واقعہ کربلاازواج ،دختران اہل بیتؓ کاکردار
حافظ کریم اللہ چشتی
حسینؓ منزلِ حق ہیں توحق نمازینبؓ وہ ابتدائے شہادت توانتہازینبؓ
محرم الحرام کامہینہ شروع ہوتے ہی ہمارے دلوں میں اس واقعے کی یادتازہ ہوجاتی ہے جسے تاریخ "سانحہ کربلا "کے نام سے یادکرتی ہے ۔دس محرم الحرام 61 ہجری کومیدان کربلا میں تاریخ اسلام کاانتہائی دردناک اوردلوں کوہلاکررکھ دینے والا سانحہ رونماہوا۔یزیدیوں نے نواسہ رسولﷺ لخت جگرسیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہراسلام اللہ علیھاوحضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ،حضرت امام حسینؓ ،ان کی اولاد،اقرباء اوردیگرساتھیوں کوانتہائی مظلومیت کے عالم میں شہید کیا۔تاریخ اسلام میں اوربھی بہت سی جانیں اللہ کی بارگاہ میں قربان ہوئی ہیں ہرشہادت کی اہمیت وافادیت مُسلمّ ہے مگرشہادت سیدناامام عالی مقام حضرت امام حسینؓ کی دوسری شہادتوں کے مقابلے میں اہمیت وشہرت اس لئے بڑھ کرہے کہ کربلاکے میدان میں شہیدہونے والوں کی آقائے دوجہاں سرورکون ومکان ﷺسے خاص نسبتیں ہیں۔یہ داستانِ شہادت گلشنِ نبوتﷺکے کسی ایک پھول پرمشتمل نہیں۔تاریخ کے کسی دورمیں بھی امت مسلمہ کربلاکی داستان کوبھول نہیں سکتی ۔ سیدناحضرت امام حسینؓ نے اپنی جان تواللہ کے نام پرقربان کردی مگرباطل کے آگے سرنہ جھکایا۔اس معرکہ کے واحدراہنماحضرت امام حسینؓہیں ان کے گردایک جماعت تھی جس میں ایک ہی قوم ونسل کے افرادشامل نہیں تھے۔بلکہ اس جماعت کی حیثیت بین الاقوامی تھی ۔ان میں آزاد،غلام ،عربی ،قریشی،غیرقریشی غرض ہرنسل،ہرقبیلے کے سرفروش شامل تھے ۔
حضرت سیدہ زینبؓبنت علیؓ
خاتونِ کربلاحضرت سیدہ زینبؓ نے باب العلم حضرت علی المرتضیٰؓ کے گھر۵ہجری کوجنم لیا ۔آپؓ کانام آقائے دوجہاں سرورکون ومکاں جناب احمدمجتبیٰ محمد مصطفیﷺ نے زینب رکھا ۔ روایات میں آتاہے کہ آپؓ کانام آپؓ کی پیدائش کے کئی دن بعدرکھاگیا۔آقائے دوجہاں سرورکون ومکاںﷺآپؓ کی پیدائش کے وقت سفرمیں تھے سیدۃ النساء العالمین حضرت سیدتنافاطمہ الزہراؓ نے امیرالمومنین حضرت سیدناعلی المرتضیٰ شیرخداؓ سے کہاکہ وہ بیٹی کانام تجویزکریں ۔ امیرالمومنین حضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ نے کہاکہ میں اس کانام کیسے رکھوں اس کانام توآقاﷺخودرکھیں گے ۔چنانچہ آقاﷺجب سفرسے واپس تشریف لائے توآپﷺکویہ خوشخبری سنائی گئی توآپﷺ نے فوراًسیدۃ النساء العالمین حضرت سیدتنافاطمہ الزہراؓ کے گھرتشریف لے گئے اورحضرت زینبؓ کوگود میں اٹھاکرپیارکیااور ان کانام(زینبؓ)رکھا۔