اگرکوئی صحابی ایسی حدیث بیان نہ فرماتے ۔ توآپؓ جلیل القدرصحابہ کرام کوجمع فرماتے اور ان کی کثرت رائے سے فیصلہ صادرفرماتے ۔9ہجری میں غزوہ تبوک سے واپسی پرحضورنبی کریمﷺ نے حضرت سیدناابوبکرصدیقؓ کوامیرحج مقررکیا آپؓ تین سوصحابہ کرام کاقافلہ لے کرمدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ حج کے لئے روانہ ہوئے ۔آپؓجس وقت منصب خلافت پرسرفرازہوئے اس وقت جومسئلہ آپؓ کی خلافت کے لئے کھڑاہواوہ منکرین زکوٰۃ تھے ۔آپؓ نے ان منکرین زکوٰۃ کے خلاف ایک لشکرترتیب دیا۔صحابہ کرام علہیم الرضوان نے آپؓ کوسمجھانے کی کوشش کی کہ ہمیں اسوقت منکرین زکوٰۃ کے ساتھ نرمی کاسلوک کرناچاہیے تاکہ وہ دین اسلام سے متنفرنہ ہوں ۔آپؓ نے مسجدنبویﷺمیں تقریرکرتے ہوئے فرمایا۔اللہ کی قسم!جوشخص حضورنبی کریمﷺکی زندگی میں بکری کا ایک بچہ بھی زکوۃ دیتااوراب اس کے دینے سے انکاری ہے میں اس کے خلاف جہادکروں گا۔آپؓ کی تقریرکوسن کرتمام صحابہ کرام علہیم الرضوان نے آپؓ کے اس فیصلے کوسراہاحضرت سیدناابوبکرصدیقؓ نے منکرین زکوٰۃ کی سرکوبی کے لئے لشکربھیجاجس نے ان کو تابع کیااورہ دوبارہ سے زکوٰۃ کانظام نافذکیا۔آپؓ نے اپنی خلافت کے ابتدائی مہینوں میں سلطنت کومستحکم کرنے کی طرف اپنی ساری توجہ مرکوزرکھی اورتمام چھوٹے بڑے فتنوں منکروں اورمرتدوں کاخاتمہ کیااورجتنی بغاوتیں حضورنبی کریمﷺکے وصال کے بعدشروع ہوگئیں سب کاقلع قمع کیا۔
ایک روزآقائے دوجہاں سرورکون ومکاںﷺسیدناحضرت ابوبکرصدیقؓکے ساتھ مسجدحرام میں تشریف لے گئے۔ وہاں پرسیدناحضرت ابوبکر صدیقؓ نے لوگوں کو اللہ پاک اوراس کے رسول ﷺکی دعوت دی ۔یہ پہلاموقع تھاکہ کسی نے حرم شریف میں اس طرح کھل کرلوگوں کواسلام کی طرف بلایاہو۔مشرکین یہ سنتے ہی سیدناحضرت ابوبکرصدیقؓپربرس پڑے اوربری طرح مارنے لگے۔آپؓ مار کھاتے کھاتے زمین پرگرچکے اورانہیں انتہائی شدیدضرب لگی تھی۔فاسق عتبہ بن ربیعہ سیدناحضرت ابوبکرصدیقؓ کے پاس آیااورانہیں پیوندلگے دونوں جوتوں سے مارنے لگا۔پھرکودکرسیدنا ابوبکرصدیقؓ کے پیٹ پربیٹھ گیااوراتناماراکہ کثرت خون سے ان کی ناک ان کے چہرے سے نہیں پہچانی جاتی تھی ۔جب سیدناابوبکرصدیقؓ کے قبیلے بنوتیم کے لوگوں کومعلوم ہواتووہ ان کی مددکوپہنچ گئے مشرکین کوہٹاکرسیدناابوبکرصدیقؓ کواپنے گھرلے آئے۔سیدناابوبکرصدیقؓ کو اتنی سزا دی کہ یقین ہوچلاتھاآپؓ کی موت یقینی ہے بنوتیم سیدناابوبکرصدیقؓ کوان کے گھرپہنچاکرمسجدحرام میں واپس آئے اورکہنے لگے ۔اللہ کی قسم!اگرسیدناابوبکرصدیقؓ مرجائیں گے توہم عتبہ بن ربیعہ کوضرورقتل کر ڈالیں گے۔بنوتیم مسجدحرام میں سرعام یہ دھمکی دے کرآپؓ کے گھرپہنچ گئے ۔آپؓ کے والدابوقحافہ اورقبیلہ بنوتیم کے لوگوں نے بہت کوشش کی کسی طرح سیدناابوبکرصدیقؓ کی زبان مبارک کھل جائے تاکہ آپؓ ہمارے ساتھ کچھ باتیں کریں سارے اسی انتظارمیں آپؓ کے اردگردبیٹھے تھے دن کے آخری پہرکوسیدناابوبکرصدیقؓ کوکچھ افاقہ ہوااور زبان کھولی ۔