میرے ہیرو ڈاکٹر انوار محمد شیخ ………………….. تحریر ظفر خان نیازی
میرے ہیرو
ڈاکٹر انوار محمد شیخ ………………….. تحریر ظفر خان نیازی
میں نے اپنی پانچ کتابوں میں سے تین مختلف ڈاکٹرز کے نام معنون کی ہیں ۔ پہلی کتاب چوکور پہیئے ( منی کہانیاں اور افورازم ) ڈاکٹر نور محمد خان نیازی مرحوم خنکی خیل کے نام ہے جو 1927 کے ایم بی بی ایس تھے ، عمران خان کے پھوپھا تھے ۔ ان کے بارے میں کبھی تفصیل سے بات کروں گا ۔
کتاب خوابشار(شاعری) ممتاز سائنسدان اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام ہے ، وہ میرے پروگرام سوغات کے سامع رہے ہیں ، انہوں نے میرے پروگرام کی پسند کے بارے میں خط لکھا تو آن ائیر درخواست کی کہ ہم تو آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں ، ڈاکٹر عبدلقدیر خان یہ کہہ کر ریڈیو پاکستان اسلام آباد آگئے کہ ہمیں آپ کو دیکھنے کا شوق پہلے ہوا ۔۔ اس کی تفصیل بھی پھر کبھی بتاؤں گا ۔
تیسری کتاب (تصوف کی مختصر حکایات کو) پیوند ، ان الفاظ کے ساتھ معنون کی ۔۔۔ درویش ڈاکٹر انوار محمد شیخ کے نام جن سے مل کر انسانیت پر اعتماد بڑھتا ہے ۔۔۔ میرے یہ ہیرو ، میرے بزرگ دوست عظیم شخصیت ، ڈاکٹر انوار محمد شامی ، اس دس ستمبر کو 86 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ اس ہیو میو پیتھ مسیحا سے ملنے اور ان کے ہاتھوں لوگوں کو شفایاب ہوتے دیکھ کر میرا ایلوپیتھی سے ایمان اٹھ گیا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ کہ کینسر ، برین ٹیومر ، دل ، گردہ اور یرقان جیسے امراض جس کے علاج کو پورا کرنے میں متوسط طبقے کے گھرانوں کے زیورات تک بک جاتے ہیں ، شامی فری کلینک سے بالکل مفت ہوتا تھا ۔ ان کے مریضوں میں جنرل کرنل ڈاکٹر ، سفیر پروفیسرز اور عوام کی اکثریت شامل تھی ۔ ایک سعودی شیخ نے انہیں علاج کیلئے سعودی عرب تک بلا بھیجا تھا ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے کینسر کا علاج ڈاکٹر انوار صاحب نے کیا هے – بعض اوقات ان کے کلینک پر جو کہ آفندی کالونی راولپنڈی میں ہے ، اتنا رش دیکھنے کو ملتا تھا کہ ڈسپنسری کے دروازے پر کھڑے ہوکر موبائل فون کر نے پر ہی ملاقات ہو پاتی تھی ۔
ڈاکٹر صاحب واہ آرڈینس فیکٹری سے 1989 میں ریٹائر ہوئے تھے ، بیگم انتقال کرچکی تھیں ، پنشن پر اچها گزارا تها – جوانی میں ہومیو پیتهی کی تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر غنی عظیم راجہ کی شاگردی کر چکے تهے ، سو ریٹائر منٹ کا فارغ وقت مفید طریقے سے گزارنے کیلئے انہوں نے بیمار انسانیت کی خدمت کی فی سبیل اللہ ٹھانی اور 26 برس تک صبح شام کم از کم تین سو مریضوں کو بلا ناغہ بغیر کسی فیس کے دیکھتے رہے ، دوائی بھی ساتھ میں فی سبیل اللە دیتے تھے – روزانہ اپنے کلینک کے علاوہ ہر پندرہ دن پر وہ کهاریاں کیمپ لگاتے اور دن میں سات آتهه سو مریضوں کو دیکهتے – وہاں کا انتظام اور ادویات کا خرچ مشہور دال والے میاں جی ہوٹل والے کا ہوتا تها – یہاں ان کے کلینک پر ان کے پاس دنیا بھر سے مریض آتے تھے ۔ میں نے ایک بار ان کا انٹرویو پروگرام سوغات میں نشر کیا تو جرمنی سے ایک پاکستانی سامع نے اپنے خط میں اللہ رسول کا واسطہ دیتے ہوئے لکھا کہ اس کا بچہ جو کسی جلدی مرض کا شکار تھا اور ساری رات سوزش سے سو نہیں سکتا تھا ، اس کے لئے ڈاکٹر صاحب کی دوا ارسال کی جائے ۔ میری اس وقت ڈاکٹر صاحب سے اتنی بے تکلفی نہیں تهی – میں نے چپکے سے وہ خط ڈاکٹر صاحب کو پیش کر دیا ۔ مجهے یہ ڈر تها کہ سفید پاوڈر میں لپٹی دوائی کی گولیاں جرمنی کیسے بهیجوں گا – لیکن واسطہ ایسا کہ خط نظر انداز کرنا مشکل تھا – بچے کی تکلیف کی ساری علامات اس خط میں درج تھیں ۔ ایک دو ہفتے بعد میں انہیں ملنے گیا تو معلوم هوا ، انہوں نے دوا تیار کر کے جرمنی بھجوا بهی دی ھے ۔ کچه صن بعد مجهے جواب مجھے اس سامع کا خط آیا کہ وہ بچہ ادویات استعمال کرنے پر پہلی بار آرام سے سویا ہے ۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ ڈاکٹروں کے مشورے پر دیگر علاج ککے علاوہ ، آب و ہوا کی تبدیلی کیلئے وہ کئی جزیروں تک جا چکا ھے ، مگر بے سود – اگلی بار میں نے دوا ارسال کرائی اور ڈاکٹر صاحب کا ایڈریس بھی تو اگلی بار اس سامع کی بیگم جرمنی سے سیدهے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرنے اور مزید دوا کیلئے جرمنی سے پاکستان پہنچ گئی – میرے ساتھ ملاقات یا رابطہ کی زحمت ھی نہیں کی – مجھے اس بات کی خوشی ھے کہ ایک بچہ صحتیاب ھوگیا –
ڈاکٹر صاحب کے ایسے واقعات بہت ہیں ، طوالت کے خوف سے صرف دو واقعات پر اکتفا کروں گا ۔ گوجرانوالہ کے ایک بچے کے سر پر ڈیڈ بلٹ اس طرح لگی کہ آدھ انچ سیسے کا ٹکڑا اس کے مغز کے بیچ ٹھہر گیا ۔ یہ واقعہ جب ھوا اس وقت بچے کی عمر پانچ سال تهی – ڈاکٹروں نے دماغ سے گولی نکالنے کو ناممکن قرار دیا – اس کا زخم ٹھیک ھوگیا تو وہ بچہ نارمل زندگی گزارنے لگا لیکن جب وہ دس سال کا ہوا تو اس کی بینائی متاثر ہونے لگی ۔ چیک اپ کرایا تو معلوم ھوا سر کے اندر وہ ڈیڈ بلٹ بینائی کو متاثر کر رھی ھے – ڈاکٹر اس کی کهوپڑی کاٹ کر بلٹ نکالنے پر تیار تس تھے لیکن ان کے مطابق وہ بہت مشکل اور خطرناک آپریشن تھا – !اس اثناء میں بچے کے والدین کو کہیں سے انوار محمد شیخ کی خبر مل چکی تھی ۔ وہ ڈاکٹر صاحب کے پاس حاضر ھو گئے – علاج کے بعد کے میں نے بچے کے مختلف چھ سات ایکسرے دیکھے ہیں ، پہلے ایکس رے میں گولی عمودا” دکهائی دیتی ہے ، اگلے مرحلے میں وہ تهوڑی سی ٹیڑهی اور اس کے بعد افقی سطح پر نظر آتی ہے – اس کے بعد کے ایکسرے فلموں میں وہ گولی ایک ایک انچ آگے سرکتی نظر آتی ہے – آخری ایکسرے میں گردن کے قریب دکهائی دیتی ہے – اس دوران میں بچے کی بینائی مکمل بحال ہو چکی تهی – اس آخری ایکسرے کے بعد وہ لوگ ڈاکٹر صاحب کے پاس نہیں آئے – وہ گولی سر کے نچلے حصے کی نرم ہڈی کے قریب آگئی تهی جہاں سے آپریشن انتہائی آسانی کیا جاسکتا تها – اندازہ یہی ہے انہوں نے آپریٹ کرا لیا ہوگا – ڈاکٹر صاحب کا کہنا تها کہ وہ گولی خود ہی اوپر جلد کے قریب آجاتی اور زیادہ آسانی رہتی –
