امانت کی ادائیگی قرآن وحدیث کی روشنی میں،حافظ کریم اللہ چشتی
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپردکروجواِن کے اہل ہیں‘ ‘۔(سورۃ النساء ۸۵)
اللہ رب العالمین کاکروڑوں ہاشکرعظیم ہے کہ آقائے دوجہاں سرورکون ومکاں حضرت محمدمصطفیﷺکوساری انسانیت کے لئے ہدایت اور رحمت والا نبی برحق بناکربھیجاہے ۔نبی کریمﷺکی سیرت طیبہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے ۔ہم سبھی جانتے ہیں حضرت عثمان ابن طلحہ جوکعبہ کے کلیدبردارتھے ۔ فتح مکہ کے دن آقاﷺنے عثمان بن طلحہ سے خانہ کعبہ کی چابیاں طلب فرمائیں ۔عثمان بن طلحہ نے یہ کہہ کرچابیاں حضورﷺکے حوالے کیں کہ میں یہ چابیاں آپﷺکوبطورِامانت دے رہاہوں ۔آقاﷺنے کعبۃ اللہ کادروازہ کھولااوراندرسے نکال کرتمام بتوں کونیست ونابودکردیا۔حضرت عمرؓ کے مطابق اللہ کے رسول ﷺجب کعبۃ اللہ سے باہرتشریف لائے توآپﷺنے سورۃ النساء کی یہی آیت کریمہ تلاوت فرمائی ۔آقاﷺنے جب چابیاں دوبارہ حضرت عثمان بن طلحہؓ کوواپس کرناچاہیں ۔توپھردوسرے صحابہ کرام علہیم الرضوان نے خواہش کی یہ خدمت ہمارے سپردکی جائے اورچابی ہم کوعنایت ہوں اورہم اپنی تحویل میں رکھیں ۔اللہ کے رسول ﷺنے ان کی یہ بات ردکرتے ہوئے فرمایایہ چابیاں مجھے امانت کے طورپردی گئیں ہیں ۔حسب سابق یہ چابیاں حضرت عثمان بن طلحہؓ کوعطاہوئیں ۔اورآج تک انہی کی اولادمیں یہ چابی ہے ۔عثمان بن طلحہؓ یہ امانتداری ملاحظہ کرکے ایمان لے آئے ۔مگرتفسیرخزائن العرفان میں حضرت صدرالافاضل نعیم الدین مرادآبادی قدس سرہ نے فرمایاکہ صحیح تریہی ہے کہ حضرت عثمان بن طلحہؓ ۸ھ میں یعنی فتح مکہ سے قریباًدوسال قبل اسلام لاچکے تھے۔واللہ اعلم اس آیت کریمہ کانزول اگرچہ خاص موقعہ پرہوامگرحکم عام ہے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے ۔’’بے شک ہم نے امانت آسمانوں اورزمین اورپہاڑوں پر پیش کی توانہوں نے اس کے اٹھانے سے انکارکردیااوروہ اس سے ڈرگئے اور انسان نے اسے اٹھالیابے شک وہ اپنی جان کومشقت میں ڈالنے والابڑانادان ہے ‘‘۔(سورۃ الاحزاب۷۲)
دینِ اسلام ایک عالمگیرمذہب ہے۔ جس نے ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی فرمائی ہے اسلام ہمیں اخوت اوربھائی چارے کادرس دیتا ہے ۔حقوق اللہ اورحقوق العباداداکرنے کاحکم دیتاہے ۔اسلام ایک اچھا معاشرہ قائم کرناچاہتاہے اس لئے وہ معاشرے کواخلاقِ فاضلہ پر استوارکرتاہے اسلام اپنے پیروکاروں کوحکم دیتاہے کہ وہ رذائلِ اخلاق(بُرے اخلاق )سے پرہیزکریں اورفضائلِ اخلاق کواپنائیں۔اسلام جن اخلاقِ فاضلہ کی تلقین کرتاہے ان میں سے ایک ’’امانت ‘‘بھی ہے ۔امانت داری ایک ایساوصف ہے جسے مومن کی صفت بتایاگیااورجس میں یہ خوبی نہیں وہ منافق قراردیاگیاہے ۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشادفرمایا’’منافق کی نشانیاں تین ہیں ۔جب بات کرتاہے توجھوٹ بولتاہے ،جب وعدہ کرتاہے تووعدہ خلافی کرتاہے اورجب اس کے پاس امانت رکھی جائے توخیانت کرتاہے ۔(متفق علیہ)یعنی جب اسے رازداں بنایاجاتاہے توہ اس رازکودوسروں تک پہنچادیتاہے یاامانت واپس کرنے سے انکار کردیتاہے یاامانت کاتحفظ نہیں کرتایااسے اپنے استعمال میں لاتاہے ۔امانت کی حفاظت کرنامقربین،انبیاء علیہم السّلام اورنیک بندوں کاشیوہ رہاہے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے ۔ ’’تووہ جسے اس نے امین سمجھاتھااپنی امانت اداکرے‘‘۔(سورۃ البقرہ)امانت امن سے ماخوذاورایمان سے مشتق ہے ۔جواللہ کی امانت کی حفاظت کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کے ایمان کی حفاظت کرتاہے ۔اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل ہونے کی چندشرائط سورۃ المومنون اورسورۃ المعارج میں بیان فرمائی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے ۔’’اوروہ جواپنی امانتوں اوراپنے وعدے کی حفاظت کرتے ہیں ۔اوروہ جواپنی گواہیوں پرقائم رہتے ہیں اوروہ جواپنی نمازکی حفاظت کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جوجنتوں میں معززومکرم ہوں گے‘‘۔(سورۃ المعارج 32تا35)
حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل ،میانوالی0333.6828540