آپؓ کے زبان سے پہلاجملہ یہ نکلا۔رسول اکرم نورمجسم ﷺکاکیاہواوہ کیسے ہیں ؟سارے لوگوں کوسیدناابوبکرصدیقؓ کے مرنے کایقین ہوچکاتھا۔ مارکھانے کے بعدآپؓ کافی دیرسے یک دم خاموش تھے آنکھیں بندتھیں اورجب زبان کھولی توسب سے پہلے آپؓ نے نبی کریمﷺکے بارے میں پوچھا۔اس کی وجہ سے آپؓ کوقوم کوبہت غصہ آیاوہ سیدناابوبکرصدیقؓ کوملامت کرتے ہوئے نکل گئے اورآپؓ کی ماں سے کہاکہ ابوبکرؓ کوکچھ کھلاپلادو۔جب قبیلہ والے نکل گئے توآپؓ کی والدہ اکیلی رہ گئیں اوراصرارکرنے لگیں کہ ابوبکرؓ!کھاناکھالیں ۔مگرسیدناابوبکرصدیقؓ اپنی والدہ سے صرف یہی پوچھتے رہے کہ نبی کریمﷺکاکیاہواوہ کیسے ہیں ؟ والدہ نے کہااللہ کی قسم!بیٹے مجھے تیرے ساتھی محمدﷺکاکوئی علم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں اوراس وقت کہاں ہیں ؟ سیدناابوبکرصدیقؓ نے اپنی والدہ محترم سے کہا۔اُم جمیل فاطمہ بنت خطاب کے پاس جاؤاوران سے نبی کریمﷺکے بارے میں دریافت کروکہ وہ کہاں ہیں اورکس حال میں ہیں ؟ آپؓکی والدہ ام جمیل فاطمہ بنت خطاب کے پاس پہنچ گئیں اورکہاکہ میرابیٹاابوبکرؓ تم سے محمدﷺبن عبداللہ کے بارے میں پوچھ رہاہے کہ وہ اس وقت کہاں ہیں اورکیسے ہیں ؟ام جمیل نے کہانہ مجھے ابوبکرؓ کے بارے میں کچھ علم ہے اورنہ محمدﷺکے بارے میں ۔ہاں اگرتم چاہوتومیں تمہارے بیٹے کودیکھنے چلوں ؟سیدناابوبکرصدیقؓ کی ماں نے کہاہاں دیکھنے چلوام جمیل سیدناابوبکرصدیقؓ کے پاس پہنچیں توشدت مرض سے ان کی حالت ناگفتہ بہ تھی ۔وہ آپؓ کے قریب ہوئیں اورزورزورسے کہنے لگیں ۔فسق وکفرمیں ڈوبی ہوئی قوم نے آپ کوتکلیف دی ہے مجھے اللہ تعالیٰ سے امیدہے کہ وہ ضروران ظالموں سے انتقام لے گا۔آپؓ نے آنکھ کھولی اورام جمیل سے پوچھاآقاﷺکاکیاہواوہ کیسے ہیں ؟ ام جمیل نے کہایہ آپؓ کی ماں بھی موجودہے میں اگرکچھ بتاؤں تووہ بھی کچھ سن لیں گی سیدناابوبکرصدیقؓ نے کہاکوئی بات نہیں ہے تمہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ام جمیل نے بتایارسول اکرم نورمجسم ﷺ بالکل صحیح سالم ہیں ۔آپؓ نے کہا اب آپﷺکہاں ہیں ۔ام جمیل نے کہادارابن ارقم میں ہیں ۔آپؓ کہنے لگے میں نے اللہ پاک سے عہدکرلیاہے کہ جب تک آقاﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرنہ ہوجاؤں اس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گااورنہ کچھ پیوں گا۔ام جمیل اورآپؓ کی والدہ نے اصراردیکھاتوکچھ دیرتورکی رہیں پھرجب انہوں نے دیکھاکہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے ہیں اورراستہ خالی پڑاہے توآپؓ کوسہارادیتے ہوئے رسول اکرم ﷺکولائیں ۔