میجر سلطان اکبر خان کی باتیں……….. ایک ملنگ کا جنازہ
ایک ملنگ کا جنازہ
میجر سلطان اکبر خان کی باتیں…………. تحریر ظفر خان نیازی
سن 2002 تک پرویز مشرف کے گرد سول بیوروکریسی مکمل گھیرا ڈال چکی تھی اور اپنے مفاد میں کئی الٹے سیدھے قوانین ضابطے اور قوانین منظور کرا کے اپنی من مانی کرنے کی پوزیشن میں آچکی تھی – انہی دنوں سروس پروموشن کی لئے ایک ضابطہ متعارف کرایا گیا جسے بیسٹ آف بیسٹ کا نام دیا گیا – اس فارمولے کے تحت ان سینئرز کو جو ہر طرح سے ترقی کے مستحق تھے بائی پاس کر کے ، اہنے منظور نظر جونیئرز کو پروموٹ کرنے کی راہ نکالی گئی – سید انور محمود ان دنوں سیکریٹری اطلاعات و نشریات تھے ، ان کی بیگم نیر محمود ریڈیو میں ہماری کولیگ لیکن عبیدہ اعظم اور مجھ سے جونیر تھیں اس فارمولے کے تحت ہم دونوں کو بائی پاس کر کے کنٹرولر بنا دی گئیں – میرے ساتھ دوہرا ہاتھ یہ ہوا کہ مجھے ساتھ ہی ڈی آئی خان کی طرف دھکا دے دیا گیا تاکہ اسلام آباد میں رہ کر کوئی لیگل کاروائی نہ کر سکوں – یہ بات میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس سارے کھیل میں مجھے دکھ اس بات کا تھا کہ میرا بیٹا علی صورت سپیشل چائلڈ تھا جسے اچانک دورے پڑتے تھے – پرائے شہر کے اس گھر میں بڑی بیٹی تیرہ سال کی اور حسن دس سال کا تھا – بہر حال قہر درویش برجان درویش ، اللہ کا نام لے کر بیگم کو روتا چھوڑ کر ڈی آئی خان جائن کرنے چل پڑا – رستے میں میانوالی قیام کیا اور کچہری بازار سے گزرا تو میجر سلطان اکبر خان صاحب نظر آئے جو اسلم فوم کے سامنے سڑک ہر ہی کرسی پر بیٹھے تھے – حال احوال سن کر بے ساختہ بولے ، گھبراو مت – وہ خود ہی تمہیں بلا لیں گے –
میں دونوں طرف سے فل ٹی ڈے لے کر صرف 28 دن بعد واپس اسلام آباد راولپنڈی پہنچ چکا تھا –
میانوالی کے اسلم فوم والے ، ملک نیک محمد ، خورشید انور خان اور پروفیسر سلیم احسن کے پاس میجر سلطان اکبر صاحب کی ایسی بے شمار باتیں ، بے شمار قصے ہیں – ہم ان کی ولایت اور درویشی کے دل سے قائل تھے اور ان کی قربت کے جتنے لمحات میسر ہوتے اسے نعمت سمجھتے- مجھے ان کی قربت نسبتا” دیر سے نصیب ہوئی – وہ پہلی ملاقات مجھے آج بھی یاد ہے – سن تو ٹھیک سے یاد نہیں ہے لیکن نوے کی دہائی میں کہیں میجر سلطان اکبر خان صاحب کے مجھے پہلی بار نیاز حاصل ہوئے – میں پروفیسر سلیم احسن کے ہمراہ مین بازار میانوالی میں حافظ سویٹ سے نکلا تو میجر صاحب مغرب کی سمت سے آ رہے تھے – سلیم احسن نے آگے بڑھ کر سلام کیا ، اتنے میں ان کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ دونوں بازو لہرا کر اپنے مخصوص انداز میں بولے ، او ما دی دعا الا ای اوئے ، اوہ ما دی ای اس نوں —
میجر صاحب پر جذب کی ایسی کیفیت اکثر طاری رہتی تھی – وہ اکثر اپنے مخصوص انداز میں اس طرح پکار اٹھتے تھے – ویسے تو سبھی کو ماوں کی دعائیں ہیں لیکن میرے ساتھ ایک خاص واقعہ ہے جو بہت ذاتی سا ہے اور موقع ملا تو شاید آپ سے شیئر بھی کر لوں – اس وقت مجھے حیرت اس پر ہوئی کہ میری ذاتی سی بات میجر صاحب کو کیسے معلوم ہوگئی – بعد میں اندازہ ہو گیا کہ مولانا روم کی اصطلاح کے مطابق میجر صاحب روشن ضمیر درویش ہیں –
میجر صاحب جب گھر سے نکلتے تو کچہری بازار میں اسلم فوم پر بیٹھک لگاتے یا پھر ملک اور نیازی ٹیکس لاء فرم کے دفتر میں تشریف لاتے جو کچہری بازار میں حاجی شفیع بیڑے والا کی دکان کی بالائی منزل ہے – آمد پر سب سے پہلے وہ ایک ماہیا سناتے- یہ ماہیا حضور اکرم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں ہوتا – پھر سب سے حال احوال کرتے اور موڈ میں آتے تو درویشوں ولیوں کے واقعات خاص طور پر جن سے ان کی ملاقات رہی تھی سنانے لگتے تھے – ان کی بات بات سے نبی کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت چھلکتی –
میجر صاحب اگرچہ شاعر نہیں تھے لیکن نبیءکریم کی محبت میں سرشار ہو کر نعتیہ ماہیئے کہا کرتے تھے – اور ان سے جب بھی ماہیئے کی فرمائش کی جاتی ، فورا” ماہیا تخلیق کر کے سنا دیتے اور نبی کریم کی شان بیان کرکے بہت خوشی محسوس کرتے –
اللہ والوں کی سب سے بڑی بشانی یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی قربت میں اللہ کی یاد آئے – میجر صاحب کی قربت میں ایک نرالی بات دیکھی – ان کی قربت میں شدت سے نبیءکریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کریمی یاد آتی –
– میں نے انہیں یہ کبھی یہ نہیں بتایا تھا کہ میں شاعر ہوں – ایک دن مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے ، قیامت کو سارے لوگ مختلف جماعتوں میں نکلیں گے – میں اور تم انشا اللہ نعت خوانوں کے جھنڈے تلے نکلیں گے – اللہ اکبر !
بس اسی اک بات پر رکھتا ہوں بخشش کی امید
میں نے تیرے نام کو مولا کبھی بیچا نہیں
وہ اکثر دعائیں دیتے نظر آتے اور ان کا یہ دعائیہ فقرا تو بہت دلچسپ اور معنی خیز تھا – وہ دعا دیتے تو کہتے ، اللہ تیری جائز ، ناجائز ہر مراد پوری کرے – ویسے تو ان کی زبانی بے شمار واقعات اور بزرگوں کی باتیں سنی ہیں لیکن ایک ملنگ کا قصہ مجھے سب سے زیادہ یاد رہ گیا – یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت انوکھا تھا – وہ یہ واقعہ دو تین بار سنا چکے تھے لیکن اس واقعے کی جزئیات یاد کرنے کیلئے سلیم احسن کو فون کیا تو معلوم ہوا اسلم فوم والے اور حافظ سویٹ والے عبدالحلیم اس واقعے کے عینی شاہد بھی ہیں – میجر صاحب کی یہ پک بھی اسلم فوم والے کی عنایت ہے چند مزید تصویریں آپ کمنٹس میں دیکھ سکیں گے – ملنگ کے جنازہ تو ایک واقعہ ہے ، وہ میجر صاحب کے بے شمار روحانی تصرفات کے عینی شاہد ہیں –
ملنگ کا قصہ سن 1987 کی بات ہے – ان دنوں سے ذرا پہلے تک گورنمنٹ گرلز کالج کے گیٹ سے ذرا آگے مشرق کی طرف ایک ملنگ سردی گرمی ، ہر موسم میں کمبل اوڑھے کالج کی دیوار کے ساتھ بیٹھا رہتا تھا – وہ ملنگ کسی سے بات نہیں کرتا تھا البتہ صبح جب میجر صاحب واک کیلئے نکلتے تو وہ ملنگ ان سے چند باتیں کر لیتا- وہ اس دیوار کے پاس بہت عرصہ تک ٹکا رہا اور 1987 میں وہ ریلوے اسٹیشن کے مسافر خانے والے احاطے میں آگیا تھا جو میانوالی میں ملنگوں ، مجذوبوں اور بے خانماں نیم پاگلوں کا ہمیشہ سے پسندیدہ مقام بلکہ صدر مقام رہا ہے –
