ام المومنین سیدتناحضرت عائشۃ الصدیقہؓ
آقاﷺکاارشادپاک ہے۔”تم سے بہترین وہ ہے جواپنے گھروالوں کے ساتھ اچھاہے اورمیں اپنے گھروالوں کے ساتھ سب سے اچھا ہوں”۔ازواج مطہرات کے ساتھ رسول اللہﷺکے لطف ومدارت کااندازہ آپ ﷺکی گھریلوزندگی کے واقعات سے ہوتاہے۔ آقاﷺکی پہلی بیوی حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ جو آپﷺسے عمرمیں25سال بڑی تھیں لیکن آپﷺنے ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی ۔حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے انتقال کے بعدآپﷺکے گھرکاانتظام چلانے کے لئے کوئی خاتون نہیں تھی۔ آپﷺ کی تبلیغی مصروفیات بڑھ گئیں توآپﷺنے ایک بڑی عمرکی خاتون حضرت سودہؓ اورایک نوعمرخاتون حضرت عائشۃ الصدیقہؓ سے نکاح کرلیاآپؓ کانکاح نبوت کے دسویں سال ماہ شوال میں ہجرت سے تین سال قبل ہواہمدم مصطفیﷺبننے کاشرف ماہِ شوال ہی میں ۲ہجری کوحاصل کیا۔اس وقت آپؓ کی عمرنوسال کی تھی آپؓ نے نوسال آقاﷺکے ساتھ بسرکیے یعنی جب آپﷺکاوصال ہوااس وقت حضرت عائشہؓ کی عمر۱۸سال تھی آپؓ واحدکنواری خاتون تھیں جوآپﷺکے نکاح میں آئیں۔
حضرت عائشۃ الصدیقہؓ کی ولادت مبارکہ آقاﷺکی بعثت کے چارسال بعدماہِ شوال میں ہوئی۔آپؓ کانام عائشہؓ لقب صدیقہ کنیت حضورﷺکی اجازت سے اپنے بھانجے یعنی عبداللہ بن زبیرؓ کے نام پرام عبداللہ اختیارکی ۔آپؓ امیرالمومنین حضرت سیدناابوبکرصدیقؓ کی بیٹی تھیں ۔آپؓ کی والدہ اُم رومان بنت عامرابن عویم ہیںآپؓ قبیلہ بنوتیم سے تعلق رکھتی تھیں ۔آپؓ کاسلسلہ نسب سیدۃ عائشہ بنت ابوبکرصدیق بن ابوقحافہ بن عامربن عمروبن کعب بن سعدبن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی ،آپؓعہدبچپن سے انتہائی ذہین اورسادگی پسندتھیں ۔آپؓ نے اپنی عمرمیں حضورﷺکوکبھی شکایت کاموقع نہ دیااورایک وفاشعاربیوی کی حیثیت سے رہیں گھرکاساراکام خودکرتیں اگرکبھی مال کی فراوانی ہوتی بھی توراہِ خدامیں تقسیم فرمادیتیں ۔حضرت عبداللہ بن زبیرؓ فرمایاکرتے تھے کہ میں نے ان سے زیادہ سخی کسی کونہیں دیکھا۔حضرت عبداللہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امیرمعاویہؓ نے ان کی خدمت میں لاکھ درہم بھیجے توشام ہوتے ہی سب خیرات کردیے اور اپنے لئے کچھ نہ رکھااس وقت آپؓ خودروزے سے تھیں ۔آپؓ میں جذبہ سخاوت اسقدروسیع تھاکہ کوئی سائل خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔آپؓ کاحافظہ بہت تیزاورحصول علم کابہت شوق تھا۔آقاﷺسے ہرطرح کے مسائل بے جھجک معلوم کرتیں اورخواتین کی رہنمائی کرتی تھیں ۔آپؓ نے معلم کائنات سے تعلیم حاصل کی اسی وجہ سے اتنی بلندپایہ عالمہ ہوگئیں کہ آقاﷺکے ظاہری وصال کے بعدبڑے بڑے صحابہ کرام علہیم الرضوان آپؓ سے مسائل دریافت فرماتے تھے۔