رسول اکرم ﷺکی نگاہ مبارک جب سیدنا ابوبکرصدیقؓ پرپڑی توآپ ان کی طرف جھک پڑے اوربوسہ دیادوسرے مسلمان بھی ابوبکرصدیقؓ کی طرف جھک پڑے اس منظرکودیکھ کرآپﷺکوبڑی کوفت ہوئی اورآپﷺ کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔قربان جاؤں آپؓ نے اس حالت میں بھی نبی کریمﷺسے اپنی بے لاگ محبت کاثبوت دیااورعرض کرنے لگے اے اللہ پاک کے رسولﷺ!میرے ماں باپ آپ پرقربان (جب آپﷺصحیح سالم ہیں )تومجھے کوئی پرواہ نہیں ۔صرف اتنی تکلیف ہے کہ فاسق نے میرے چہرے پرجوتامارااوریہ میری ماں ہے جواپنے بیٹے کے حق میں مہربان اوروفادارہے آپﷺکی ہستی مبارک ہے آپﷺمیری ماں کواللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیں اوراس کے حق میں دعائے خیرفرمادیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ماں کوآپﷺکی دعوت کی برکت سے جہنم کی آگ سے بچادے ۔آپﷺنے سیدناابوبکرصدیقؓ کی خواہش پران کی ماں کے لئے دعافرمائی اوراللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺکی دعاکوشرف قبولیت بخشا۔پھرسیدناابوبکرصدیقؓ کی ماں مسلمان ہوگئی ۔(ابن کثیرالبدایۃ والنہایۃ ۔تاریخ الخلفاء للسیوطی)
آپﷺنے جب مشرکین مکہ کودعوت حق کی تبلیغ کی تومشرکین مکہ آپﷺکی جان کے دشمن بن گئے طرح طرح کی اذیتیں دینے لگے اس دوران نبی کریمﷺنے ایک جماعت کوحبشہ کی جانب ہجرت کرنے کاحکم دیاتاکہ وہ مشرکین مکہ کے ظلم سے بچ سکیں اورتبلیغ اسلام کاکام بخوبی سرانجام دے سکیں ۔صحابہ کرام کی ایک جماعت نے حبشہ کی جانب ہجرت کی ۔حبشہ کی جانب مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادکے ہجرت کرنے کے باوجودکفارمکہ کے ظلم میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی آخرنبی کریمﷺنے11نبوی میں مسلمانوں کومدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کاحکم دیا۔جس کے بعدمسلمانوں نے قافلوں کی صورت میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی جس وقت صحابہ کرام علہیم الرضوان کی ایک کثیرجماعت مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لے گئی۔مکہ مکرمہ میں صرف حضورنبی کریمﷺحضرت سیدنا ابوبکرصدیقؓ اورحضرت سیدناعلی المرتضیٰ سمیت چندصاحب حیثیت مسلمان رہ گئے تونبی کریمﷺ نے ایک رات حضرت سیدناعلی المرتضیٰ کواپنے بسترپرلٹایا اورخودسیدناابوبکرصدیقؓ کے گھرپہنچ گئے اتفاق سے اس رات کفارمکہ حضورنبی کریمﷺکوشہیدکرنے کے لئے آپﷺکے گھرپہنچ چکے تھے مگراللہ کاکرناایساہوا کہ وہ آقاﷺکونہ دیکھ سکے آقاﷺان کی آنکھوں کے سامنے نکل گئے ۔آپﷺنے سیدناابوبکرصدیقؓ سے فرمایااے ابوبکرؓ مجھے میرے رب نے ہجرت کاحکم دیاہے اوراس سفرمیں تم میرے رفیق ہومشکل اورکٹھن راستوں سے گزرکرآپﷺاورسیدناابوبکرصدیقؓ غارثورمیں پہنچ گئے سیدناامیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کے سامنےؓ ایک دفعہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کاذکرہواتوآپؓ رونے لگے اورفرمایامیں پسندکرتاہوں کہ میری زندگی کے تمام اعمال حضرت ابوبکرصدیقؓ کی زندگی کے ایک دن اورایک رات کے برابرہوجائیں ۔