ایک بار انگلینڈ سے میر پور کی ایک خاتون مریضہ آئی ، جس کے چہرے پر ہاتهه پهیرنے سے جلد سے مہندی کلر کا خشک باریک برادہ اتنی مقدار میں گرتا تها کہ مٹھی بهر جاتی تهی – ڈاکٹر صاحب کہتے تهے ، ایسا کیس میں نے نہ سنا ، نہ دیکها تها – مطالعے کیلئے ایک ہفتہ کی میعاد ذہن میں رکهه کر اندازے سے آرسنک ایلبم دے دی – ایک ہفتے کے بعد وہ خاتون آئی تو اس کا مرض آدها رہ گیا تها –
ڈاکٹر صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تهی کہ وہ ادویات کے مکمل نام دوائی کے لفافے پر لکه کر دیتے تهے – موڈ میں ہوتے تو ان دواوں کے نام اور علامات بتانے لگ جاتے – ان کے کئی مریضوں نے بعد میں اپنے کلینک کهول لئے تهے – خود مجهے ڈاکٹر صاحب نے آدهی پگڑی والا شاگرد قرار دے ریا تها – ورنہ دیکها یہی ہے کہ ہومیو پیتهه ڈاکٹر سگا بهائی بهی ہو تو نسخہ نہیں بتاتا –
ڈاکٹر صاحب سے ایک بات میں نے سیکهی ہے ، وہ کسی بهی مریض کی بات سن کر کہتے ، اللہ بہتر کرے گا –
میں نے یہی نسخہ اپنے روزمرہ کے معمولات میں آزمایا ، کسی کو کسی فرمائش پر فوری نہ کہنے کی بجائے یہی فقرا کہتا ہوں ، اللە بہتر کرے گا – اور حیران کن حد تک اکثر مشکل سے مشکل کام بہت آسانی سے حل ہوتے دیکھا ہے –
ڈاکٹر صاحب کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی طب میں بہت سے اپنے بہت ہی اعلے جان نشین پیدا کر لئے تهے ، ان کا صآحبزادہ ڈاکٹر زاہد شامی ، صاحبزادی ڈاکٹر شاذیہ ، بہو ڈاکٹر عطیہ ، ڈاکٹر عاصمہ ، مریم ، مس راجپوت اور خدا جانے کتنے شاگرد کام کر رہے ہیں – امید تو یہی ہے کہ وہ اس شمع کو روشن رکهیں گے لیکن جو خوبصورت چہرا اور میربان شخصیت ہم سے جدا ہو گئی ہے ، وہ خلا کوئی پورا نہیں کر سکے گا –
اللہ آپ پر راضی ہو — آپ نے جس محبت اور محنت سے لاکهوں مریضوں کی خدمت بغیر کسی مالی معاوضے کے کی اور مایوس لوگوں کو امید بهری زندگی کی راہ دکهائی ، وہ آپ ہی کا خاصہ اور اللہ پاک کا خصوصی کرم تها – وہ مذاق میں کہتے تھے ، میں نے اللە کی مخلوق کی خدمت کا معاوضہ اللە سے لینا هے اور میں نے ایک بار کہا تها آپ واقعی پکے شیخ هیں ، آپ نے صحیح سودا کیا هے ، ورنہ آپ کی خدمت کا معاوضہ کون دے سکتا ھے – اور میں نے اپنی کتاب پیوند ان کے نام معنون کی تو میں نے پوری سچائی کے ساتھ انتساب میں لکھا –
درویش ڈاکٹر انوار احمد شیخ کے نام ، جن سے مل کر انسانیت پر اعتماد بڑھتا ھے –
اس پک اور پوسٹ کو ان کے ایک پرستار اور میرے ریڈیو کے سینئر ساتھی ، انجنیئر قدرت اللہ نے بہت پسند کیا ھے – قدرت اللہ صاحب بھی ڈاکٹر صاحب کی مسیحائی سے فیضیاب ھونے والوں سے ایک هیں –
محترم قدرت اللہ صاحب ! یہ تو آپ جانتے ہیں ، ڈاکٹر انوار محمد شیخ صاحب انتہائی نفیس مزاج کے وجہیہ اور جاذب نظر انسان تهے – ان کی پسند کا موضوع گفتگو ہوتا یا کسی کا نسخہ بہت پیار سے لکهتے تو ایک میٹهی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر کهیلتی رہتی – یہ پک میں نے ایک ایسے ہی لمحے میں لی تهی – ان کی شخصیت کے کس کس پہلو کو یاد کیا جائے – بہت جامع شصیت تهی – اللہ تعالے ان کے درجات بلند فرمائے –