حضرت سیدنالوط علیہ السلام
حافظ کریم اللہ چشتی
حضرت سیدنالوط علیہ السلام حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں۔جب آپ علیہ السلام کے چچاحضرت سیدناابراہیم علیہ السلام نے شام کی طرف ہجرت کی توحضرت سیدناابراہیم علیہ السلام نے سرزمین فلسطین میں قیام فرمایااورحضرت لوط علیہ السلام اُردن میں اُترے ۔آپ علیہ السلام نے حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی بہت خدمت کی تھی۔حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی دعاسے آپ علیہ السلام نبی بنائے گئے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کواہل سُدُوم (بحرمردارکے نزدیک موجودہ اردن کے شہروں میں سے ایک شہرتھاقرآن پاک میں اسی کو’’الموتفکہ‘‘سے تعبیرکیاگیاہے)کی طرف مبعوث کیا۔آپ علیہ السلام ان لوگوں کودین حق کی دعوت دیتے تھے ۔اورفعلِ بدسے روکتے تھے ۔قوم لوط کی سب سے بڑی لواطت یعنی لڑکوں سے بدفعلی کرناتھااسی پرحضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایاکہ’’کیاتم ایسی بے حیائی کاارتکاب کرتے ہوجوسارے جہان میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کی ۔تم عورتوں کوچھوڑکرشہوت پوری کرنے کے لئے مردوں کے پاس جاتے ہو،یقیناتم حدسے گزرچکے ہو‘‘۔(نورالعرفان)
حضرت کعب الاحباررضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدنالوط علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے ۔اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی کے بیٹے (بھتیجے)تھے اورآپ علیہ السلام سفیدرنگت ،خوبصورت چہرے،پتلی ناک،چھوٹے کانوں ،لمبی انگلیوں اورخوبصورت دانتوں والے تھے ۔آپ علیہ السلام جب ہنستے تھے توتمام لوگوں سے بڑھ کرخوبصورت لگتے تھے ۔آپ علیہ السلام لوگوں میں سے حسین،باوقاراورحکمت والے اوراُ س وقت اپنی قوم کوکم تکلیف دینے والے تھے۔جب آپ علیہ السلام کواپنی قوم کی طرف سے تکلیف پہنچی جوبھی پہنچی جس کاآپ علیہ السلام کی قوم نے آپ کے لئے ارادہ کیاتھا۔جیساکہ آپ علیہ السلام نے فرمایا’’کاش مجھ میں تمہارے مقابلہ کی ہمت ہوتی یامیں(آج)کسی مضبوط قلعہ میں پناہ لے سکتا‘‘۔(الحاکم فی المستدرک)
قرآن مجیدفرقان حمیدمیں ارشادباری تعالیٰ ہے ۔’’فَاٰمَنَ لَہ‘ لُوْط’‘ وَقَالَ اِنِّیْ مُھَاجِر’‘اِلٰی رَبِّیْْ اِنَّہ‘ ھُوَالْعَزِیْزُالْحََکِیْمُ(سورۃ العنکبوت26)’’توابراہیم کی تصدیق لوط نے کی اورابراہیم نے فرمایا’’میں اپنے رب کی(سرزمین شام کی)طرف ہجرت کرنے والاہوں،بیشک وہی عزت والا،حکمت والاہے‘‘۔
(فَاٰمَنَ لَہ‘ لُوْط’‘)جب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام آگ سے صحیح سلامت تشریف لائے توآپ علیہ السلام کایہ معجزہ دیکھ کرحضرت سیدنالوط علیہ السلام نے آپ علیہ السلام کی رسالت کی تصدیق کی ۔حضرت سیدنالوط علیہ السلام حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی سب سے پہلے تصدیق کرنیوالے ہیں ۔یادرہے یہاں ایمان سے رسالت کی تصدیق ہی مرادہے ۔کیونکہ اصل توحیدکااعتقادتوان کوہمیشہ سے حاصل ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام ہمیشہ ہی مومن ہوتے ہیں۔اورکسی حال میں ان سے کفرکاتصورتک نہیں کیاجاسکتا۔
(وَقَالَ اِنِّیْ مُھَاجِر’‘اِلٰی رَبِّی)حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے آگ سے صحیح سلامت تشریف لانے اوراتناعظیم الشان معجزہ دیکھنے کے باوجودآپ علیہ السلام کی قوم ایمان نہ لائی ۔اورکفروشرک پربضدرہی توآپ علیہ السلام نے اس جگہ سے ہجرت کرنے کاارادہ فرمایاچنانچہ آپ علیہ السلام نے عراق سے سرزمین شام کی طرف ہجرت فرمائی۔اس ہجرت میں آپ علیہ السلام کے ساتھ آپ علیہ السلام کی بیوی حضرت سارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااورحضرت لوط علیہ السلام تھے ۔(خازن،العنکبوت)