رات تووہ رات ہے جب سیدناابوبکرصدیقؓ نے نبی کریمﷺکے ساتھ ہجرت کی اورغارثورمیں تین دن اورتین راتیں قیام فرمایا۔جس وقت نبی کریمﷺاورسیدناابوبکرصدیقؓ غارکے دروازے پرپہنچے توسیدناابوبکرصدیقؓ نے عرض کیایارسول اللہﷺ!اللہ پاک کی قسم غارمیں آپﷺکے داخل ہونے سے پہلے مجھے داخل ہونے دیں تاکہ غارکے اندرکاجائزہ لے لوں کہ کہیں غارکے اندرکوئی زہریلاجانوریا اذیت دینی والی چیز توموجودنہیں۔چنانچہ آپؓ غارکے اندر داخل ہوئے غارکواچھی طرح جھاڑاغارمیں موجودتمام کئی سوراخ تھے آپؓ نے اپنی چادرپھاڑ کروہ سوراخ بندکئے لیکن پھر بھی دوسوراخ باقی رہ گئے آپؓ نے ان دونوں سوراخوں پراپنے پاؤں کی ایڑیاں رکھ دیں اورآقاﷺسے درخواست کی یارسول اللہﷺغارکے اندرتشریف لے آئیں حضورﷺغارکے اندرداخل ہوئے اور آرام کی غرض سے لیٹ گئے۔آقاﷺنے اپناسرمبارک سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی گودمیں رکھ دیاجن سوراخوں پر آپؓ نے اپنے پاؤں رکھے ہوئے تھے ان میں سے ایک سوراخ میں سے سانپ نے آپؓ کوڈنگ ماراجس کے دردکی وجہ سے آپؓ کی آنکھوں میں آنسوآگئے اوروہ آنسوبہہ کرحضورنبی کریمﷺکے رخسارمبارک پرگرپڑے آپﷺنے اپنی آنکھیں مبارک کھول دیں اورسیدناابوبکر صدیقؓ سے معاملہ دریافت کیا۔آپؓ نے ساراماجرا آپﷺکوگوش گزار کردیاآقاﷺنے اپنالعاب دہن سانپ کے ڈسنے والی جگہ پرلگایاجس سے زہرکااثر جاتارہااورسیدناابوبکرصدیقؓ کی تکلیف ختم ہوگئی آپﷺنے سیدنا ابوبکرصدیقؓ کی اس تکلیف کے عوض اللہ پاک سے دعافرمائی کہ الٰہی ابوبکرؓ کوروزمحشرمیرے ساتھ مقام عطافرمانا آقاﷺکی دعاکی قبولیت اللہ پاک نے بذریعہ وحی عطافرمائی.غارثورکی طرف جاتے ہوئے راستے میں حضرت سیدناابوبکرصدیقؓ کبھی نبی کریمﷺ کے آگے چلناشروع ہوجاتے اورکبھی پیچھے کبھی دائیں اورکبھی بائیں چلناشروع کردیتے سیدناابوبکرصدیقؓ نے نبی کریمﷺنے پوچھاکیامعاملہ ہے تم اتنے پریشان کیوں ہو۔سیدناابوبکر صدیقؓ نے عرض کیامجھے ڈرہے کہ کوئی آپﷺپرحملہ آورنہ ہوجائے۔آقاﷺنے فرمایاابوبکرؓ!تمہاراان دوکے بارے میں کیاخیال ہے جن کے ساتھ تیسرااللہ پاک ہو ۔ غارثورمیں تین دن اورتین راتیں قیام فرمایا۔آقاﷺاورسیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ کایہ قافلہ ساحلی راستوں سے ہوتاہوامدینہ منورہ کے قریب ایک بستی قبامیں پہنچا۔قباوالے لوگوں نے آپﷺاورسیدناحضرت ابوبکرصدیقؓ کاپرجوش استقبال کیا۔آپﷺنے قباکے مقام پرقیام کے دوران ایک مسجدکی بنیادرکھی۔قبامیں قیام کے بعدیہ قافلہ مدینہ منورہ میں داخل ہواتوحضورنبی کریمﷺکی اونٹنی سب سے آگے تھی اسکے بعدسیدناحضرت ابوبکرصدیقؓ کی اونٹنی تھی ۔ پھردیگرصحابہ کرام جوقبامیں آقاﷺکے قافلے میں شامل ہوئے اس قافلے کااستقبال کیااوران کی بچیوں نے حضورﷺکی آمدپرخوشیوں بھرے گیت گائے اور دف بجاکراپنی خوشی کااظہارکیا۔