آپؓ اپنی تمام صفات میں بے مثل تھیں اورسیدۃ النساء العالمین حضرت سیدتنافاطمہ الزہراؓ کی سیرت پاک کاعملی نمونہ تھیں۔آقائے دوجہاں سرورکون ومکاںﷺکوآپؓ سے بے تحاشہ محبت تھی آپؓ حضورنبی کریمﷺ کی آنکھوں کانورتھیں۔آپؓ کے نانا اللہ پاک کے محبوب آپؓ کی والدہ خاتونِ جنت سیدۃ النساء العالمین حضرت سیدتنافاطمہ الزہراؓ تھیں۔آپؓ کے والدحضرت سیدناعلی المرتضی شیرخداؓ ،بھائی حضرت سیدنا امام حسنؓ اورحضرت سیدناامام حسینؓ جنتی نوجوانوں کے سردارتھے ۔حضرت سیدہ زینبؓ کا نکاح اپنے چچاحضرت جعفرطیارؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ ابن جعفرؓسے ہوا۔آپؓ نے زندگی میں بے شمارمصائب برداشت کئے ۔ابھی آپؓ کی عمرچھ سال کی بھی نہ ہوئی کہ آپؓ کے نانا حضورنبی کریمﷺوصال فرما گئے۔پھرچندماہ بعدہی آپؓ کی والدہ ماجدہ سیدۃ النساء العالمین حضرت سیدتنافاطمہ الزہراؓ رحلت فرماگئیں۔جب آپؓ جوان ہوئیں تووالدمحترم امیرالمومنین حضرت سیدناعلی المرتضیٰؓ کی شہادت اورپھربھائی حضرت سیدناامام حسنؓ کی شہادت،ان سب مصائب کی وجہ سے آپؓ کوام المصائب کی کنیت سے پکاراجانے لگا۔ آپؓ اپنی والدہ کی طرح صابروشاکراور پردے کانہایت خیال رکھتی تھیں۔ایک مرتبہ بچپن میں قرآن مجیدفرقان حمیدکی تلاوت کرتے ہوئے آپؓ کی سرمبارک سے چادرسرک گئی توسیدۃ النساء العالمین حضرت سیدتنافاطمہ الزہراؓ نے فرمایاکہ بیٹی سرپرچادرکروکیونکہ تم اللہ پاک کی مقدس کتاب قرآن مجیدفرقان حمیدپڑھ رہی ہواوراسکے ادب کاتقاضاہے کہ عورت کاسرڈھانپاہواہو۔بچپن کی اس نصیحت کے بعدآپؓ نے کلامِ الٰہی کی تلاوت کے علاوہ ساری زندگی کبھی اپنے سرکوننگا نہ کیا۔آپؓ فہم وفراست ،عقل ودانش اورتدبرکی مالک تھیں۔حضرت علی المرتضیٰؓ کے عہدخلافت میں کوفہ میں درسِ قرآن دیاکرتی تھیں آپؓ غریب پرورتھیں۔آپؓ نے کبھی دنیاوی لذتوں کوفوقیت نہ دی اوردنیاوی عیش وآرام کی نسبت آخرت کی زندگی کوترجیح دی ۔ آپؓ کی عبادت وریاضیت کایہ عالم تھاکہ ساری زندگی کبھی تہجدکی نمازنہ چھوڑی ۔حضرت سیدناامام زین العابدینؓ فرماتے ہیں کہ واقعہ کربلاکے خونی واقعات اوراس کے بعدکے مصائب ان سب کے باوجودحضرت سیدہ زینبؓ نے نمازتہجدکبھی ترک نہ کی ۔جس سے آپؓ کی زاہدوتقویٰ کااندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے حضرت سیدناامام حسینؓ ،آپؓ سے درخواست کرتے تھے کہ اے میری بہن !میں تجھ سے دعاکی درخواست کرتاہوں اورتم میرے لئے دعاکیاکرو۔واقعہ کربلاکے بعدآپؓ اکثروبیشتریہ دعافرمایاکرتی تھیں۔کہ الٰہی !آلِ رسولﷺکی اس قربانی کواپنی بارگاہ میں قبول فرمااورہماری اس قربانی کورائیگاں نہ جانے دے ۔