میجر صاحب بتاتے ہیں ، ایک دن میں اپنے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہی ملنگ ( زندگی میں پہلی بار ) میرے گھر آیا تھا اور یہ پیغام دے کر گیا ہے کہ میجر صاحب کو کہنا ، میری خبر رکھنا – میجر صاحب کہتے ہیں میں نے یہ پیغام سنا تو ملنگ کے پیچھے ریلوے اسٹیشن جا پہنچا – وہاں جا کر معلوم ہوا وہ ملنگ تو کچھ دیر پہلے ریلوے پلیٹ فارم کے ایک بنچ پر لیٹ کر انتقال کر چکا ہے اور سٹی پولیس والے قانونی تقاضے پورا کرنے اس کی میت اٹھا کر ڈسٹرکٹ ہسپتال جا چکے ہیں – میں ہسپتال پہنچا تو مجھے دیکھ کر پولیس کا ایک سپاہی بھاگ کر میرے پاس آیا اور کہا میجر صاحب ، ہماری مدد کیجئے ، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہم اس کا کیا کریں – میجر صاحب نے کہا ، آپ تسلی رکھیں ، میں اسی کام کیلئے آیا ہوں –
میجر صاحب وہاں سے گھر واپس آئے – ان کا گھر سٹی سٹریٹ کو کراس کرتی اس گلی میں ہے جو حمیداللہ خان روکھڑی کے گھر کے سامنے سے کچہری بازار میں جا نکلتی ہے – یہاں آکر انہیں خیال آیا کہ گلی بنک میں بیکری والے خوشی محمد سے بات کی جائے تاکہ کفن دفن کا بندوبست کیا جاسکے – اچانک بازار کے موڑ سے انہیں چاچا دوسہ سوانسی آتا دکھائی دیا – چاچا دوسہ کا کردار ایک الگ دلچسپ مضمون ہے جس پر شاید کبھی روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا – میجر صاحب نے چاچا دوسہ سے پوچھا ، کہاں جا رہے ہو – وہ بولا ، میرا دل کر رہا تھا کہ آپ کی پاس حاضری دوں – میجر صاحب نے اسے ملنگ کے مرنے اور خبر رکھنے کی بات سنائی – یہ سن کر وہ کہنے لگا ، میں قبر تیار کراتا ہوں ، آپ باقی معاملات دیکھیں –
یوں اسی رات نو بجے ملنگ کا جنازہ پورے اہتمام کے ساتھ اسی مسافر خانے کے احاطے میں کنٹین کے پاس پڑھا گیا – حافظ عبدالحلیم بتاتے ہیں کہ اس جنازے میں بیس پچیس آدمی شریک تھے جو خود بخود وہاں پہنچ گئے تھے – ملنگ کو میانوالی کے قدیم قبرستان میں جو وانڈھی گھنڈ والی میں ہے اور جس میں حضرت سلطان زکری کے والد میاں علی آسودہءخاک ہیں ، دفن کر دیا گیا – میانوالی شہر کو اپنا نام میاں علی کے نام نامی سے ہی ملا ہے – اپنے مرنے سے پہلے اپنی موت کی خبر دینا میرے نزدیک بہت غیر معمولی بات ہے –
میجر سلطان اکبر خان نیازی غنڈی کے رہنے والے تھے – چند مہینے قبل 102 سال کی عمر میں وفات پائی – سکول سرٹیفیکیٹ میں عمر تین سال کم درج تھی – اللہ پاک نے ان کو زندگی میں بے شمار کامیابیاں نصیب فرمائیں – شہید میجر جنرل جاوید سلطان ان کے بڑے صاحبزادے تھے – ان کے باقی دونوں بیٹے بھی فوج میں بریگیڈیئر کے عہدے تک پہنچے ہیں- عمر بھر شریعت کے پابند رہے اور درویشی کے ساتھ ساتھ نرم دلی اور خوش مزاجی کی وجہ سے مقبول ترین شخصیت تھے – کبھی کبھی کھل کر تصوف کی باتیں کرتے تھے – ان کے انتقال کے بعد ان کی دعائیں تو ہمارے ساتھ ہیں لیکن ان کے نعتیہ ماہیے اور درویشوں کی باتوں سے ہم محروم ہو گئے ہیں –
اللہ پاک ان کی قبر مبارک کو اپنے نور سے بھر دے –