حدیث مبارکہ میں ہے انبی اکرم نورمجسمﷺنے ارشادفرمایامیں نے ایک ترازودیکھاجوآسمان سے لٹکایاگیااس کے ایک پلڑے میں مجھے اوردوسرے پلڑے میں میری امت کو رکھا گیاتومیراپلڑابھاری ہوگیاپھرایک پلڑے میں میری امت کواوردوسرے پلڑے میں سیدناحضرت ابوبکرصدیقؓ کورکھاگیاتوسیدناحضرت ابوبکر صدیقؓ کاپلڑابھاری ہوگیا۔آپﷺنے ارشادفرمایااگرمیں لوگوں میں سے کسی کوخلیل بناتاتوسیدناحضرت ابوبکر صدیقؓ کوخلیل بناتالیکن تمہارادوست (یعنی نبی)اللہ پاک کاخلیل ہے۔(صحیح مسلم شریف)
حضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ جب خلفیہ بنے تو لوگوں سے سوال کیاکی تمہارے نزدیک سب سے بہادر کون ہے سب لوگوں نے عرض کیاآپؓ!آپؓ نے فرمایا میں ہمیشہ اپنے برابرکے جوڑے سے لڑتاہوں یہ کوئی شجاعت نہیں تم شجاع ترین شخص کانام لوسب نے عرض کیاہمیں معلوم نہیں حضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ نے فرمایاکہ شجاع ترین سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ ہیں جنگ بدرکے دن جب نبی کریمﷺکے لئے سائبان بنایاگیاتوسوال پیداہواکہ نبی پاکﷺکے پاس حفاظت کے لئے کسے مقررکیاجائے جو مشرکین کوآپﷺپرحملہ کرنے سے بازرکھے۔خداکی قسم !اس وقت ہم میں سے کسی کی ہمت نہ پڑی ۔مگرقربان جاؤں سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ ننگی تلوارلئے کھڑے ہوگئے اورنبی کریمﷺکی حفاظت کرتے رہے ۔
سیدناابوبکرصدیقؓ کی سخاوت آپؓ صحابہ کرام میں سب سے زیادہ سخی تھے” وسییجنبھاالاتقیٰ الذی یوتی مالہ یتزکیٰ”کے محورو مصداق آپؓ ہی ہیں ۔آپؓ نے بیت المال میں کبھی مال ودولت جمع نہیں ہونے دیاجوکچھ آتامسلمانوں کے لئے خرچ کردیتے فقراء ومساکین پرمساوی حصہ تقسیم کر دیتے ۔کبھی گھوڑے اورہتھیارخرید کرفی سبیل اللہ دے دیتے ۔آپؓ بہت سے آدمیوں میں مل جل کربیٹھتے کسی کویہ پہچان نہیں ہوسکتی کہ ان میں خلیفہ کون ہے آپؓ کی وفات کے بعدخلیفہ دوم سیدناامیرالمومنین حضرت عمرفاروقؓ اورچندصحابہ کے ساتھ بیت المال کاجائزہ لیاتوبیت المال کوخالی پایا۔
سرکارمدینہ راحت قلب وسینہ شاہ بنی آدم شفیع روزجزاحضرت محمدمصطفیﷺنے ارشادفرمایابے شک اللہ تعالیٰ کے تین سواخلاق ہیں جوشخص توحیدپر ہوتے ہوئے ان میں سے ایک خلق کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گاوہ داخل جنت ہوگا۔سیدناامیرالمومنین حضرت ابوبکرصدیقؓ نے نے عرض کی کیاان میں سے کوئی خلق مجھ میں بھی ہے توآپﷺنے ارشادفرمایا”اے ابوبکروہ تمام اخلاق تم میں پائے جاتے ہیں اوران میں سب سے زیادہ پسندیدہ خلق سخاوت ہے ۔
