محمد علی باکسر اور ان کی غیر مسلم بیٹی. تحریر . حسنین جمال
محمد علی باکسر اور ان کی غیر مسلم بیٹی. تحریر . حسنین جمال
“عورتیں اس لیے نہیں بنیں کہ وہ چہرے اور یہاں (سینے پر) مکے کھائیں، باکسنگ مردوں کا کھیل ہے!”
محمد علی کلے گذشتہ روز چوہتر برس کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ دنیا بھر کے لوگوں نے ان کی وفات پر تعزیتی پیغامات بھیجے۔ پاکستان میں بھی ان کی وفات کا سوگ سوشل میڈیا پر منایا گیا۔ وہ دنیا کی تاریخ میں ایک عظیم اور ناقابل شکست باکسر کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ 1964 میں انہوں نے غالبا نسل پرستی کی بغاوت کے طور پر اسلام قبول کیا اور عمر کے آخری دور میں وہ صوفیانہ تعلیمات کی طرف مائل ہو چکے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے تین چار برس بعد امریکی حکومت نے انہیں ویت نام کے خلاف جنگ میں فوجی خدمات سرانجام دینے کی دعوت دی جسے انہوں نے اخلاقی وجوہات کی بنا پر یکسر رد کر دیا۔ وہ ویت نامیوں کی بجائے سفید لوگوں کو اپنا دشمن کہتے تھے۔
“میرا ضمیر مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں اپنے کسی بھائی کو ماروں، یا کسی گہری رنگت والے کو ماروں، یا کسی غریب بھوکے کو ماروں، اور اس لیے ماروں کہ عظیم امریکہ مزید سربلند ہو جائے؟ اور انہیں کیوں ماروں؟ انہوں نے کبھی مجھے کالا نہیں کہا، انہوں نے کبھی مجھے تکلیف نہیں دی، انہوں نے کبھی میرے پیچھے کوئی کتے نہیں چھوڑے، مجھے میری قومیت سے محروم نہیں کیا، میری ماں کے ساتھ زیادتی نہیں کی یا میرے ماں باپ کو قتل نہیں کیا، میں ان غریبوں کو کیسے مار سکتا ہوں؟ مجھے جیل )لے جاؤ بھئی!” (نہ جانے کیوں یہاں فیض صاحب یاد آ گئے)
انہیں گرفتار کیا گیا، ان کے باکسنگ اعزازات ان سے چھینے گئے اور ان پر فوج کی مخالفت کا باضابطہ مقدمہ دائر کیا گیا۔ دس ہزار ڈالر کا جرمانہ ہوا اور چار برس، اپنے عروج کے چار برس وہ کھیل کے میدان سے دور رہے اور آخرکار سن اکہتر میں امریکی سپریم کورٹ نے انہیں اس مقدمے سے باعزت بری قرار دیا۔ بری ہونے کے بعد وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ نوجوانوں کے ہیرو تھے۔ نوجوان ان پر فخر کرتے تھے اور ان کی ایک جھلک کے دیوانے تھے۔ بجائے کوئی مینیجر وغیرہ رکھنے کے، محمد علی اپنی پریس کانفرنسوں اور مختلف پروگراموں میں خود بات کرتے تھے اور متنازعہ معاملات پر ہمیشہ کھل کر رائے دیتے تھے جن میں امریکی نسل پرستی بھی شامل تھی۔ 1960 کے اولمپکس میں انہیں گولڈ میڈل ملا جو بعد میں انہوں نے دریا میں پھینک دیا، اس کی وجہ وہی معاشرتی ناانصافی تھی۔ اپنی سوانح میں علی لکھتے ہیں کہ وہ اور ان کے دوست ایک “سفید فام ریستوران” گئے جہاں بیروں نے انہیں کھانا دینے سے انکار کر دیا، انہیں شدید توہین محسوس ہوئی اور اس بات پر وہاں گوروں سے ان کا جھگڑا بھی ہو گیا۔ مار کٹائی کے بعد وہاں سے نکلتے ہی انہوں نے اوہائیو دریا کا رخ کیا اور اپنا گولڈ میڈل اس میں اچھال دیا۔
محمد علی 2002 میں اقوام متحدہ کی طرف سے امن کے سفیر کے طور پر افغانستان بھی گئے، اور دیگر میدانوں میں بھی امن اور نسل پرستی کے خاتمے کے لیے کام کیا۔
