میانوالی

یو نیورسٹی آف سرگودھا میانوالی کیمپس میں منعقدہ میگا ایونٹvigorous spark .رپورٹ /عروہ نیازی۔

یو نیورسٹی آف سرگودھا میانوالی کیمپس میں منعقدہ میگا ایونٹvigorous spark
عروہ نیازی۔سی ایس اینڈ آ ئی ٹی ڈیپارٹمنٹ …….
یو نیورسٹی آ ف سرگو دھا سب کیمپس میانوالی میںvigorous spark کے نام سے سی ایس اینڈ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ایک میگا ایونٹ کا انعقاد کیا گیا۔جس میں طلبہ و طا لبات کے درمیان مختلف مقا بلا جات کر وائے گئے۔یہ اپنی نو عیت کا ایک منفرد ایونٹ تھا کیونکہ اس سے پہلے یو نیورسٹی کی سطح پہ اتنے بڑے مقا بلہ جات کبھی نہیں ہو پائے۔یہ مقابلہ جات ۹ مئی سے شروع ہو ئے اور ان کا اختتام ۱۳مئی کو ہوا ۔اس میگا ایونٹ میں طلبا و طا لبات نے پو رے جوش و خروش سے حصہ لیا،اس ایونٹ میں ہو نے والے مقابلا جات میں
E _gaming
Vedio_making
Idea_presentation
Quiz
اردو ا،نگلش اور پنجا بی تقریریں۔
Photography
Room_management
Sketching
Singing
Poster_Desighning
Painting
Chees
اور بیت بازی شامل ہیں۔
۹ مئی کواس ایونٹ کی افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔جس میں یو نیورسٹی کے ڈائریکٹر سمیت ہر ڈیپارٹمنٹ کے اساتذہ کی نما ئندگی کی گئی ۔
۱۰ مئی کوہو نے والے مقابلا جات میںE_Gaming,Vedio Making,Idea Presentation and Quiz شامل تھے۔آئیڈیا پریزنٹیشن میں طلبہ و طالبات کی بھر پور شرکت اس بات کا پتہ دے رہی تھی کہ میانوالی میں تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آ گئی ہے۔ہر ایک کا بزنس ائیڈیا کمال تھا،کو ئی میانوالی میں میڈیکل کالج بنا نے کا خواہاں تھا تو کو ئی ہا ئیڈر ل پا ور پلانٹ لگا نے کا خواہاں تھا،پا ور پلانٹ کا مقصد تو میانوالی کو بجلی بہم پہنچا نا نظر آ تا تھا لیکن اگر یہ بن بھی جا تا تومیانوالی کو ایسے ہی بجلی نہیں ملنی تھی جیسے چشمہ پا ور پانٹ سے نہیں مل پائی ہاں کینسر کی بیماری میانوالی کی عوام میں اور شہروں کی نسبت زیا دہ پا ئی جا تی ہے.میانوالی شہر کے لوگ بجلی مانگنے سڑکوں پر آ ئے تووہ ہنگا مہ آ رائی ہو ئی کہ بہت سے اپنی جا نوں سے ہا تھ دھو بیٹھے،،میانوالی کے لوگوں کے با رے کہا جا تا ہے کہ یہ بہت غیور لوگ ہیں لیکن کسی بھی شہر یا علاقے کی غیور عوام کو ایک سمت دینے کیلئے اچھے لیڈر کی ضرورت ہو تی ہے،لیکن ہما ری قسمت کہ پاکستان کو عمران خان جیسا لیڈر دینے کے با وجودمیانوالی کو آ ج تک کسی بھی اچھے مو قع پر اچھا لیڈر نہیں مل سکا جو ان کے لئے کوئی ایسا فیصلہ کر سکے جو انتہائی اچھے نتائج دے سکے،یہی وجہ رہی ہے کہ بڑے نازک موا قعوں پرمیانوالی کی عوام خواب و خر گوش کے مزے لیتی رہتی ہے،اس کی زندہ مثال غازی علم دین شہیدکی پھا نسی ہے جوکسی اور شہر کی جیل میں نہیں ہو سکی تھی کیونکہ وہاں کی عوام مشتعل ہو جا تی تھی لیکن میانوالی کی جیل میں یہ کام ہو گیا،اور جب ہو گیا تب سب کو ہوش آ یا،دوسرا بڑا اقدام دہشت گر دوں کے لئے پاکستان کی سب سے بڑی بنا ئی جانے والی جیل کیلئے بھی میا نوالی کو ہی آ خر کا ر چنا گیا کہ کسی اور شہر کی عوام اس کی اجازت دینے کو تیا ر نہیں تھی،ہماری نا خواندگی کا عالم یہ ہے کہ اکثر لوگ اس کے برے اثرات سے بے خبربڑی خو شی سے بتا رہے ہو تے ہیں کہ ہما رے شہر میں پاکستان کی سب سے بڑی جیل بن رہی ہے،ایسے مواقع پر لیڈر کا کام ہو تا ہے کہ وہ عوام کو ایجو کیٹ کریں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہما رے شہر کے لیڈر ز کو یا تو اپنے مفادات کی فکر ہے یا پھر اپنے حصے میں آ نے والے صو بے کی،اس شہر کی آ نے والی نسلیں تباہ ہو تی ہیں تو ہو پڑیں،یہی وجہ ہے کہ بجلی کے حصول کے لئے چلا ئی گئی تحریک کو لیڈ کرنے والے شخص کو لیڈر کہنا میں لیڈر کی تو ہین سمجھتی ہوں یہی وجہ تھی کہ عوام کو سوائے خواری کے اور کچھ نہیں مل سکا کیونکہ وہاں لیڈر شپ تھی ہی نہیں،اس کو لیڈ کرنے والوں میں میانوالی کا کو ئی اچھا لیڈر ہو تا تو نتا ئج اس کے بر عکس ہو تے،تو بات ہو رہی تھی آ ئیڈیا پریزنٹیشن کی کچھ طالب علم میانوالی کو ہیلتھ اینڈ کیئر کی سہو لیا ت دینے کے خواہاں تھے اور کچھ کو یہ اعتراض تھا کہ میانوالی کے لو گ پرانے سوٹ ضا ئع کیوں کرتے ہیں،بلکہ ضا ئع کرنے کی بجا ئے وہ ہما رے پاس لے آ ئیں ہم انہیں مختلف ڈیزائن لگا کر انہی پرانے کپڑوں اور شرٹس کو نیا بنا دینگے وہ الگ بات ہے کہ وہ اس بات سے غا فل تھے کہ میانوالی کے چند ایک لوگ ایسے نواب ہونگے جن کے پرانے کپڑے ری نیو کرنے کے قابل ہو نگے ورنہ تو غر بت کی ماری عوام ایک ایک سوٹ کو چار چار سال سے بھی زیادہ کا عر صہ چلا رہی ہو تی ہے سوٹ کی جان تب چھوٹتی ہے جب بیچا رے کی حالت دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہاتھ جوڑ کر کہ رہا ہے اللہ دا ناں منو بھائی ہڑ تے چھوڑ دیو۔
ویڈیو میکنگ کا موضوع بھی بڑا زبر دست تھا ،چا ئلڈ لیبر، طلبہ و طا لبات نے اس موضوع پر ویڈیوز بنا کر چائلڈ لیبر کے خلاف احتجاج کیا کہ ہما رے مطابق ہم سب یہی تو کرتے ہیں،ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہما ری ہی یو نیورسٹی کی کینٹین میں دو ایسے ہی چائلڈ ورک کر رہے ہیں اور ہم انہیں بہت استحقاق سے آ رڈر دے رہے ہو تے ہیں۔
۱۱ مئی کو ہو نے والے مقابلہ جات میں پنجا بی اور انگلش تقریریں بھی شامل تھیں،مو ضو عات سب کے کمال تھے،پنجا بی تقریر کے دو موضو عات تھے۔خا لی مسیتاں گا لڑ امام اورسانوں کی۔ سانوں کی کے مو ضوع پر تمام شرکاء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔طلباء کا کہنا تھا کہ دنیا میں ہر جگہ ہزاروں ،کی، ایجاد ہو تی ہیں جن کا کام تا لے کھو لانا ہو تا ہے لیکن بھلا ہو پنجا بی بھا ئیوں کا جنہوں نے ایسی،کی، ایجاد کی ہے جو تا لے کھولنے کی بجا ئے تا لے لگا تی ہے،ذہنوں ،ہا تھوں ،کانوں اور آ نکھوں پہ تا لے لگاتی ہے ۔ہم بہت کچھ غلط ہو تا دیکھ ،سن اور محسوس کر رہے ہو تے ہیں لیکن ،سانوں کی ، کی یہ کی چالو کر کے ہم اندھے ،گونگے اور بہرے بن جا تے ہیں۔ہم اس ، سانوں ، کی کا لفظ سب سے زیادہ پاکستان کی سیا ست کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ہما رے حکمران پاکستان کو لوٹ کے کھا جائیں،لوٹ ما ر کا با زار گرم کریں،آ ف شور کمپنیاں بنا ئیں،ٹیکس دیں نہ دیں،غریبوں کے خون پسینے کی کما ئی کھا جا ئیں،اس سیاست کی خا طر قتل عام کریں ہم بس ایک ہی بات کرتے ہیں۔سانوں کی،سیاست سے ہما را کیا لینا دینا۔
۱۲ مئی کو ہو نے والے مقابلا جات میں بیت با زی اور اردو تقریریں بھی شامل تھیں۔بیت با زی میں بھی طلبا و طالبات نے اپنا لو ہا منوایا۔اردو تقریر کے مقابلہ جات میں بھی دوعنوانات تھے، قلب میں سوزنہیں روح میں احساس نہیں اور فیشن وقت کی ضرورت ہے۔ تقریبا ۳۶ طلبا و طالبات نے اردو تقریری مقابلے میں حصہ لیا جو کے کسی بھی مقابلے میں حصہ لینے والے طلبہ و طالبات کی سب سے بڑی تعداد تھی۔زیا دہ تر نے جس موضوع کا انتخاب کیا وہ اقبال کا مصرع ،قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں ،تھا بھرے ہال میں ایک کے بعد ایک طا لب علم کا اس مو ضوع پر بولنا یہ ثا بت کر رہا تھا کہ ہماری حکومت کو بے شک اقبال کی پیدا ئش کے دن پر چھٹی دینے سے تکلیف ہو،بے شک اقبال کو آ ہستہ آ ہستہ ہما رے سلیبس سے نکالتے جا ؤ لیکن وہ ہمیشہ سے ہما رے دلوں میں زندہ تھا اور قیامت تک زندہ رہے گا۔سوائے ایک طالب علم کے کسی نے بھی اقبال کے اس مصرعے کی مخالفت کرنے کی جرآ ت نہیں کی،سب کے سب حق میں دلائل دے رہے تھے،ہر ایک مسلما نوں پر ٹو ٹتے مظالم کی داستا نیں سنا کر عالم اسلام کی بے حسی کا رونا رو رہا تھا،ہر ایک کا دل کشمیر سے لے کر فلسطین اور شام سے لے کر بر ما تک ہونے والے مظالم اور پھر ان مظالم پر عالم اسلام کی خامو شی کے سبب خون کے آنسو رو رہا تھا۔۱۲ مئی کو تما م طلبا و طالبات تعداد زیا دہ ہو نے کے سبب اپنے خیالات کا اظہا ر نہ کر سکے اور پروگرام اگلے دن تک لے جا یا گیا جسے ۱۳ مئی کو مکمل کیا گیا تقریباََ ۴ کے قریب طلباء ایسے تھے جنہوں نے فیشن وقت کی ضرورت ہے کو موضو ع کلام بنا یا اور ہر ایک نے اس مو ضوع کی شدید مخالفت میں زبر دست دلائل پیش کئے اور یوں یہ میگا ایویٹ ۱۳ مئی کو اپنے اختتام کو پہنچا۔اس میگا ایونٹ کو کامیا بی سے ہمکنا ر کرنے میں مینیجمنٹ ٹیم کی انتھک کو ششیں شامل تھیں۔مینیجمنٹ ٹیم میں سٹوڈنٹ اور ٹیچرسی ایس اینڈ آ ئی ٹی ڈیپارٹمنٹ سے تھے یہی وجہ ہے کہ اس سارے ایونٹ کا کریڈٹ آ ئی ٹی اور سی ایس ڈیپارٹمنٹ کو جا تا ہے۔اس ایونٹ کے پیٹرن این چیف یو نیورسٹی کے ڈائریکٹرڈاکٹر الیاس طارق تھے جبکہ کنوینیئر کی ذمہ داری سی ایس اینڈ آ ئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر خا لد نے سر انجام دی۔اور پھر بلترتیب ڈپٹی کنوینینٹ سر مدثر علی زیدی،ڈائریکٹر ایڈمن حا فظ عمران صاحب اورایونٹ مینیجر کی ذمہ داری اس ایونٹ کے روح رواں شفعان خالق صا حب سے انجام دی۔

Back to top button