غزوہ تبوک کے موقع پرحضورنبی کریمﷺنے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے اپیل کی وہ حسب توفیق جنگ میں شمولیت کے لئے مال ومتاع پیش کریں ۔ حضرت سیدناعثمان غنیؓ نے تین سواونٹ دس ہزارمجاہدوں کوسامان جہاددس ہزاراشرفیاں نوسواونٹ سوگھوڑے مع سامان آقاﷺکی خدمت میں پیش کیے حضرت سیدنا عمرفاروقؓ نے اپنے گھرکاآدھاسامان لے کرحضورنبی کریمﷺکی خدمت میں پہنچ گئے حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ نے چالیس ہزاردرہم نبی کریمﷺکی خدمت میں پیش کیے ۔جب سیدناحضرت ابوبکرصدیقؓ کی باری آئی توآپؓ نے اپنے گھرکاتمام سامان پیش کردیا۔آقاﷺ نے مسکراتے ہوئے پوچھاابوبکرؓ! گھر والوں کے لئے کیاچھوڑآئے ہوسیدناحضرت ابوبکرصدیقؓ نے عرض کیایارسول اللہﷺ!گھروالوں کے لئے اللہ اوراس کے رسول ﷺہی کافی ہیں۔آقاﷺ نے فرمایاکہ جتنامجھے سیدناابوبکرصدیقؓ کے مال سے فائدہ پہنچاہے اتناکسی کے مال سے نہیں پہنچاسیدناابوبکرصدیقؓ روروکرعرض کرنے لگے کہ میں اور میرامال کیا چیزہے جو کچھ ہے سب آپ ہی کے طفیل ہے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشادفرمایاکہ میں سب کااحسان اتارچکاہوں البتہ سیدناابوبکر صدیقؓ کااحسان باقی ہے اس کابدلہ توقیامت کے دن اللہ رب العزت دے گا۔کسی شخص کے مال سے مجھے اتنافائدہ نہیں پہنچتاجتناسیدناابوبکرصدیقؓ کے مال سےآآپؓ کی عاجزی اوروصیت:ٓ آپؓ پرخوف الٰہی عزوجل کابے حدغلبہ تھا۔آپؓ کسی چڑیاکودیکھتے توآپؓ فرمایاکرتے تھے کہ میں کاش تیری طرح کاایک پرندہ ہوتا اورانسان نہ ہوتا(تاکہ میں قیامت کے دن اعمال کے حساب سے بچ جاتا)احیاء العلوم۔
آپؓ انکساراََ فرماتے ہیں کاش میں کسی مومن کے سینے کابال ہوتا۔کاش میں درخت ہوتاکہ کھالیاجاتایاکاٹ لیاجاتاکاش میں سبزہ ہوتاجسے جانورکھاجاتے ۔ (تاریخ الخلفاء)ایک دن حضرت عمرفاروقؓ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے پاس گئے اورحضرت ابوبکرصدیقؓ اپنی زبان پکڑکرکھینچ رہے تھے حضرت عمرؓ نے عرض کی کیابات ہے اللہ پاک آپ کی مغفرت کرے حضرت ابوبکرصدیقؓ نے فرمایااس نے مجھے مہالک (یعنی ہلاکتوں )میں ڈالاہے ۔
جب سیدناامیرالمومنین حضرت ابوبکرصدیقؓکے وصال کاوقت آیاتوحضرت سیدناعائشہ صدیقہؓ تشریف لائیں اورآپؓ نے بطور مثال یہ شعر پڑھا”
لَعَمْرُکَ مَایُغْنِی الثَّرَاءَ عَنِ الْفَتیٰ اِذَاحَشْرَجَتْ یَوْمََاوَضَاقَ بِھَاالصَّدْرُ
ترجمہ آپ کی عمرکی قسم !دولت نوجوانوں کے کام نہیں آتی جب موت کادن آجائے اورسینے میں دم گھٹ رہاہو۔سیدناامیرالمومنین حضرت ابوبکرصدیقؓ نے چہرے سے کپڑاہٹایااورفرمایابات اس طرح نہیں بلکہ یوں کہو۔وَجَآءَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ باِلْحَقِّ ذٰلِکَ مَاکُنْت منہ تحید۔ ترجمہ کنزالایمان اورآئی موت کی سختی حق کے ساتھ یہ ہے جس سے توبھاگتاتھا”۔