سب سے اوپر لکھا گیا جملہ محمد علی نے تب کہا تھا جب ان کے عروج کا دور تھا اور لیلی علی ایک برس کی تھیں۔ علی کی چار بیگمات میں سے لیلی تیسری بیگم کی اولاد ہیں اور وہ 1999 میں دنیا کے سامنے ایک خاتون باکسر کے طور پر سامنے آئیں۔ لیلی نے اب تک جتنے بھی میچ کھیلے سب جیتے ہیں، نہ کوئی ہار ہوئی نہ کوئی میچ برابر ہوا۔
ذاتی زندگی میں پہلی بیوی سے علی کی علیحدگی ان کے لباس پر اعتراض کی وجہ سے ہوئی، وہ انہیں مذہب کے دائرے میں رکھنا چاہتے تھے۔ دوسری بیوی کو شادی کے بعد انہوں نے مسلمان کر لیا۔ بعد کی دو بیگمات کے مذاہب تبدیل نہیں کیے گئے اور بچوں پر بھی کوئی زور نہیں تھا۔
لیلی علی کی فتوحات جب شروع ہوئیں تو دوبارہ سے مسلم دنیا میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ محمد علی ثانی لیلی کے روپ میں ہمارا سر فخر سے بلند کر رہی ہیں۔ لیکن لیلی آہستہ آہستہ اشتہاروں میں نظر آنے لگیں، ورزش کی ویڈیوز میں بھی دکھائی دیں، گلیمر سے بھرپور ایک نوجوان لڑکی جب پوری چمک دمک کے ساتھ میڈیا ??????????پر چھا گئی تو لوگ معترض ہوئے کہ بھئی آپ تو مسلمان ہیں، ایسے کپڑے کیوں پہنتی ہیں؟ برادرز ان اسلام نے سوشل میڈیا پر ان کی ہر تصویر کے نیچے ان کا ناطقہ بند کرنا شروع کر دیا، نصیحتوں کے انبار ان کی ایک ایک پوسٹ کے نیچے جمع ہونے شروع گئے، آخر کار ایک دن فیس بک پر لیلی علی کا بیان سامنے آ گیا؛
“میرے تمام مسلمان فیس بکی دوستوں کے لیے: گذشتہ کئی برسوں سے مجھے کافی مشورے ملے کہ مجھے بطور ایک مسلمان خاتون کیسے کپڑے پہننے چاہئیں۔ آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ میں مسلمان نہیں ہوں۔ میرے خیال میں لوگ اس لیے ایسا سوچتے ہیں کیوں کہ میرے باپ مسلمان ہیں، مگر ایسا نہیں ہے۔ اگر میں مسلمان ہوتی تو میں اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہی ڈھالتی۔ آپ سب اپنی آرا قائم کرنے میں آزاد ہیں، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ آپ کو حقیقت جاننی چاہئیے اس سے پہلے کہ آپ میرے بارے میں کوئی رائے قائم کریں۔ اپنا خیال رکھیے۔ سلامت رہیں!”
محمد علی آج ہم میں موجود نہیں لیکن اولاد کے لیے ان کی آزادانہ پالیسی ایک روشن راستہ ہے۔ وہ خواتین کی باکسنگ کے خلاف تھے، ان کی بیٹی باکسر بنی، انہوں نے ذاتی زندگی کے لیے اسلام پسند کیا مگر بیٹی کی زندگی پر اپنی رائے مسلط نہیں کی، وہی بیٹی آخری دم تک باپ کی خدمت بھی کرتی رہی اور مختلف سماجی تقریبات میں بھی ان کے ساتھ نظر آتی تھی۔
محمد علی نے ایک بھرپور زندگی گذاری، 1984 میں پارکنسن بیماری کا معلوم ہونے کے بعد بھی پچیس تیس برس وہ متحرک رہے اور سماجی بہبود کے کاموں میں حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے امریکی معاشرے میں اپنی جگہ بنائی اور خود کو منوایا۔ ان کے انتقال پر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں؛
“محمد علی چوہتر برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ حقیقت میں ایک عظیم فاتح اور ایک شان دار انسان، ان کی یاد ہم سب کے دلوں میں رہے گی۔”