حضرت سیدناامام حسینؓ کے ساتھ آپؓ کی محبت بے مثل تھی ۔آپؓ نے سیدناامام حسینؓ کاہرمشکل گھڑی میں ساتھ دیا۔جب حضرت سیدناامام حسینؓ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے توجذبہ ایثاراورمحبت حسینؓ کے تحت آپؓ ان کے ساتھ روانہ ہوئیں آلِ رسولﷺکی یہ قربانی اللہ پاک نے قبول فرمائی اورتاقیامت ان کے فضائل ومناقب امت محمدیہﷺکی زبانوں پرجاری فرمادیے۔ کربلاکے میدان میں آپؓ کے صاحبزادوں حضرت محمدبن عبداللہؓ اورحضرت عون بن عبداللہؓ نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔امیرالمومنین حضرت سیدناعلی المرتضیٰؓ جب مدینہ منورہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے توآپؓ اس وقت اپنے شوہراوربچوں کے ہمراہ کوفہ چلی گئیں۔پھر امیرالمومنین سیدناحضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ کی شہادت کے بعدحضرت سیدناامام حسنؓ اپنے تمام گھروالوں کولے کرمدینہ منورہ واپس آگئے ۔آپؓ ان کے ساتھ مدینہ منورہ آگئیں ۔جب سیدناحضرت امام حسینؓ مدینہ منورہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے توآپؓ کے شوہرحضرت عبداللہ بن جعفرؓ کسی وجہ سے ساتھ نہ جاسکے توانہوں نے دوبیٹوں کوماں کے ساتھ بھیج دیاواقعہ کربلامیں آپؓ کی آنکھوں کے سامنے آپؓ کے بیٹوں،بھانجوں اوربھائی کوشہیدکردیاگیا،آپؓنے اس موقع پربھی صبرواستقلال کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑااوران کی شہادت پرکسی قسم کاماتم نہ کیا۔ لمختصرواقعہ کربلاکے بعدحضرت سیدہ زینبؓ کویزیدکے دربارمیں پیش کیاگیاتوآپؓ نے وہاں نہایت فصیح وبلیغ خطبہ دیاجوتاریخ میں سنہری حروف میں رقم ہے
سیدہ زینبؓ کاخطبہ
’’تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جوسارے جہانوں کاپالنے والاہے اوردرودوسلام حضورنبی کریمﷺاوران کے اہل بیت پر۔اللہ رب العزت کافرمان ہے کہ ان لوگوں کاانجام برُاہے جوبُرے کام کرتے ہیں اوراس کے احکامات کوجھٹلاتے اوران کاتمسخراڑاتے ہیں ۔اے یزید!تونے ہم پرزمین تنگ کردی اورہمیں قیدکیااورتوُسمجھتاہے کہ ہم ذلیل ہوئے اوتوُبرترہے تویہ سب تیری اس سلطنت کی وجہ سے ہے اورتونے شایداللہ پاک کافرمان نہیں سناکہ کفاریہ گمان نہ کریں کہ ہم نے ان کے ساتھ جونرم رویہ رکھاہے وہ ان کے لئے بہترہے بلکہ صرف یہ مہلت ہے تاکہ وہ دل کھول کرگناہ کریں پھران کے لئے ایک دردناک عذاب ہے تونے آلِ رسولﷺاوربنی عبدالمطلب کاناحق خون بہایااورعنقریب توبھی ایک دردناک انجام سے دوچارہوگا۔