(پارہ ۲۶سورۃ ق آیت۱۹)پھرفرمایاان دوکپڑوں کودھوکرانہیں میں مجھے کفن دے دیناکیونکہ فوت شدہ کے مقابلے میں زندہ آدمی نئے کپڑوں کازیادہ حق دارہے۔جب آپؓ کاوصال ہونے لگااورام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓنے یہ شعر پڑھاترجمہ :سفیدرنگ والے جن کے چہرے کے سبب بادل برستے ہیں آپ یتیموں کی بہاراوربیواؤں کاسہارا ہیں۔توآپؓ نے فرمایا یہ تونبی کریمﷺ کی شان ہے صحابہ کرام علہیم الرضوان آپؓ کے پاس حاضرہوئے اورعرض کی” کیاہم کسی طبیب کونہ بلالائیں جوآپؓ کاحال دیکھے؟آپؓ نے فرمایا طبیب نے مجھے دیکھ لیاہے اورفرمایاہے کہ میں جوچاہتاہوں کرتاہوں ۔حضرت سیدنا سلمان فارسیؓ آپؓ کی عیادت کے لئے تشریف لائے اور عرض کی اے ابوبکرؓ !ہمیں وصیت فرمائیں آپؓ نے ارشاد فرمایا اللہ پاک تم پردنیاکے خزانے کھول دے گالیکن تم اس سے ضرروت کے مطابق لینااور یادرکھوجس نے صبح کی نمازپڑھی وہ اللہ پاک کے ذمہ کرم پرہے پس اللہ پاک سے عہدشکنی نہ کرناورنہ وہ تمہیں منہ کے بل جہنم میں ڈال دے گا۔جب سیدنا امیرالمومنین حضرت ابوبکرصدیقؓ کی طبیعت زیادہ بوجھل ہوگئی ۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے چاہاکہ آپؓ اپنانائب مقررفرمادیں توآپؓنے حضرت سیدنا عمرفاروقؓ کواپناخلیفہ نامزدفرمایاصحابہ کرام علہیم الرضوان نے عرض کی آپؓ نے ایک سخت مزاج شخص کوہماراخلیفہ نامزدکیاہے ۔ آپؓ اپنے رب کوکیا جواب دیں گے؟انہوں نے فرمایامیں عرض کروں گاکہ میں نے تیری مخلوق پر،مخلوق میں سب سے بہتر انسان کواپنانائب مقررکیاہے۔اللہ پاک ان دونوں سے راضی ہو۔ امام عالی مقام،امام عرش مقام سیدناامام حسن بن علیؓ فرماتے ہیں کہ خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اپنی وفات کے وقت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے فرمایادیکھویہ اونٹنی جس کاہم دودھ پیتے ہیں ،یہ بڑاپیالہ جس میں ہم کھاتے پیتے ہیں اوریہ چادرجومیں اوڑھے ہوئے ہوں یہ سب بیت المال سے لیاگیاہے ہم ان چیزوں سے اسوقت تک نفع اندوزہوسکتے تھے جب تک میں مسلمانوں کے امُورِ خلافت انجام دیتاتھا جس وقت میں وفات پاجاؤں تویہ تمام سامان سیدناحضرت امیرالمومنین حضرت عمرفاروقؓ کودے دینا۔چنانچہ جب سیدناامیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیقؓ کاانتقال ہوگیاتوام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے حسب وصیت یہ تمام چیزیں واپس کردیں ۔ سیدنا امیرالمومین حضرت عمرفاروقؓ نے یہ سب چیزیں واپس پاکرفرمایاکہ اللہ تعالیٰ ان پررحم فرمائے کہ انہوں نے تواپنے بعدمیں آنے والوں کوتھکادیاہے ۔(تاریخ الخلفاء)
