بخشش کا مہینہ، گرانفروشی اور ہماری ذمہ داریاں تحریر: سہیل احمد اعظمی
بخشش کا مہینہ، گرانفروشی اور ہماری ذمہ داریاں تحریر: سہیل احمد اعظمی
سوشل میڈیا کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، چند لمحوں میں بات کو کہاں سے کہاں تک پہنچادیا جاتاہے۔ لوگوں کے Commentsآنا شروع ہوجاتے ہیں، کوئی پسند کرتاہے تو کوئی ناپسند، کسی کو زیادہ پسند ہو تو وہ Share کرکے بات کو مزید آگے پہنچادیتاہے ۔ خاص کر فیس بک کا استعمال عام ہونے کے باعث بعض سیاسی جماعتیں اسے اپنی پراپیگنڈہ مہم کیلئے بھی استعمال کررہی ہیں۔ منفی اور مثبت دونوں قسم کی چیزیں پڑھنے سننے کو ملتی ہیں۔ گذشتہ دنوں فیس بک پر دو تحریروں نے دل پر بڑا ثر ڈالا، ایک تحریر پر لکھا تھا کہ ایک ہندو اچانک مہنگائی میں مزید اضافہ کے بعد اپنے بیٹے کو کہتا ہے بیٹا مسلمانوں کا مقدس ماہ رمضان شروع ہوچکاہے اسلئے مہنگائی بھی بڑھ گئی ہے جیسے ہی یہ مہینہ ختم ہوگا دوبارہ اپنے معمول پر آجائے گی ۔ دوسری تحریر میں درج تھا کہ اس ماہ مقدس میں یہودیوں کی Pepsiکی قیمت کم ہوکر 100سے 85پر آجاتی ہے لیکن مسلمانوں کھجور کی قیمت کو 120سے بڑھاکر 200اور 250تک پہنچادیتے ہیں۔ تحریریں دونوں درست اور ہم مسلمانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں کہ آخر کیوں ہم ایسے رویوں اور ناجائز منافع خوری میں مبتلاہیں۔ ویسے تو یہ سلسلہ سارے سال ہی جاری رہتاہے لکن رمضان المقدس کے مبارک اور بخشش والے ماہ میں جب ہمارا اللہ سرکش شیاطین تک کو قید کردیتے ہیں ہمارا اپنا نفس ہمیں ایسی حرام کاریوں اور ناجائز منافع میں مبتلا رکھتاہے۔ ہمارے معاشرے میں مادیت پرستی کی حوس نے حرام، حلال کی تمیز ختم کردی ہے۔ ہر دوسرا آدمی اس کوشش میں ہے کہ وہ زیادہ مال اکھٹا کرلے تو اسے کامیابی مل جائے گی۔ اسکے حصول نے اسکے اندر سے اللہ کا خوف ختم کردیاہے۔ جسکے باعث ہمارا معاشرہ ایسی بے پناہ برائیوں کا شکا رہوچلاہے جو ہمیں اجتماعی طورپر تباہی و بربادی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ حرام مال سے حج، عمرہ، نماز، صدقہ، خیرات، روزہ غرض کوئی عمل اللہ قبول نہیں کرتا لیکن ہماری سیاست، تجارت، معیشت، معاشرت، کرپشن اور دیگر خرابیوں کی آخری حدوں کو چھورہی ہیں۔ ہمیں اپنے مذہب کی اعلی تعلیمات کا نہ تو علم ہے اور نہ ہی ہم اسے سیکھنا چاہتے ہیں کیوں کہ ہمارے تعلیمی ادارے مغربی طرز تعلیم کی بنیادوں پر کھڑے ہیں۔ اسلئے ہماری صنعت کا 95فیصد کاروبار سود پر چل رہاہے۔ زکوۃ ادا کرنے کا تصور تک نہیں ہے۔ 95ٰفیصد لوگ زکوۃ ادا نہیں کرتے۔ کاروبار میں جھوٹ، دھوکہ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، دو نمبر اشیاء کی فروخت، ذخیرہ اندوزی کو ہم گناہ سمجھتے ہی نہیں۔ قوم حضرت شعیب علیہ السلام پر اللہ کا عذاب مذکورہ برائیوں کے باعث آیا تھا آج ہم ادویات، تیل ، گھی، مرچ، میدہ ، دودھ، شہد، غرض ہر چیز میں ملاوٹ کرتے ہیں۔ اب تو پھلوں تک میں شکرین کے انجکشن لگائے جارہے ہیں۔ کولڈ ڈرنک، آئس کریم، جوسز کے نام پر لوگوں او رروزہ داروں کو زہر پلایاجارہاہے۔ رمضان کے ماہ میں روزہ دار چٹ پٹی اشیاء جن میں پکوڑے، سموسے، دہی بلے وغیرہ کااستعمال زیادہ کردیتے ہیں ، کو مضرصحت اور حرام تیل جیسے ویکم (Vacume)کہتے ہیں میں تلاجاتاہے۔ یہ تیل مرغیوں کے پنجوں، جانوروں کی حرام آنتوں، و دیگر اشیاء، کیمیکل سے ملکر بنتاہے۔ جسکے استعمال سے معدہ، السر، یرکان، گردوں، کھانسی، ٹی بی ، کینسر، آنتوں کی بیماریوں میں آئے دن اضافہ ہورہاہے۔ ہمارے ہسپتال بھرے پڑے ہیں ۔ مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے نہ ادویات ہیں اور نہ ڈاکٹرز و دیگر عملہ لیکن نہ تو ان گھناؤنے مکروہ کاروبار کرنے والوں کو شرم آتی ہے اور نہ ہی کوئی حکومتی ادارہ اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے کرنے میں مخلص ہیں۔ ہماری پرائس ریویو کمیٹی کا اجلاس کئی کئی ماہ تک نہیں ہوتا۔ محکمہ صحت اور فوڈ کے صوبائی محکمہ جات بھتہ خوری اور کمیشن لینے تک محدود ہیں۔ ان لاپراہیوں کے باعث ہمارا ملک ظالموں کیلئے جنت اور مظلوموں کیلئے جہنم بن چکاہے۔ دنیاوی حرص ہمیں ایک انسان کی جان تک لینے سے باز نہیں رکھتی۔ گوشت، ادویات و دیگر اشیاء خوردنی میں ملاوٹ اور مصنوعی کھادوں، گندے پانیوں سے زمین کی سیرابی نے ہمیں ذہنی بیماری کے ساتھ ساتھ صحت کے لحاظ سے بھی بیمار کردیاہے۔ ڈاکٹروں اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے مزے ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں اوپر سے 150%سے لیکر 200%تک اضافہ نے مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی عوام کی کمر توڑ کر رکھدی ہے۔ لیکن ہمیں نہ تو حکومتی رٹ کہیں نظر آتی ہے اور نہ ہی اللہ کا خوف ۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہے لیکن ہمارے عوامی نمائندے اور حکومتی ادارے اپنی تمام ذمہ داریوں سے غافل ہیں۔ کوئی بھی ادارہ اسو قت ملک میںیہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ ایمانداری سے کام کررہاے۔ یہ سب کچھ ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے ہورہاہے۔ جیسے ہمارے اعمال ہوتے ہیں اللہ کی ذات ویسے حکمران ہم پرمسلط کردیتی ہے۔ جیسی روح ویسے فرشتے کی مصداق ہمارے اعمالوں کے بقدر ہی اللہ ہم پر فیصلے مسلط کرتاہے۔ ہم ہر حکومت میں مہنگائی، افراط زر، ذخیرہ اندوزی ، ملاوٹ کا رونا روتے ہیں لیکن ہر آنے والی حکومت کا رویہ گذشتہ سے برا ہوتاہے۔ میرے نبی ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ قیامت کے دن اللہ امانت دار تاجر کا حشر انبیاء، علماء، شہداء اور صالحین کے ساتھ فرمائیں گے لیکن دھوکہ دینے والے اور دوسرے کا حق دبانے والے کو میرے نبی ﷺ نے مفلس قرار دیاہے۔ جس کی ساری نیکیاں ان لوگوں کے حوالے کردی جائیں گی جن پر اس نے ظلم کیاہوگا۔ اللہ ہمیں ہدایت دے اور اس ماہ مقدس میں بلکہ تمام سال ایمانداری کیساتھ تجارت، سیاست، زراعت و دیگر تمام شعبوں کو چلانے کی توفیق دے۔ حکومت نے اس سال بھی یوٹیلٹی سٹور کے ذریعے 22اشیاء پر ایک ارب 75کروڑ کی سبسڈی جو 2روپے سے لیکر 50روپے تک سے دینے کااعلان کیاہے۔ ملک بھر کے 6ہزار سے زائد یوٹیلٹی سٹورز اور فرنچائز پر یہ سبسڈی چاند رات تک جاری رہے گی۔ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی خصوصی ٹیمیں سٹورز پر عوام الناس کو سستے اشیاء کی فراہمی کو ممکن بنانے کیلئے کام کریں گی جبکہ ماہ اپریل سے بقول حکومت کے دالوں پر خصوصی پیکج دیاجارہاہے۔ جبکہ 1300اشیاء پر 5 سے 10فیصد کی خصوصی بچت فراہم کی جارہی ہے۔ حکومتی اقدامات اپنی جگہ ہمیں بحیثیت تاجر، صنعت کار، سیاستدان یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم انصاف کررہے ہیں؟ آخر کیوں اس ماہ میں اشیاء کی قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگ جاتی ہیں؟ کیا ہماری عدالتیں ، پولیس، صحت ، فوڈ کا محکمہ اپناکام ایمانداری سے سرانجام دے رہاہے؟ اگر تاجر بھائی اسلام کے اعلی اصولوں کے مطابق تجارت کریں تو نہ صرف انکا کاروبار چلے گا بلکہ دنیا و آخرت کی کامیابی انہیں نصیب ہوگی۔ بصورت دیگر ہمارا حشر بھی قارون، ہامان، فرعون، ابو جہل، ابو لہب اور قوم شعیب والا ہوگا۔ اللہ ہمیں ان کے حشر سے محفوظ رکھے اور ماہ مقدس کی برکتوں سے پوری طرح مستفید ہونے کی توفیق دے ۔ آمین