وَاَنَّ لُوْطاًلَّمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔اِذْنَجَّیْنٰہُ وَاَھْلَہٓ‘اَجْمَعِیْنَ۔اِلَّاعَجُوْزًافِی الْغٰبِرِیْنَ۔ثُمَّ دَمَّرْنَاالْاٰخَرِیْنَ (الصفٰت133,136)’’اوربیشک لوط ضروررسولوں میں سے ہے ۔جب ہم نے اسے اوراس کے سب گھروالوں کونجات بخشی۔مگرایک بڑھیاپیچھے رہ جانے والوں میں ہوگئی۔پھردوسروں کوہم نے ہلاک فرمادیا‘‘۔(پارہ 23سورۃ الصفٰت،آیت133,136)
اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کواہل سُدُوم کی طرف نبی بناکربھیجاتوان لوگوں نے حضرت سیدنالوط علیہ السلام کوجھٹلایااورآپ علیہ السلام کوشہیدکرنے کاارادہ کرلیااسوقت حضرت سیدنا لوط علیہ السلام نے دعامانگی’’اے میرے اللہ!مجھے اورمیرے گھروالوں کوان لوگوں کے عمل سے نجات دے ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اوران کے سب گھروالوں کونجات بخشی البتہ ایک بڑھیاعذاب کے اندررہ جانے والوں میں شامل ہوگئی۔یہ حضرت سیدنالوط علیہ السلام کی بیوی’’واہلہ‘‘تھی جوکافرہ اورخائنہ تھی ۔پھراللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنالوط علیہ السلام کی قوم کے کفارپرپتھربرساکراوران کی بستیوں کاتختہ الٹ کرسب کوہلاک کردیا‘‘۔(روح البیان ،الصافات،تحت الایہ۱۳۶،۱۳۳)
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔’’ وَلُوْطًااٰتَیْنٰہُ حُکْمًاوَّعِلْمًاوَّنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ تَعْمَلُ الْخَبآءِثَ۔اِنَّھُمْ کَانُوْاقَوْمَ سَوْءٍ فٰسِقِیْنَ۔وَاَدْخَلْنٰہُ فِیْ رَحْمَتِنَااِنَّہ‘ مِنَ الصَّلِحَیْنَ۔(الانبیاء74,75)’’اورلوط کوہم نے حکومت اورعلم دیااوراسے اس بستی سے نجات بخشی جوگندے کام کرتی تھی ۔بیشک وہ برے لوگ نافرمان تھے اورہم نے اسے اپنی رحمت میں داخل فرمایابیشک وہ ہمارے خاص مقربین میں سے تھا‘‘۔ان آیت کریمہ میں حضرت سیدنالوط علیہ السلام پرکیے جانے والے احسانات کاتذکرہ کیاجارہاہے۔(وَلُوْطًااٰتَیْنٰہُ حُکْمًاوَّعِلْمًا)اورلوط کوہم نے حکومت اورعلم دیا۔چنانچہ پہلااحسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنالوط علیہ السلام کوحکومت عطافرمائی۔بعض مفسرین کے نزدیک یہاں’’حکم‘‘سے مرادحکمت یانبوت ہے۔اگرحکومت والامعنی مرادہوتواس کامطلب لوگوں کے باہمی جھگڑوں میں حق کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے ۔دوسرااحسان یہ ہے کہ انہیں ان کے شان کے لائق علم عطاکیاگیا۔تیسرااحسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بستی سے نجات بخشی جہاں کے رہنے والے لواطت وغیرہ گندے کام کیاکرتے تھے ۔کیونکہ وہ برے لوگ اورنافرمان تھے۔(تفسیرکبیر،تفسیرجلالین،تفسیربیضاوی)
(وَاَدْخَلْنٰہُ فِیْ رَحْمَتِنَا)’’اورہم نے اسے اپنی رحمت میں داخل فرمایا‘‘۔یہاں حضرت سیدنالوط علیہ السلام پرکئے گئے چوتھے احسان کاذکرفرمایاگیاکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی خاص رحمت میں داخل فرمایااوربیشک وہ اللہ تعالیٰ کے خاص مقرب بندوں میں سے تھے ‘‘۔
قرآن مجیدفرقان حمیدمیں ساتویں پارہ کی سورۃ الانعام میں ارشادباری تعالیٰ ہے ۔’’اورہم نے انہیں اسحاق اوریعقوب عطاکیے ان سب کوہم نے ہدایت دی اوران سے پہلے نوح کوہدایت دی اوراس کی اولادمیں سے داؤداورسلیمان اورایوب اوریوسف اورموسیٰ اورہارون کو(ہدایت عطافرمائی)اورایساہی ہم نیک لوگوں کوبدلہ دیتے ہیں،اورزکریااوریحییٰ اورعیسیٰ اورالیاس کو(ہدایت یافتہ بنایا)یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں۔اوراسماعیل،یسع،یونس اورلوط کو(ہدایت دی )اورہم نے سب کوتمام جہان والوں پرفضیلت عطافرمائی۔(الانعام86)
حضرت سیدنالوط علیہ السلام کاوصال 29جمادی الاخریٰ (جمادی الثانی)کوہوا۔آپ علیہ السلام کامزارجورڈان میں ہے۔