آپؓ کاوصال مبارکحضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ حضرت سیدناابوبکرصدیقؓ کی موت کاسبب یہ تھاکہ آپؓ ہروقت آقائے دوجہاں سرورکون و مکاںﷺکی جدائی میں گریہ کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے آپؓ کی صحت دن بدن خراب ہوتی چلی گئی آپؓ کی بیماری کے دوران سب سے زیادہ تیماداری سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے کی اورباقی تمام لوگوں سے زیادہ آپؓ کی خدمت میں رہے بوقت وصال آپؓ کاقیام حضرت عثمان غنیؓ کے مکان کے سامنے والے مکان میں تھاجوحضورنبی کریمﷺنے آپؓ کے لئے وقف فرمایاتھا۔
آپؓ کے مرض الموت کی ابتداء سات جمادی الثانی کوہوئی اس روزسوموارکادن تھاآپؓ نہائے آپؓ کوبخارہوگیاجوپندرہ دن تک رہااس دوران حضرت عمرفاروقؓ آپؓ کے حکم پرامامت کرتے رہے بالآخر22جمادی الاخریٰ(جمادی الثانی) 13ہجری بروزسوموارتریسٹھ برس کو آپؓ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔آپؓ کوغسل آپؓ کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ نے حسب وصیت دیا۔حضرت اسماءؓ اکثرروزہ سے ہوتی تھیں ۔اورجس دن حضرت سیدناابوبکرصدیقؓ کے وصال کاوقت قریب ہواتوآپؓ نے انہیں قسم دے کرروزہ رکھنے سے منع فرمایاتاکہ بوقت غسل کہیں نقاہت نہ ہوجائے۔ابن سعدؓ کی روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ اسلام میں پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اپنے خاوندکوغسل دیا۔آپؓ کی نمازجنازہ سیدنا امیرالمومنین عمرفاروقؓ نے پڑھائی ۔اورقبرمبارک نبی کریمﷺکے پہلومیں کھودی گئی ۔قبرمبارک میں حضرت سیدناعمرفاروقؓ حضرت سیدناعثمان غنیؓ حضرت طلحہؓ اورحضرت عبدالرحمن بن ابوبکرؓ نے اتارا۔حضرت ابن عمرؓ نے لحدمیں اترناچاہاتوحضرت سیدناعمرفاروقؓ نے فرمایاکہ بس کافی ہیں ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ امیرالمومنین حضرت ابوبکرصدیقؓ کے وصال کے بعدیہ سوال پیداہواکہ آپؓ کوکہاں دفن کیاجائے؟کچھ صحابہ کرام علیہم الرضوان کاخیال تھاکہ جنت البقیع میں دفن کیاجائے میری دلی خواہش تھی کہ میرے والدمحترم حضورنبی کریمﷺکے پہلومیں میرے حجرے میں دفن ہوں ۔چنانچہ مجھ پرنیندکاغلبہ طاری ہوگیااورمجھے خواب میں ایک منادی سنائی دی کہ کوئی اعلان کررہاتھاحبیب کوحبیب سے ملادومیں نے بیدارہونے کے بعداس کاذکرصحابہ کرام علہیم الرضوان سے کیاتوبہت سے صحابہ کرام علہیم الرضوان نے اس بات کااقرارکیاکہ انہوں نے بھی یہ منادی سنادی تھی چنانچہ سیدناحضرت ابوبکرصدیقؓ کوحضورنبی کریمﷺکے پہلومیں مدفون کیاگیا۔
جب سیدناحضرت ابوبکرصدیقؓ کاجنازہ حضورنبی کریمﷺکے روضہ اقدس کے سامنے جاکررکھاگیاتوصحابہ کرام علہیم الرضوان نے حضورنبی کریمﷺکی بارگاہ میں عرض کیاالسلام علیک یارسول اللہ ھذاابوبکرجیسے ہی یہ الفاظ صحابہ کرام علہیم الرضوان نے اداکیے توروضہ رسولﷺکادروازہ خودبخودکھل گیااورحضورنبی کریمﷺکی قبرمبارک سے آوازآئی”حبیب کوحبیب سے ملادو”۔اللہ پاک نبی کریمﷺکی سچی اورپکی محبت نصیب فرمائے ۔آمین