حسین ؓ سب کا
سید مبشرمہدی
نبی اکرم ؐ کو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے ہوئے چوتھا سال تھا ۔شعبان کے مہینے کی تیسری تاریخ کی سہانی صبح اور جمعرات کا دن ، نبی اکرم ؐ کو خوش خبری ملی کہ آپ کی پیاری بیٹی فاطمۃ الزہراء ؓکے گھر دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی ہے۔اس خوش خبری کو سنتے ہی رسول اللہ ؐ خوشی خوشی حضرت علی ؓ کے گھر تشریف لائے۔نواسے کو گود میں لیا ، اور کانوں میں اذان و اقامت کہی ، اور وحی ِ الہی سے معطر اپنی زبان حضرت حسین ؓ کو چوسنے کے لیے دی ۔ساتویں دن عقیقہ کیا گیا ۔آپ نے اپنے نواسے کا نام "حسین” تجویز کیا ۔ اس سے قبل بڑے نواسے کا نام "حسن” تجویز کر چکے تھے ۔
حضرت امام حسین ؓ کو اسلامی دنیا میں خصوصی امتیاز حاصل ہے ۔ایک طرف نانا جان سید المرسلین ؐ اور امام الانبیا ؐ ہیں تو نانی جان ملیکۃ العرب اور طاہرہ ، والدِ محترم سید الاولیا اور بابِ مدینۃ العلم ہیں تو والدہ محترمہ جگر گوشہ رسول ؐ اور سیدۃ النساء اہلِ الجنۃ کے القاب سے ملقب ہیں اور خودابنائے رسول اللہ اور جوانانِ جنت کے سردار ہیں ۔رسول ِاکرم ؐ اپنے دونوں نواسوں سے بہت محبت رکھتے تھے ۔ انہیں اپنے کاندھوں پر سوار کرتے اور مدینہ کی گلیوں میں ان کی سواری بنتے۔آپ ؐ نے فرمایا ” حسین ؓ مجھ سے ہیں اور میں ؐ حسین ؓ سے ہوں ، جو شخص حسین ؓ سے محبت کرے اللہ اس سے محبت فرمائے "(سنن ترمذی باب مناقب ج 6)۔ آپ مسجد ِنبوی میں نماز پڑھ رہے ہوتے تو حالتِ سجدہ میں آپ کے نواسے آپ کے کندھے پر سوار ہو جاتے ، جب صحابہ کرام ؓ نے منع کرنا چاہا ، تو آپ نے اشارہ سے منع فرمایا ۔ نماز سے فراغت کے بعد ان دونوں کو گود میں اٹھایا اور فرمایا ، جو مجھ سے محبت کرنا چاہے وہ ان سے محبت کرے ۔( سننِ نسائی کتاب الفضائل ج 7)
حضرت امام حسین ؓ کی عمر 6 برس تھی جب رسول اللہ ؐ کی وفات ہوئی ، 6 ماہ بعد والدہ ماجدہ بھی وفات پا گئیں۔ اور فقط شفقتِ پدری کے سہارا رہ گیا ۔ 21 رمضان المبارک 40 ہجری کو حضرت علی ؓ کی شہادت کے وقت ان کی عمر قریباً 36 سال تھی ۔50 ہجری میں اپنے بڑے بھائی امام حسن ؓکی مدینہ میں شہادت کے بعد اپنے خاندان کی سربراہی کو سنبھالا ۔60 ہجری ماہِ رجب کی اخیر میں یزید کی بیعت سے انکار کرکے ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مقصد لیے ، اہل و عیال کے ہمراہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے ۔4 ماہ مکہ میں قیام کے بعد اہلِ کوفہ کی دعوت پر کوفہ کی طرف روانگی اختیار کی ۔راستے میں یزید کی طرف سے نامزد گورنر کوفہ و بصرہ عبید اللہ ابن زیاد کے سپاہیوں نے آپ کا راستہ روکا ۔ آپ ان کے ساتھ ساتھ سفر کرتے رہے ۔61 ہجری ، 2 محرم الحرام کو سر زمین کربلا پہنچے اور یہیں ڈیرے ڈال دیئے۔
7محرم کو آپ ؓ اور آپ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا گیا ۔اور دس محرم کو دشت ِ کربلا میں حق و باطل کا معرکہ وقوع پذیر ہوا ۔ ایک ایک کر کے آپ ؓکے رفقاء نے شہادت کا جام نوش کیا ۔ان میں آپ کے بھائی ، فرزند ، بھتیجے ، بھانجے ، چچا زاد بھائی اور اصحاب شامل تھے ۔ آپ نے حالتِ سجدہ میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ۔آپ ؓ حق گوئی، ثابت قدمی اور شجاعت و بہادری کا ایک استعارہ ہیں۔
آپ کی یاد تمام عالم ِ اسلام میں منائی جاتی ہے ۔ محافل و مجالس میں ذکر شہدا ئے کربلا کیا جاتا ہے اور ان کی پیاس کی یاد میں سبیلیں لگائی جاتی ہیں ۔آپ ؓ نے سر کٹا کے بھی انسانیت و حریت و آزادی کو سر بلند کر دیا ۔ آپ ؓ پر سلام ہو ۔۔