میں اللہ پاک سے امیدرکھتی ہوں کہ وہ ہماراحق ہمیں دے گااورہم پرظلم کرنے والوں سے بدلہ لے گااوران پراپناقہرنازل فرمائے گا۔توعنقریب اپنے گناہوں کے ساتھ حضورنبی کریمﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوگااورجواللہ کے راہ میں شہیدہوئے ان کے بارے میں اللہ ہی کافرمان ہے کہ وہ زندہ ہیں انہیں رزق ملتاہے اورجن لوگوں نے تمہارے لئے تمہاراراستہ آسان کیاوہ بھی عنقریب تیرے ساتھ بربادہونے والے ہیں ۔اے یزید!اگرتوہماری ظاہری کمزوری کوخودکے لئے غنیمت سمجھتاہے توکل بروزِقیامت تواپناکیاہواپائے گا۔اللہ اپنے بندوں پرظلم نہیں کرتا۔اورنہ ہی ہم اس سے کوئی شکوہ کرتے ہیں بلکہ ہم ہرحال میں صابراوراس پربھروسہ کرنیوالے ہیں تواپنے مکروفریب سے جوچاہے کرلے مگرتوہرگزہمارے ذکرکومٹانہیں سکے گااورنہ ہی ہمارے مقام کی بلندی کوچھوسکے گا۔تیری یہ سلطنت عارضی ہے اورعنقریب منادی کرنیوالامنادی کرے گااورلعنت ہوایسی قوم پرجس نے یہ ظلم وستم کیا۔پس اللہ پاک کی حمدوثناء ہے جس نے ہمارے پہلوں کاایمان کے ساتھ اورشہادت کے ساتھ خاتمہ فرمایااوروہ نہایت مہربان اوررحم والاہے اورہمارے لئے کافی ہے کیونکہ وہ بہترین کارسازہے‘‘۔واقعہ کربلاکے بعدآپؓ نے قیدوبندکی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔کتب سیرکی کثیرروایات میں ہے کہ آپؓ کاوصال ۱۵رجب المرجب ۶۲ھ میں ہوآپؓ اس وقت اپنے شوہرحضرت عبداللہ بن جعفرکے ہمراہ شام کی جانب سفرفرمارہی تھیں آپؓ کاوصال دمشق کے نزدیک ہواجس مقام پرآپؓ کاوصال ہواوہ مقام زینبیہ کے نام سے مشہورہے وہاں پرآپؓ کامزارپاک مرجع گا ہ خلائق خاص وعام ہے ۔اس کے علاوہ آپؓ کاایک مزارمصرمیں بھی بتایاجاتاہے جبکہ کچھ روایات کے مطابق آپؓ کاوصال مدینۃ المنورہ میں ہوااورآپؓ کی قبرمبارک جنت البقیع میں ہے ۔ کتب عشق کے دوباب ہیں ایک کربلادوسراکوفہ ودمشق ۔کربلاکاباب سیدالشہداء حضرت امام حسینؓ نے لکھااورکوفہ ودمشق کاباب المصائب سیدہ زینبؓ نے رقم کیاآپؓ نے واقعہ کربلامیں کبھی علیؓ کارنگ بھرااورکبھی امام حسینؓ بن کرتسلیم ورضاکے نقوش کوابھاراآپؓ کاارادہ ایک عورت کاارادہ تھاآپؓ کے عزم واستقلال میں امام حسینؓ کے عزم واستقلال کی ایک جھلک تھی ۔آپؓ نے کوفہ وشام کے دربارمیں جابراوردشمن حکمرانوں کاسامناکیاجہاں اسلامی شریعت کی توہین ہورہی تھی وہاں امربالمعروف نہی عن المنکرکے فریضہ کوانجام دیااورکلؤہ حق بلندکیااپنی حق گوئی اورجدوجہدسے سیدہ زینبؓنے اسلام کی تعلیمات کوبقاکی معراج پرپہنچایاسیدہ زینبؓ نازک سے نازک موقع پربھی حضرت علیؓ کے جاہ جلال کے ساتھ حسینؓ بن کربولیں توباطل کاسرکچل دیااورحق کابول بالاکردیا۔اللہ پاک کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری خطائیں معاف ہوں۔
