ملک آڈھا خان ………………………… پروفیسر منور علی ملک
میرا میانوالی ———————— ملک آڈھا خان
اظہر نیازی سے آپ لوگوں کی والہانہ محبت دیکھ کر دل خوش ھو گیا- میرے اس شاعر بھائی کو رب کریم نے بے شمار خوبیوں سے نوازا ھے- اللہ انہیں سلامت رکھے- کل کی پوسٹ پر کمنٹ میں اظہر نیازی کے ایک عزیز نے بتایا کہ آج کل اظہر نیازی نعتیں لکھتے ھیں – ماشاءاللہ بہت بڑی سعادت ھے- اللہ قبول فرمائے-
بہت سے دوستوں کے اصرار پر آج ھمارا موضوع سخن ھیں معروف و محبوب شاعر آڈھا خان-
ملک آڈھاخان نطقال، قائدآباد کے معززاعوان قبیلے نطقال کے چشم و چراغ تھے- سکول ٹیچر ریٹائر ھوئے- اچھے خاصے زمیندار بھی تھے- بہت اچھے شاعر ، نیک انسان اور مخلص دوست تھے- لالا سے آڈھاخان کا تعارف 1977-78 میں ھؤا – بہت جلد یہ تعارف مستقل دوستی کی شکل اختیار کر گیا-
آڈھا خان لوک شاعری کی قدیم اور مقبول ترین صنف ڈوھڑا کے با کمال شاعر تھے- سسی پیار دی تسی کی داستان درد آڈھا خان کی پہچان بن گئی- لیکن آڈھا خان کا کمال فن صرف سسی تک محدود نہ تھا- انہوں نے توصیف جمال یار ، ھجروفراق، انتظار، حسرت، شکوہ، موت اور تصوف تک سب موضوعات پر لاجواب ڈوھڑے لکھے- حمدونعت میں بھی انکا ایک اپنا انداز تھا-
آڈھا خان میرے نہت مہربان دوست تھے- ایک دن صبح سویرے وتہ خیل کیسٹ ھاؤس کے لیاقت خان کے ھمراہ میرے ھاں تشریف لائے- کہنے لگے “لیاقت خان کے پاس کسی کام کے لیے آیا تھا ، دل چاھا کہ آپ سے مل لوں- “
شاعری اور دوستوں کے حوالے سے باتیں ھوتی رھیں- پھر میری ڈائری پر اپنے قلم سے اپنا ایک تازہ ڈوھڑا لکھ کر مجھے عنایت کیا- ڈائری تو اس وقت میری دسترس میں نہیں ھے ، ڈوھڑے کا آخری مصرع یاد آرھا ھے –
اساں آڈھا دردر پھرنڑاں ای کوئی نئیں، مڑ ہتھ کشکول تے کولی کیہی
اپنے مہربان دوست پروفیسر عطاءاللہ کھوکھر کے والد کی تعزیت کے لیے میں قائدآباد گیا، توانہوں نے کہا ملک آڈھا خان آپ کو بہت یا د کرتے ھیں- میں نے کہا فون پر ان سے بات کروا دیں – فون پر رابطہ ھوتے ھی آڈھا خان خود تشریف لے آئے- بہت اچھی محفل رھی- مگر یہ ھماری آخری محفل تھی- اس کے کچھ عرصہ بعد آڈھا خان ھمیشہ کے لیے ھماری نگاھوں سے اوجھل ھوگئے- رھے نام اللہ کا– —- منورعلی ملک ——–