آقاﷺپرجب وحی اترتی آپؓ اسے یادفرمالیتیں خلاصہ تہذیب میں ہے کہ آپؓ سے دوہزاردوسودس احادیث مبارکہ مروی ہیں اسی بناء پرآپؓ کوکثیرۃ الحدیث بھی کہاگیاہے آپؓ فن خطابت حدیث قرآن وفقہ میں بے حدماہرتھیں ۔(البدایہ والنہایہ)۔آپؓ بے حدزاہداورعابدہ تھیں ہرسال حج اداکرتیں غزوات میں زخمیوں کی مرہم پٹی اورزخمیوں کوپانی پلانے کی ذمہ داری اٹھاکرجہادمیں حصہ لیتی تھیں۔غزوہ بدرمیں آقاﷺنے آپؓ کادوپٹہ میدان جنگ میں بطورعلم لہرایااسی بناء پراللہ پاک نے فتح عطافرمائی جوکہ آپؓ کی عظمت کی دلیل ہے۔
سیدتناحضرت عائشۃ الصدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺاپنی نعلین مبارک میں پیوندلگارہے تھے جبکہ میں چرخہ کات رہی تھی۔میں نے آقاﷺکے چہرہ پرنورکودیکھاکہ آپﷺکی پیشانی مبارک سے پسینہ بہہ رہاتھااوراس پسینہ سے آپﷺکے جمال میں ایسی تابانی تھی کہ میں حیران تھی آقاﷺنے میری طرف نگاہ کرم اٹھاکرفرمایاکس بات پرحیران ہو؟سیدتناحضرت عائشۃالصدیقہؓ فرماتی ہیں میں نے عرض کیایارسول اللہﷺ!آپﷺکے رخِ روشن اورپسینہ جبین نے مجھے حیران کردیاہے اس پرحضورﷺکھڑے ہوئے اورمیرے پاس آئے اورمیری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیااورفرمایااے عائشہؓ!اللہ تعالیٰ تمہیں جزائے خیردے تم اتنامجھ سے لطف اندوزنہیں ہوئی جتناتم نے مجھے مسرورکردیا۔(حلیۃ الاولیاء)آقاﷺنے حضرت سیدتنافاطمۃ الزہراؓ سے فرمایااے فاطمہؓ جس سے میں محبت کرتاہوں تم بھی اس سے محبت کروگی؟حضرت فاطمۃ الزہراؓ نے عرض کیاضروریارسول اللہﷺمیں محبت رکھوں گی اس پرحضورﷺنے فرمایاتوعائشہؓ سے محبت رکھو۔(صحیح مسلم)آپؓ کوساری امہات المومنین میں بعض خصوصی امتیازات حاصل تھے ۔آپؓ خودفرماتی ہیں کہ سب سے بڑی نعمت جس سے اللہ پاک نے مجھے سرفرازفرمایاوہ یہ ہے کہ وصال کے وقت میرالعاب دہن آپ ﷺکے لعاب دہن شریف میں جمع فرمادیااورآپﷺنے میرے ہی گھروصال فرمایااورآپﷺکاروضہ اقدس بھی آپﷺ کا گھربنا۔حضرت عائشۃ الصدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایاکہ تم مجھے تین رات خواب میں دکھائی گئیں تھیں تمہیں فرشتہ ریشمی ٹکڑے میں لاتاتھامجھ سے کہتاتھایہ تمہاری بیوی ہیں میں نے تمہارے رخ سے کپڑاہٹایاتوتم تھیں میں نے کہاکہ اگریہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تواسے جاری یعنی پورافرمادے گا۔(مسلم،بخاری)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ لوگ اپنے تحفوں کے لئے جناب عائشہؓ کادن تلاش کرتے تھے اس سے وہ لوگ رسول اللہﷺکی مرضی چاہتے تھے فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺکی بیویاں دوگروہ تھیں ایک گروہ وہ جس میں جناب حضرت عائشہؓ ،حضرت حفصہؓ اورحضرت سودہؓ تھیں اوردوسری جماعت میں ام سلمہؓ اوررسول اللہﷺکی باقی بیویاں توام سلمہؓ کے گروہ نے گفتگوکی ان سے کہاکہ تم رسول اللہﷺسے کلام کروکہ آپﷺ لوگوں سے فرمادیں کہ جوبھی رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں ہدیہ بھیجناچاہے توآپؓ کوہدیہ بھیج دیاکرے حضورﷺجہاں بھی ہوں چنانچہ حضرت ام سلمہؓ نے حضورﷺسے عرض کیاآپﷺنے ان سے فرمایاکہ مجھے عائشہؓ کے بارے میں تکلیف نہ دوکیونکہ سواء عائشہؓ کے کوئی بیوی نہیں جن کے بسترمیں ہوں اوروحی آئے ام سلمہؓ نے کہایارسول اللہﷺمیں آپ کی ایذارسانی سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں پھرتمام بیویاں نے جناب فاطمہؓ کوبلایاانہیں رسول اللہﷺکی خدمت میں بھیجاانہوں نے حضورﷺسے عرض کیاتوفرمایااے بچی جس سے میں محبت کرتاہوں تم ان سے محبت نہیں کرتیں ؟بولیں ہاں فرمایاتوان سے محبت کرو۔(مسلم،بخاری)
غزوہ بنومصطلق جو۵ہجری میں پیش آیاتھاآپؓ آقاﷺکے ساتھ سفرکررہی تھیں واپسی پرقافلے نے راستے میں ایک جگہ قیام کیا۔صبح صادق سے پہلے ام المومنینؓ رفع حاجت کے لئے کسی گوشہ میں تشریف لے گئیں۔وہاں آپؓ کاہارٹوٹ گیااس ہارکی تلاش میںآپ کی دیرلگی آپؓ واپس آئیں توقافلہ روانہ ہوچکاتھاقافلہ والوں کوپتہ نہ لگاکہ ام المومنینؓ موجودنہیں ہیں ۔آپؓ قافلہ کی جگہ واپس آکربیٹھ گئیں ایک صحابی رسول حضرت صفوانؓ بڑے بلندکرداراورامانت دار صحابی رسولﷺتھے ۔وہ قافلہ کی گری ہوئی اشیاء کوسنبھالتے تھے اورشرکائے قافلہ کی نگہداشت کرناانکے ذمہ تھاوہ جب پڑاؤکے مقام پرپہنچے توام المومنین سیدتناعائشۃ الصدیقہؓ کودیکھ کرحیران ہوئے ادب احترام سے اونٹ پرسوارہونے کوکہاآپؓ سوارہوگئیں اورحضرت صفوانؓ اونٹ کی مہارپکڑے ہوئے آگے آگے چلنے لگے یہاں تک کہ قافلے میں پہنچادیا۔جب منافقوں کے سردارعبداللہ ابن ابی کوا س واقعے کاعلم ہواتواس نے حضرت عائشۃ الصدیقہؓ پرتہمت لگائی جس سے چندسادہ لوح مسلمان غلط فہمی کاشکارہوگئے ۔ام المومنینؓ کواس تہمت کابالکل پتہ نہ چلاآپؓ بیمارہوگئیں ایک ماہ تک بیماررہیں اس دوران میں ام مسطح کے ذریعے آپؓ کوپتہ چلاتوآپؓ کامرض اوربھی بڑھ گیا۔آپؓ اپنے میکے تشریف لے گئیں اوراس غم میں اتناروئیں کہ کئی رات بالکل نیندنہ آئی ۔آخرکاررحمت خداوندی جوش میں آئی وحی نازل ہوئی جس سے حضرت عائشۃ الصدیقہؓ کی طہارت،عفت وعصمت کی خودرب نے گواہی دی اورالزام لگانے والوں کے جھوٹ کاپول کھل گیا۔سورۃ النورکی قریباًاٹھارہ آیتیں آپؓ کی برات میں نازل ہوئیں ۔ان آیات کے نزول سے پہلے تمام مومنوں اورحضورانورﷺکے دل ام المومنین کی پاکدامنی پرمطمئن تھے چنانچہ حضورﷺنے ارشادفرمایاکہ مجھے اپنی بیوی کی پاکیزگی بالیقین معلوم ہے ۔(بخاری) حضرت عمرؓ فاروق نے ارشادفرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺکے جسم اطہرکومکھی سے محفوظ رکھاکہ وہ نجاست پربیٹھتی ہے۔کیسے ہوسکتاہے کہ رب تعالیٰ آپ کوبری عورت سے محفوظ نہ رکھتا۔حضرت عثمان غنی ذوالنورینؓ نے فرمایاکہ رب نے آپﷺکاسایہ زمین پرنہ پڑنے دیاکہ کسی کاپاؤں اس پرنہ پڑے توکیسے ہوسکتاہے کہ وہ رب آپ کی اہلیہ کومحفوظ نہ فرمائے۔حضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ نے فرمایاکہ ایک جوں کاخون لگ جانے پررب نے آپ نعلین شریف اتارنے کاحکم دیاتوکیسے ہوسکتاہے کہ اب آپ کی اہل بیت کی آلودگی منظورفرمائے ۔اسی طرح اورمخلص مومنوں اورمومنات نے آپؓ کی عصمت کے گیت گائے۔(خزائن وروح) قربان جاؤں جب حضرت مریم ؑ اورحضرت یوسفؑ کوبہتان لگاتوبچے گواہ مگرمحبوبہ ،محبوب رب العالمین کوبہتان لگاتوخودرب تعالیٰ گواہ،
یعنی ہے سورہ نورجن کی گواہ ان کی پُرنورصورت پہ لاکھوں سلام
پاک دامن عورتوں پرجوبہتان باندھتے ہیں اس کی سزاکے بارے میں سورۃ نورکی آیت کریمہ نازل ہوئیں۔ارشادباری تعالیٰ ہے۔ "اورجوپارساعورتوں کوعیب لگائیں پھرچارگواہ معائنہ کے نہ لائیں توانہیں اَسّی 80کوڑھے لگاؤاوران کی کوئی گواہی کبھی نہ مانواوروہی فاسق ہیں۔(سورۃ النورآیت۴)
غزوہ بنومصطلق میں حضرت عائشۃ الصدیقہؓ کے ہارکی گمشدگی کی وجہ سے نبی کریمﷺنے پڑاؤکے دوران قیام طویل کردیاتاکہ گمشدہ ہارمل جائے ۔ اس پڑاؤکی جگہ بھی پانی نہ تھااورنہ ہی مجاہدین کے پاس پانی تھاتمام صحابہ کرام علہیم الرضوان پریشان تھے کہ نمازکاوقت نکلاجارہاہے اورپانی کاکوئی انتظام نہیں اس وقت آپﷺپروحی نازل ہوئی اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمادی اورلشکراسلام نے صبح کی نمازتیمم کرکے پڑھی ۔آپؓ کی برکت سے امت کوتیمم کی سہولت ہوئی۔ آپؓ کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ قرآن حکیم میں پردہ کرنے کے احکامات جاری ہونے سے قبل بھی آپؓ پردہ فرماتی تھیں احادیث مبارکہ میں بکثرت آپؓ کاتذکرہ ملتاہے آپؓ نمازتہجدکی بے حدپابنداور نفلی روزہ بھی کثرت سے رکھتی تھیں ۔آپؓ کی طبیعت میں اسقدرحیاء واحترام نبیﷺتھاکہ حضرت عمرؓ کے دفن ہونے کے بعدقبرنبیﷺپرکبھی بے پردہ نہیں گئیں حضرت جبرائیلؑ بتوسط حضورﷺآپؓ کوسلام کیا۔حضرت ابوسلمہؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشۃ الصدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایاکہ اے عائشہؓ یہ حضرت جبرائیلؑ ہیں تم کوسلام کہتے ہیں انہوں نے جواب دیاکہ ان پرسلام اوراللہ کی رحمت اوربولیں حضوروہ دیکھتے تھے جومیں نہ دیکھتی تھی(بخاری،مسلم)
آپؓ کاوصال حضرت امیرمعاویہؓ کے دورِحکومت میں17 رمضان المبارک 57ہجری بدھ کے روز۶۶سال کی عمرمیں مدینہ منورہ میں ہوابعض شب سہ شبنہ ۱۷رمضان ۵۸ بیان کرتے ہیںآپؓمدینے کے قبرستان جنت البقیع میں مدفون ہوئیں آپﷺکے جلیل القدرصحابی حضرت ابوہریرہؓ نے آپؓ کی نمازہ جنازہ پڑھائی۔ آپؓ نے وصیت فرمائی تھی کہ میراجنازہ رات کواٹھایاجائے اوررات ہی کودفن کیاجائے چنانچہ ایساہی عمل میں لایاگیا۔