حضرت سیدہ ام کلثومؓ بنت علیؓ:
حضرت سیدہ ام کلثومؓ ۹ھ میں تولدہوئیں۔آپؓ اخلاق واطوارمیں اپنی والدہ سیدۃ النساء العالمین حضرت سیدتنافاطمہ الزہراؓ اورناناحضورنبی کریمﷺ سے مشابہ تھیں۔حضرت ام کلثومؓ کاپہلانکاح حضرت سیدناعمرفاروقؓسے ہوا۔حضرت ابوجعفرؓ سے مروی ہے کہ حضرت سیدناعمرفاروقؓ نے حضرت سیدناعلی المرتضیٰؓ سے ان کی بیٹی کے رشتہ کے بارے میں بات چیت کی ۔حضرت سیدناعلی المرتضیٰ شیرخداؓ نے فرمایاکہ ام کلثومؓ ابھی چھوٹی ہے اورمیں نے اپنی بیٹیوں کوحضرت سیدناجعفرؓ کے بیٹوں کے لئے روک رکھاہے ۔حضرت سیدناعمرفاروقؓ نے فرمایاکہ اللہ کی قسم!روئے زمین پرام کلثومؓ سے کرامت وبزرگی کااتنامنتظرکوئی نہیں ہے جتناکہ میں ہوں ۔حضرت سیدناعلی المرتضیٰؓ نے آپؓ سے حامی بھرلی اوراپنی بیٹی حضرت سیدہ ام کلثومؓ کانکاح حضرت سیدناعمرفاروقؓ سے کردیا۔حضرت سیدناعمرفاروقؓ نے آپؓ کامہرچالیس ہزارمقررکیا۔حضرت سیدناعمرفاروقؓ نے فرمایاکہ میں نے حضرت سیدہ ام کلثومؓ سے نکاح اس لئے کیاکہ آقاﷺنے فرمایاہے کہ بروزمحشرتمام نسب اورتعلق ختم ہوجائیں گے مگرمیرانسب اورتعلق قائم رہے گا۔چنانچہ میں نے حضورنبی کریمﷺسے اپنے تعلق کومزیدکرنے کے لئے ان سے نکاح کیااگرچہ میں حضورنبی کریمﷺکاخسرتھامگریہ تعلق اس سے بہترہے۔حضرت سیدہ ام کلثومؓ کی حضرت سیدناعمرفاروقؓ سے اولاد ایک صاحبزادے زیدؓ اورایک صاحبزادی رقیہؓ پیداہوئیں۔حضرت سیدناعمرفاروقؓ کی شہادت کے بعدآپؓ کانکاح عون بن جعفرؓ سے ہوا۔ان سے کوئی اولادنہیں ہوئی ۔ان کے انتقال کے بعدان کے بھائی محمدبن جعفرؓ سے ہواان سے ایک لڑکی پیداہوئی جوبچپن ہی میں انتقال کرگئیں۔ان کے انتقال کے بعدان کے تیسرے بھائی عبداللہ بن جعفرؓ سے ہوا۔ان سے بھی کوئی اولادنہیں ہوئی اورانہی کے نکاح میں سیدہ حضرت ام کلثومؓ کاانتقال ہوااوراسی دن اُن کے صاحبزادے زیدؓ کابھی انتقال ہوا۔دونوں جنازے ساتھ ہی اُٹھے اورکوئی سلسلہ اولادکاان سے نہیں چلا۔(فضائل اعمال)آپؓ کامزارپاک ملک شام میں حضرت سیدہ سکینہ بنت امام حسینؓ کے مزارسے ملحق ہے اورمرجع گاہ خلائق خاص وعام ہے ۔اللہ پاک کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری خطائیں معاف ہوں۔روایت کے مطابق حضرت سیدناامام حسینؓ کی ازواج کی تعدادپانچ ہے جن سے آپؓ کے چھ بچے تولدہوئے ۔ذیل میں آپؓ کی ازواج واولادمیں سے بنات کامختصرتذکرہ کیاجارہاہے۔
حضرت سیدہ شہربانوؓ:
آپؓ حضرت سیدناامام زین العابدینؓ کی والدہ ماجدہ ہیں۔حضرت سیدناعمرفاروقؓ کے زمانہ خلافت میں جب فارس کاعلاقہ فتح ہواتوآپؓ بھی قیدیوں کے ساتھ یرغمال بناکرمدینہ منورہ لائی گئیں۔حضرت سیدناعمرفاروقؓ نے آپؓ کوحضرت سیدناامام حسینؓ کودے دیااورحضرت سیدناامام حسینؓ نے آپؓ کوآزادکرکے نکاح کرلیا۔
حضرت سیدہ لیلیٰ ثقفیہ:
آپؓ حضرت سیدناعلی اکبرؓ کی والدہ اورامام حسینؓ کی شریک زندگی تھیں ۔ابی مرہ کی بیٹی تھیں ۔بعض روایات میں آیاہے کہ کربلامیں موجودتھیں اور اسیری میں جناب زینب اورحضرت کلثوم کے ساتھ رہیں ۔مگراسکے بعدکے ان کے حالات زندگی نہیں ملتے ۔
حضرت سیدہ ربابؓ:
آپؓامراء القیس کی صاحبزادی تھیں۔حضرت سیدناعبداللہ المعروف علی اصغراورحضرت سیدہ سکینہؓ کی والدہ اورحضرت امام حسینؓ کی رفیقہ حیات تھیں۔واقعہ کربلامیں موجوداوراسیری میں بھی اہل حرم کے ساتھ شریک رہیں ۔ اپنے شیرخوارلخت جگرکی شہادت پرصبرکیا۔اللہ پاک کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری خطائیں معاف ہوں۔
حضرت سیدہ ام اسحاقؓ:
آپؓ طلحہ بن عبداللہؓ کی صاحبزادی تھیں۔آپؓ سے حضرت امام حسینؓ کی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہ صغراء تولدہوئیں۔
حضرت سیدہ قضاعیہؓ:
آپؓ کاتعلق قبیلہ بنی قضاعیہ سے ہے آپؓ سے حضرت امام حسینؓ کے صاحبزادے حضرت امام حسینؓ تولدہوئے۔
حضرت سیدہ سیکنہ بنت الحسینؓ:
آپؓ حضرت امام حسینؓ کی پیاری بیٹی اورحضرت عباسؓ (علم دار)کی محبوب ترین بھتیجی تھیں ۔آپؓ حضرت سیدہ ربابؓ کے بطن سے تولدہوئیں۔ اورشہزادہ علی اصغرؓ کی بہن تھیں ۔واقعہ کربلاکے وقت آپؓ کی عمرمبارک محض سات برس تھی ۔حضرت سیدناامام حسینؓ کواپنی اس صاحبزادی سے بے پناہ محبت تھی۔واقعہ کربلاکے بعدیرغمال بنائی گئیں اورپھرجب یزیدنے رہاکیاتوآپؓ اپنی پھوپھی حضرت سیدہ زینبؓ کے ہمراہ مدینہ منورہ تشریف لے گئیںآپؓ کی تربیت میں حضرت سیدہ زینبؓ نے کسی قسم کی کسرنہ چھوڑی اوراپنے بھائی کی اس ننھی نشانی کوہمیشہ اپنے ساتھ رکھا۔
حضرت سیدہ فاطمہ صغراءؓ:
حضرت سیدہ فاطمہ صغراءؓ ،حضرت سیدہ ام اسحاقؓ کے بطن سے تولدہوئیں۔آپؓ کانکاح حضرت سیدناامام حسنؓ کے صاحبزادے حضرت سیدناحسن مثنیٰؓ سے ہوا۔جس وقت معرکہ کربلاپیش آیا۔آپؓ اس وقت مدینہ منورہ میں مقیم تھیں اوراپنے شوہرحضرت سیدناحسن مثنیٰؓ جوکہ ان دنوں تجارت کی غرض سے مدینہ منورہ سے باہرتھے اس قافلہ میں شامل نہ ہوسکی تھیں۔
اللہ رب العزت اہل بیت کے صدقے ہمارے گناہ معاف فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین